سپریم کورٹ کی کہانی ایک رپورٹر کی زبانی
پی ٹی وی میں ملازمت کے سلسلے میں کراچی، کوئٹہ اور فیصل آباد میں کئی سال گزارنے کے بعد جب میں 1986ء میں اسلام آباد میں سیٹل ہوا تو یہاں جن لوگوں سے تعلق بنا ان میں اوروں کے علاوہ ایک پنڈی وال گروپ شامل تھا اس گروپ میں احتشام الحق، ناصر ملک، الیاس چوہدری اور میرے ایک کولیگ پرویز رشید بھٹی شامل تھے اس گروپ کو مقامی ہونے کا ایڈوانٹچ بھی حاصل تھا اور پھر یہ لوگ دوستی تعلق کا لحاظ رکھنے والے تھے، لہٰذا انہوں نے جرنلسٹ برادری میں اچھا نام کمایا۔ احتشام الحق اور ناصر ملک تو ڈان سے وابستہ رہے اور اب بھی فیلڈ میں موجود ہیں۔ الیاس چوہدری نے جنگ سے ریٹائرمنٹ کے بعد سینیٹ سیکرٹریٹ اور پھر کچھ عرصہ اے پی پی میں کام کیا۔انہو ں نے سپریم کورٹ سے متعلق یادوں پر مشتمل ایک کتاب لکھی ہے۔ کتاب کا نام ہے ”سپریم کورٹ سے“ جنگ اخبار سے وابستگی کے دوران سپریم کورٹ اُن کی بیٹ تھی اور انہوں نے اپنی بیٹ کے ساتھ انصاف کیا۔ سپریم کورٹ کی رپورٹنگ مشکل اور کسی حد تک بورنگ کام ہے سرکاری نوکری کی طرح روز صبح 9 بجے عدالت پہنچنا ایک جرنلسٹ کے لئے کافی مشکل کام تھا، لیکن الیاس چودھری نے یہ کام بڑی دل لگی سے کیا۔
سپریم کورٹ ریاست کا ایک اہم ستون ہے اور ریاست کے ساتھ ساتھ ہر شہری کی امیدوں کا مرکز بھی۔ جب شہریوں کو انصاف کی ضمانت ہو تو معاشرے میں سکون اور استحکام ہوتا ہے، لیکن بدقسمتی سے ہمارے دوسرے اداروں کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ میں بھی استحکام نہیں رہا،بلکہ متنازعہ کچھ فیصلوں کے علاوہ کئی مواقع پر معزز جج صاحبان کے درمیان کافی محاذ آرائی رہی۔ یہ ساری کہانی الیاس چوہدری نے اپنی کتاب میں خوب سمیٹی ہے۔ البتہ جہاں جہاں سیاسی شخصیات کے مقدمات اور انتظامی فیصلوں کا ذکر آیا ہے وہاں چوہدری صاحب کی تحریر میں کچھ جانبداری جھلکتی ہے۔ سیاسی پارٹیوں اور شخصیتوں کے بارے میں رائے رکھنا ہر کسی کا حق ہے، لیکن بہتر ہوتا یہ باتیں اپنی زیرتصنیف کتاب میں لکھتے کیونکہ اُن کے بقول اُس کا موضوع ہی سیاست ہے۔ ججوں کے بارے میں بھی کہیں کہیں وہ افراط و تفریط کا شکار ہوئے ہیں تاہم یہ ان کے ذاتی تحفظات ہیں۔
بہرحال دو سو تیس صفحات پر مشتمل کتاب میں عام آدمی کی دلچسپی کا کافی مواد موجود ہے اور کئی تبصرے بھی غور طلب ہیں۔ عدالتوں میں مقدمات کی بھرمار ہے اور زیادہ وقت سیاسی اور فوری نوعیت کے کیسز کی نذر ہو جاتا ہے۔ اس کے لئے مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی نے میثاق جمہوریت میں ایک الگ آئینی عدالت کے قیام پر اتفاق کیا تھا، لیکن افسوس کہ اس پر عملدرآمد نہ ہو سکا، جس کا خمیازہ میرے جیسے عام آدمی بھگت رہے ہیں۔میں نے سپریم کورٹ میں 2014ء میں ایک سول اپیل داخل کی تھی، جس کی آج تک سماعت شروع نہیں ہو سکی۔ اس دوران یکے بعد دیگرے میرے دو وکیل انتقال کر چکے ہیں۔ پھر میں نے پولیس فاؤنڈیشن سے ایک پلاٹ الاٹ کرایا تھا جو میں نے 18سال پہلے بیچ دیا،لیکن جسٹس افتخار چودھری کے ایک سوموٹو کے نتیجے میں مجھے اُس پلاٹ کے لئے چھ لاکھ روپے مزید جمع کرانے کا حکم دیا گیا ہے۔ انسان ایسے فیصلوں پر صرف خدا سے فریاد کر سکتا ہے سپریم کورٹ کو تو کچھ نہیں کہہ سکتا۔ یہ تو میری کہانی ہے ورنہ ”انصاف“ کی ایسی ایسی کہانیاں ملتی ہیں کہ آدمی کی عقل جواب دے جاتی ہے۔عدالت عالیہ کے چیف جسٹس صاحبان نے بھی کئی موقعوں پر نظام عدل پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے، لیکن نظام کی اصلاح کیلئے کوئی ٹھوس کام نظر نہیں آتا۔
مَیں نے اگرچہ کبھی کورٹ رپورٹنگ نہیں کی، لیکن پی ٹی وی میں سینئر پوزیشنز پر کام کرنے کے دوران کئی دفعہ مجھے سپریم کورٹ سے متعلق خبروں کی وجہ سے کافی مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر کے زمانے میں رجسٹرار صاحب نے مجھے طلب کیا اور کہا کہ چیف جسٹس صاحب خبرنامے میں اپنی خبروں کی Placing سے خوش نہیں ہیں اُن کی خبر صدر اور وزیراعظم کے بعد آنی چاہئے کیونکہ آئین کی رو سے یہی پروٹوکول بنتا ہے اس پر ہمارے درمیان کچھ تلخی بھی پیدا ہو گئی، کیونکہ یہ مطالبہ نامناسب تھا۔ پھر ایک دفعہ ملک ریاض سے متعلق سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کی خبر خبرنامے میں شامل کرنے کا بھی مجھے خمیازہ بھگتنا پڑا۔
کتاب کے آخری باب ”یادوں کے دریچے“ میں مصنف نے بڑے دلچسپ واقعات اکٹھے کئے ہیں مثلاً ایک نازک موقع پر سینئر موسٹ جج جناب بھگوان داس کا بھارت میں عبادت کے لئے غائب ہو جانا، وسیم سجاد کا وکالت کے ذریعے روٹی کمانے کا خیال، الیکشن لڑنے کے لئے بی اے کی شرط کا خاتمہ وغیرہ شامل ہیں۔جنرل پرویز مشرف کی صدارت کے دوران سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے استعفیٰ دینے سے انکار کے پس منظر کے بارے میں انہوں نے بڑی غور طلب بات کی ہے اُن کے مطابق چودھری افتخار کی ”بہادری“ کے پیچھے اُس وقت کے ایک افسر کا اشارہ تھا، لیکن اس بارے میں ممتاز وکیل حامد خان نے کچھ اور کہانی بیان کی ہے۔
وضاحت:”کی جاناں میں کون“ کے عنوان سے میں نے جو کالم لکھا تھا اس کا دوسرا حصہ غلط ملط ہو گیا۔ عنوان کوئی اور تھا اور مواد کچھ اور“…… ”یادوں کی کہکشاں“کے عنوان سے چھپنے والا کالم دراصل ”کی جاناں میں کون“ کا دوسرا حصہ تھا۔ اس کے خوبصورت عنوان کا کریڈٹ ایڈیٹر صاحب کو جاتا ہے۔