پنجاب ہیلتھ کےئر کمیشن کا ایک اورمعرکہ
خواتین و حضرات جہاں حکومت ملک کو ایک فلاحی ریاست بنانے میں مخلص نظر آتی ہے تو دوسری جانب سپریم کورٹ بھی اس کار خیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہے ۔حکومت کی کوشش رہی ہے کہ صحت ، تعلیم اور روزگار میں بہتری پر خصوصی توجہ دی جائے ۔ اس ایجنڈے پر عمل در آمد میں ملک کی اعلیٰ عدالتوں، بالخصوص عدالت عظمیٰ نے بھی ان شعبوں میں پائی جانے والی خامیوں کی نشاندہی کی ہے ۔ ان کو دور کرنے کے لئے از خود نوٹس بھی لئے گئے ہیں ۔ تعلیم کے حوالے سے بھاری فیسیں وصول کرنے والے نجی سکولوں پر بعض پابندیاں عائد کر کے ان کو ایک ضابطے کے تحت لانے کی ابتدا ہو چکی ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ طبی سہولتوں کے حصول میں آسانیاں پیدا کرنے کے لئے نجی ہسپتالوں میں مریضوں سے وصول کی جانے والی بھاری فیسوں کا بھی نوٹس لیا گیا ہے ا ور لیبارٹری ٹیسٹ ، آپریشن چارجز اور فیس مشورہ وغیرہ کے ریٹس اور معاوضے کا کوئی باقاعدہ نظام موجود نہ ہونے پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا ہے ۔ موجودہ حالات میں غریب اور متوسط طبقے کے لوگ ان ہسپتالوں میں علاج کرانے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔
ان تمام مسائل کے ازالے کے لئے پرائیویٹ ہسپتالوں میں طبی خدمات کے معاوضے اور ریٹس کا نوٹس لیتے ہوئے سپریم کورٹ نے پنجاب ہیلتھ کےئر کمیشن کو لاہور کے 17 پرائیویٹ ہسپتالوں میں دی جانے والی خدمات کے ریٹس کا جائزہ لینے اور معاوضے کا ایک معقول نظام تشکیل دینے کے لئے تجاویز طلب کیں۔یہ ذمہ داری تفویض کرنے کا مقصد ہسپتالوں میں مریضوں سے لئے جانے والے موجودہ چارجز کا جائزہ لینا اور اس سلسلے میں ایک مناسب ، قابل عمل اور حقیقت پسندانہ ماڈل تجویز کرنا تھا ۔ اس کمیشن نے اس حوالے سے ہسپتالوں کی درجہ بندی کی ہے،جس کی بنیاد ہسپتالوں کی قانونی حیثیت اور کمیشن سے لائسنس یافتہ ہونا ، بنیادی ڈھانچہ ، مریضوں کے قیام کے انتظامات ، آپریشن تھیٹر ،لیبارٹری اور ریڈیالوجی کی خدمات اور ایمر جنسی کی سہولتوں وغیرہ کا شامل ہونا ہے۔
پنجاب ہیلتھ کےئر کمیشن کا یہ کام پاکستان میں اپنی نوعیت کی واحد مثال ہے جس میں مریضوں کے چیک اپ سے لے کر ٹیسٹ، ہسپتالوں میں قیام اور سرجری اور دیگر سہولتوں کی فراہمی کے اخراجات لیے جانے کی تجاویز مرتب کی ہیں ۔ اس سے قبل ہسپتالوں میں مختلف طبی خدمات کے چارجز کا کوئی اصول ، طریقہ کار یا معیار موجود نہیں تھا،بلکہ یہ تمام نظام ہسپتال انتطامیہ کی صوابدید پر چل رہا تھا۔مریضوں کے پاس ان چارجز کو ادا کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا اور نہ ہی کوئی شنوائی تھی ۔ ان ریٹس کو کہیں چیلنج بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔کمیشن نے ماہرین صحت کے مشورے سے آپریشن کی فیس، فیس مشورہ ، مریضوں کو وزٹ کرنے کے چارجز، کمرے کا کرایہ اور معمولی قسم کے ٹیسٹ سے لے کر آپریشن تک کے چارجز کا تعین تجویز کیا ہے۔
چارجز تجویز کرنے کے لئے طبی آلات کے استعمال، ڈاکٹرز اور نرسوں کی خدمات کے دورانئے اور دیگر سہولیات کا بنیادی تخمینہ لگایا گیا ہے۔ ہسپتالوں میں طبی خدمات کے موجودہ مختلف ریٹس اور کمیشن کے تجویز کردہ نرخ بڑی تفصیل سے اخبارات میں شائع ہو چکے ہیں،تاہم اس سارے عمل میں ہنوز چند گزارشات توجہ طلب ہیں۔ مثلاََ پنجاب ہیلتھ کےئر کمیشن کی مخلصانہ کاوش پر عمل در آمد کب تک ممکن ہو پائے گا اور کیا اس ساری تگ و دو کو پرائیویٹ ہسپتال من و عن قبول کریں گے ۔ پھر یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ اگر یہ خواب واقعی ہی شرمندۂ تعبیر ہو جاتا ہے تو پنجاب کے مختلف اضلاع سے مریضوں کا لاہور کے ان نجی ہسپتالوں کی طرف رش بڑھ جائے گا ۔ ان حالات میں یہ ضروری ہوگا کہ اس اقدام کو دیگر شہروں اور ڈویژن کی سطح تک وسعت دی جائے۔
پنجاب ہیلتھ کےئر کمیشن نے گزشتہ چند برسوں میں نمایاں کامیابیوں کا ثبوت دیا ہے،بالخصوص عطائیت کے خاتمے کے لئے کریک ڈاؤن شروع کیا ہوا ہے ۔ کمیشن نے 2015ء سے تاحال 27,000سے زیادہ علاج گاہوں پر چھاپے مارے ہیں اور 18,000سے زیادہ عطائیت کے اڈوں کو سربمہر کیا ہے، جبکہ 25کروڑ سے زائد کے جرمانے عائد کئے ہیں ۔کمیشن نے اب تک 54,000سے زیادہ علاج گاہوں کو رجسٹرکیا ہے، جبکہ 36,000 سے زیادہ کو لائسنس جا ری کئے ہیں۔ کمیشن نے سرکاری و غیر سرکاری ہسپتالوں ، دیہی و بنیادی مراکز صحت ، ڈینٹل کلینکس، لیبارٹریز، فیملی فزیشنز ، ہومیو پیتھک کلینکس اور حکیموں کے مطب پر صحت کی خدمات کے کم سے کم معیار ات تیار کئے ہیں ۔ ان معیارات کا اطلاق قانونی طور پر ان علاج گاہوں کی ذمہ داری ہے ۔ اس مقصد کے لئے علاج گاہوں کے عملے کو تربیت بھی دی جاتی ہے۔
خواتین و حضرات مرزا غالب نے کیا خوب کہا تھا :
درد منت کش دوا نہ ہو
مَیں نہ اچھا ہوا، برا نہ ہوا
لیکن دور حاضر میں ، بیماری اور درد کے لئے ہر مریض کو علاج اور دوا پر انحصار کرنا پڑتا ہے،جس کے لئے وہ اپنی ہر طرح کی جمع پونجی، حتیٰ کہ اپنی منقولہ و غیر منقولہ جائیداد تک فروخت کرنے پر مجبور ہوتا ہے ۔اگر حکومت پنجاب کی یہ کوششیں رنگ لے آتی ہیں تو غریبوں کی زندگی میں مسرت کی لہر دوڑ جائے گی۔ان تمام معاملات کے لئے جہاں نظریں عدالت عظمیٰ پر جمی ہیں، وہیں پنجاب ہیلتھ کےئر کمیشن سے بھی امیدیں وابستہ ہیں۔یہاں ہمیں یہ بھی عرض کرنا ہے کہ کمیشن نے جو نرخ تجویز کئے ہیں ان کے نفاذ کے لئے ایک موثر طریقہ کار اور سسٹم وضع کرنے کی بھی ضرورت ہے تاکہ یہ کار خیر اپنے مقاصد بطریق احسن حاصل کر سکے۔