حکومت کو بار بار بجٹ پیش کرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہو رہی ہے ؟

حکومت کو بار بار بجٹ پیش کرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہو رہی ہے ؟
حکومت کو بار بار بجٹ پیش کرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہو رہی ہے ؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تجزیہ:قدرت اللہ چودھری

سیاسی حکومتیں ویسے تو پانچ سال کیلئے منتخب ہوتی ہیں اور اگر مدت پوری کرلیں تو اپنے پورے عرصہ اقتدار میں پانچ بجٹ پیش کرتی ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت اس لحاظ سے شاید منفرد حکومت تھی کہ اس نے اپنے پانچ سالہ عہد میں چھ بجٹ پیش کئے۔ اس حکومت کی مدت 31مئی 2018ء کو پوری ہوئی تھی جس کے بعد انتخابات کرانے کیلئے نگران حکومتیں قائم ہوئیں چونکہ انتخابات کے بعد نئی حکومت کا قیام اگست سے پہلے ممکن نہیں تھا اس لئے شاہد خاقان عباسی کی حکومت نے فیصلہ کیا کہ وہ 2018-2019ء کے مالی سال کا بجٹ بھی پیش کرے گی، یہ بجٹ مفتاح اسماعیل نے پیش کیا جو منتخب وزیر نہیں تھے لیکن آئین سے اس کی گنجائش نکال کر انہیں وزیر خزانہ بنایا گیا اور انہوں نے نئے سال کا بجٹ بھی پیش کردیا۔ تحریک انصاف کی حکومت نے اقتدار سنبھالا تو اس نے اس بجٹ میں ردوبدل کی ضرورت محسوس کی، چنانچہ ایک ترمیمی فنانس بل قومی اسمبلی میں پیش کرکے منظور کرایا گیا جس میں کچھ نئے ٹیکس لگائے گئے اور پرانوں میں ردوبدل کیا گیا۔ یہ واحد بل ہے جو حکومت اس اسمبلی سے منظور کراسکی ہے کوئی دوسرا بل تاحال منظور نہیں ہوا۔ لیکن اب اس ترمیمی بل میں مزید ترمیم کی جارہی ہے اور قومی اسمبلی کے اجلاس میں جو 14جنوری سے شروع ہوگا نیامنی بجٹ پیش کیا جا رہا ہے جس میں کم از کم 155ارب کے نئے ٹیکس لگائے جا رہے ہیں اور بعض برآمدی صنعتوں میں استعمال ہونے والے خام مال پر درآمدی ڈیوٹی کم کی جا رہی ہے۔ لیکن یہ محض اندازے ہیں جب پردہ اٹھے گا تو معلوم ہوگا کہ اس بجٹ کے ذریعے دودھ اور شہد کی نہریں بہانے کیلئے حکومت کے فرہاد اسد عمر نے کیا کیا اقدامات کئے ہیں۔ ویسے تو وہ اپنی وزارت کے دوران کوئی ایسا کارنامہ نہیں کرسکے جسے فخر کے ساتھ پیش کرسکیں۔ حتی کہ پٹرول کی قیمتیں بھی کم نہیں کر سکے جن کے بارے میں وہ دعوی کیا کرتے تھے کہ چالیس پینتالیس روپے سے زیادہ نہیں ہونی چاہئیں کیونکہ اس سے زیادہ جو کچھ بھی ہے وہ لوگوں کی جیب میں چلا جاتا ہے اب تو ظاہر ہے کسی کی جیب میں کچھ نہیں جا رہا تو تیل کی قیمت کم کیوں نہیں ہو رہی، اس کا جواب اسد عمر کے ذمے ہے حالانکہ عالمی منڈی میں قیمتیں حالیہ تاریخ میں کم ترین سطح پر ہیں اور یہ موجیں زیادہ عرصے تک برقرار نہیں رہ سکیں گی۔ چند ماہ میں اضافے کا سرکل دوبارہ شروع ہوگا تو اس وقت حکومت سے کیا توقع رکھی جاسکتی ہے۔ اس لئے بہتر ہے عوام کو ابھی سے کوئی ریلیف دے دیا جائے۔ اس سے پہلے کہ چراغوں میں روشنی نہ رہے۔
اس حکومت کو چونکہ بہت سے تاریخی ریکارڈ قائم کرنے کی جلدی ہے جیسے وزیراعظم کا یہ فیصلہ کہ وہ وزیراعظم ہاؤس میں نہیں رہیں گے، پہلے انہوں نے پنجاب ہاؤس کا انتخاب کیا پھر نگاہ انتخاب منسٹرز کالونی پر پڑی، بالاخر فیصلہ ہوا کہ وہ وزیراعظم ہاؤس کے اس حصے میں ٹھہریں گے جہاں ملٹری سیکرٹری کی رہائش تھی یہ رہائش تو پسند آگئی لیکن اس میں نیا فرنیچر ایمرجنسی میں لگوایاگیا، ملٹری سیکرٹری کیلئے متبادل رہائش کا بندوبست کیا گیا، پھر اعلان ہوا کہ وزیراعظم ہاؤس میں یونیورسٹی بنائی جائے گی اس پر کام بھی شروع کردیا گیا اور یونیورسٹی کی ابتدائی تیاریوں کیلئے ایک افسر اور ان کا سٹاف وزیراعظم ہاؤس میں بٹھا دیا گیا، وہ شاید ابھی تیاری وغیرہ کے مراحل سے ہی گزر رہے تھے کہ اس دوران ابوظہبی کے ولی عہد کے دورے کا شیڈول آگیا اب انہیں ٹھہرانے کیلئے وزیراعظم ہاؤس ہی پر نگاہ پڑی۔ ایمرجنسی میں یونیورسٹی کے عملے کا فرنیچر اٹھایا گیا اور معزز مہمان کے شایان شان انتظامات کئے گئے، اب معلوم نہیں وزیراعظم ہاؤس میں دوبارہ یونیورسٹی کا عملہ آئے گا یا نہیں کیونکہ اگلے مہینے ملائیشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد نے بھی دورے پر آنا ہے اس لئے انہیں ٹھہرانے کیلئے شاید اسی جگہ کا انتخاب کرنا پڑے۔
ایسے ہی اقدامات کی طرح حکومت بجٹ پیش کرنے میں بھی ریکارڈ قائم کرنا چاہتی ہے، رواں سال کے بجٹ میں ایک ترمیم تو پہلے ہو چکی اب یہ دوسری ترمیم ہے جو رواں ماہ ہوگی اور نہیں کہا جاسکتا کہ مالی سال کے اختتام تک اور کتنے بجٹ پیش کئے جائیں، ایک ستم ظریف نے اس پر یہ تبصرہ کیا کہ جو حکومت اپنی مدت پوری کرے وہ پانچ بجٹ پیش کرتی ہے چونکہ تحریک انصاف جلدی میں ہے اس لئے وہ چاہتی ہے کہ جلدی جلدی اپنے بجٹوں کی تعداد پوری کرلے کیونکہ بے یقینی کے اس ماحول میں جب قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹیاں ہی نہیں بن رہیں کیا معلوم پانچ برس کا عرصہ ہی پورا نہ ہوسکے۔
نیا منی بجٹ اگر معیشت کو درپیش چیلنجوں سے نپٹنے کیلئے لایا جارہا ہے تو اچھی بات ہے لیکن اس کیلئے جن اقتصادی اصلاحات کی ضرورت ہے کیا ان پر بھی کوئی ہوم ورک کیا گیا ہے اس کا اندازہ تو منی بجٹ دیکھ کر ہی ہوگا تاہم حکومت نے بیرون ملک پاکستانیوں کی جانب سے ترسیل زر میں اضافے کی جو امیدیں لگائی تھیں وہ پوری نہیں ہوئیں۔ اگرچہ ترسیلات زر میں تھوڑا بہت اضافہ ضرور ہوا ہے رواں مالی سال کے پہلے چھ ماہ (جولائی تا دسمبر) میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے10.7 ارب ڈالر پاکستان بھجوائے اگر اگلے چھ ماہ میں بھی یہی شرح برقرار رہے تو سالانہ ترسیلات زر 21ارب ڈالر تک پہنچ جائیں گی تاہم وزیراعظم عمران خان کہہ چکے ہیں کہ ترسیلات زر کو 35ارب ڈالر تک پہنچایا جاسکتا ہے موجودہ حالات میں تو یہ شرح کسی صورت حاصل نہیں ہوسکے گی کیونکہ ڈیم فنڈکیلئے بھی بیرون ملک سے توقع کے مطابق رقوم نہیں آسکیں، اگرچہ حکومت بار بار یہ خوشخبری سنا رہی ہے کہ بیرون ملک سے بھاری سرمایہ کاری آرہی ہے بلکہ ہاؤسنگ کے شعبے میں ایک ہی سرمایہ کار (انیل مسرت) کی طرف سے 16ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا گیا تھا لیکن لگتا ہے یہ بھی خوش فہمی کے سوا کچھ نہیں۔

مزید :

تجزیہ -