یکساں نظام تعلیم:کیوں اور کس طرح؟

یکساں نظام تعلیم:کیوں اور کس طرح؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے تعلیم و تربیت نے پورے مُلک میں یکساں نظام تعلیم لانے کی متفقہ طور پر حمایت کر دی، جبکہ سرکاری سکولوں میں تربیت یافتہ ایک نرس کی موجودگی کو لازمی قرار دے، جو بچوں کو دورانِ تعلیم و تربیت بروقت ابتدائی طبی امداد دورانِ بیماری فراہم کر سکیں۔ ٹرینڈ پیرا میڈیکل سٹاف فیکلٹی بل2018ء کو کثرتِ رائے سے منظور کر لیا۔یہ خوش آئند بات ہے کہ قائمہ کمیٹی برائے تعلیم و تربیت نے پورے مُلک میں ’’یکساں نظام تعلیم‘‘ لانے کی متفقہ طور پر حمایت کی۔ کسی مُلک کی معاشی، اقتصادی ترقی اور اخلاقی اقدار کو فروغ دینے کے تمام تر مرحلے اِسی تعلیم و تربیت ہی کے ذریعے طے کئے جاتے ہیں اور اُن پر عمل پیرا ہو کر قومی مقاصد کا حصول ممکن ہے،تعلیمی مقاصد طے کرتے ہوئے قومی مقاصد تعلیم برائے اخلاقی تربیت، گویا ہر مضمون کے پڑھائے جانے کے مقاصد متعین ہوں گے اور اس ’’مضمون‘‘ کے سلیبس کا فوکس،ان (Objectives) کو حاصل کرنے پر مرکوز ہو گا۔


اِس نصاب کی تیاری میں ماہرین تعلیم کی خدمات کے حصول کے ساتھ، جید علمائے کرام کا شامل کیا جانا از حد لازم ہے، کیونکہ ’’اسلامی فلاحی ریاست‘‘ بنانے کے لئے ہر ایک مضمون کا نصاب، اس کی تدریس کا طریقہ اور اس کا طریقہ امتحان(جائزہ) بھی اسی کے مطابق ہو گا اور یہ سب کچھ ماہرین کی ایک ٹیم ہی تیار کر سکتی ہے۔لہٰذا تجویز ہے کہ سب سے پہلے، دسویں جماعت تک گویا پہلی جماعت سے لے کر دسویں جماعت کے، پہلے دس سال کا نصاب مقرر کرنا، جس میں قرآن، حدیث، اسلامی تاریخ، عصری علوم میں فزکس، کیمسٹری، بیالوجی، اسٹرانومی، جیالوجی، بیالوجی، سپیس سائنس، تاریخ، جغرافیہ، معاشرتی علوم اور دیگر سماجی علوم کا شامل کیا جانا ہماری بنیادی ضرورت ہو تاکہ دس سالہ تعلیم کے دوران طالب علم خواہ وہ اسلامی مدارس کا ہو یا عصری اداروں کا ہو، اُسے عصری علوم کی بنیادی شُد بُد تو ہو سکے۔

اس کے بعد عصری علوم والے ایف اے/ایف ایس سی، بی اے/بی ایس سی،ایم اے/ایم ایس سی اور پی ایچ ڈی تک جانا چاہیں، تو جائیں تاکہ ان کی ذات کو بھی فائدہ ہو اور معاشرے کو بھی فائدہ پہنچے۔ بنیادی اسلام کی باتیں جاننا اور عصری علوم کی بنیادی باتوں کا علم ہونا ہر دو طرح کے اداروں کیلئے از بس لازم ہے تاکہ معاشرے میں ایک مثبت اور اچھا کردار ادا کرنے کے قابل ہو سکیں۔ ایسے ہی دس سالہ تعلیم کے بعد۔۔۔ جو عالم دین اور مفتی بننا چاہیں تو اُن کے لئے راستہ کھلا ہے۔ اِسی طرح کسی ایک شعبہ/شعبہ جات میں تخصص کرنا چاہیں تو وہ کر سکیں اور اپنے حاصل کردہ علم کے ذریعے، معاشرے میں علم کا نور اور روشنی عام کر سکیں۔ اِس طرح وہ ایک اچھے ذمہ دار شہری بھی بنیں گے اور ایک مسلمان بھی۔


آئین پاکستان کی شق25-A ایجوکیشن، اِس بات کی متقاضی ہے کہ پہلے دس سال تعلیم۔۔۔ ریاست کی ذمہ داری ہے۔ یہ سارے کا سارا کام،ریاست ہی سرانجام دے گی اور اِسی میں ہی، اِس پروگرام کی کامیابی کا راز مضمر ہے۔ اب پولیٹیکل وِل (Political Will) کا امتحان ہے کہ وہ کس قدر ان مقاصد کے حصول میں سنجیدہ اور عملی مظاہرہ کرتی ہے جو ریاست کو اپنی ذمہ داریاں نبھانے کے لئے ہر اعتبار سے کوشاں ہونا چاہئے،اِسی میں ہی اُن کی دنیا و آخرت کی کامیابی کی کلید ہے۔اس پراجیکٹ میں ایک بہت اہم کردار والدین کا بھی ہے۔اُن کو قائل کرنے کے لئے، دو طریقے ہیں ایک تو تعلیمی آگاہی کے فوائد۔۔۔ یہ خدمات میڈیا(پرنٹ/الیکٹرانک) سے لی جا سکتی ہیں۔ اِس بات کو مزید مستحکم بنانے کے لئے پارلیمینٹ میں قانون سازی بھی کی جائے تاکہ اس وقت اتنی بڑی تعداد میں جو تعلیم سے محروم ہے اُسے زیورِ تعلیم سے آراستہ کیا جا سکے اور اُن کی تربیت کی جا سکے۔

اِس نئے ’’نظام تعلیم‘‘ میں اسلامی اقدار کو فروغ دینے کے لئے موثر اقدامات کئے جائیں تاکہ ’’تعلیم‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’تربیت‘‘ کا رول ادا کیا جا سکے۔ مثلاً قرآن حکیم کی ناظرہ تعلیم ، قرآن حکیم کا ترجمہ پڑھانا اور مزید براں بالخصوص سردیوں کے موسم میں نمازِ ظہر کی ادائیگی کا بندوبست کیا جانا، سکول/مدرسہ ہی کی ذمہ داری مقرر کی جائے۔


بچپن میں سیکھی ہوئی تربیت کا اثر، عمر بھر ساتھ رہتا ہے اور وہ ایک اعتبار سے،آپ کے کردار کا ایک مستقل حصہ بن جاتا ہے۔ اچھی اسلامی اقدار و روایات کے مثبت اثرات، زندگی کے آخری ایام تک ساتھ جاتے ہیں اور وہ بھی بڑی شدت کے ساتھ۔ اس عمر میں سیکھی ہوئی بائیں۔۔۔ جن کو ہم امتحان کی تیاری کے لئے، کرتے ہیں، وہ آپ کے ذہن کا ایک مستقل حصہ بن جاتی ہیں اور بڑی عمر میں آپ کو عمل کی ترغیب دینے کے لئے ممدو معاون ثابت ہوتی ہیں۔اس کے لئے بجٹ میں جی ڈی پی کا ایک معتبر حصہ مقرر کیا جانا چاہئے، کم از کم6،7فیصد جی ڈی پی مختص کیا جائے۔ اِسی طرح تحقیق کے بغیر کوئی قوم سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہو سکتی۔ہائر ایجوکیشن میں جدید ترین علم اور تحقیقات کے پیش نظر نصاب مرتب کیا جائے اور ماہرین تعلیم کی خدمات حاصل کی جائیں۔ ایک ایک مضمون کے لئے الگ الگ کمیٹیاں بنائی جائیں اور ایک کنونیئر کے علاوہ کم از کم 10سے12 ماہرین کو ان میں شامل کیا جائے۔آیئے! بسم اللہ کیجئے!۔۔۔ کام شروع کریں اور نتیجہ اللہ تعالیٰ کے بھروسہ اور توکل پر چھوڑ دیں، ’’جو اللہ پر توکل اور بھروسہ کرتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اُس کے لئے کافی ہو جاتا ہے‘‘۔دُعا ہے اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین!

مزید :

رائے -کالم -