بحران در بحران کی لپیٹ میں نیا سال
لگتا ہے نیا سال حکومت کے لئے آزمائشوں کا سال بن کر طلوع ہوا ہے۔ نئے برس کا سورج چڑھتے ہی مچھ کے کان کنوں کا سانحہ ہو گیا جہاں نا معلوم حملہ آوروں نے انسانیت سوز کارروائی کرتے ہوئے ایک ہی برادری (ہزارہ) کے مزدوروں کو شناخت کر کر کے ذبح کر دیا۔ ہزارہ برادری شیعہ مسلک سے تعلق رکھتی ہے۔ اس کے ساتھ یہ پہلا واقعہ نہیں ہوا انہیں کئی بار دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا غالباً 2007ء میں اس سے ملتا جلتا سانحہ ہوا۔ تب بھی سخت سردی اور طوفانی بارش میں یہ برادری اپنے مقتولین کی لاشیں سڑک پر رکھ کر سراپا احتجاج بن گئی تھی۔ اس بار بھی ہزارہ برادری نے اپنے پیاروں کی میتیں کوئٹہ کی بائی پاس پر رکھ کر احتجاج شروع کر دیا تب عسکری قیادت کی یقین دہانی پر مقتولین کی تدفین ہوئی تھی۔ اس بار وزیر اعظم عمران خان نے خود ہی اس واردات کو فرقہ وارانہ دہشت گردی قرار دے دیا تو احتجاج بھی فرقہ وارانہ ہو گیا۔ ملک بھر میں مجلس وحدت المسلمین نے تمام بڑے چھوٹے شہروں کی اہم شاہراہوں کو دھرنے دے کر بند کر دیا۔ ملک کے اقتصادی دارالحکومت کراچی کے تیس مقامات پر دھرنے دیئے گئے۔ یہاں تک کہ ہوائی اڈے کا راستہ بھی بند کر دیا گیا چنانچہ دو دنوں میں پچاس سے زائد پروازیں منسوخ ہوئیں۔
مال و اسباب کی نقل و حمل نا ممکن بنا دی گئی۔ معیشت جمود کا شکار ہوتی نظر آنے لگی متاثرین کے نمائندوں نے جو مطالبات پیش کئے تھے انہیں پہلے ہی دن تسلیم کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا۔ اس سلسلے میں تحریری معاہدہ بھی کرایا گیا مگر متاثرین کا اصرار تھا کہ وزیر اعظم عمران خان خود متاثرین کے دھرنے میں پہنچ کر مطالبات تسلیم کرنے کا اعلان کریں تب احتجاج ختم ہو گا۔ وزیر اعظم نے وزیر داخلہ شیخ رشید کو بھیجا پھر وفاقی وزیر علی زیدی اور مشیر زلفی بخاری کو بھیجا، وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال کو بھیجا مگر وہ متاثرین کو متاثر نہ کر سکے۔ احتجاج روز بروز بڑھتا اور پھیلتا گیا۔ بڑے شہروں سے چھوٹے شہروں تک پہنچ گیا۔ سیاسی رہنما بھی کوئٹہ کے احتجاجی دھرنے میں پہنچنا شروع ہو گئے۔ اختر مینگل سے لے کر بلاول بھٹو اور مریم نواز تک، مولانا عبدالغفور حیدری سے لے کر سراج الحق تک سبھی اظہار یکجہتی کے لئے وہاں پہنچتے رہے اور اپنے اپنے انداز میں عمران خان کو ہدف تنقید بناتے رہے کہ وہ متاثرین کے مطالبے پر ان سے ہمدردی کے لئے دھرنے میں کیوں نہیں پہنچے؟ ادھر عمران خان کا موقف تھا کہ پہلے مقتولین کی تدفین کی جائے وہ پھر کوئٹہ پہنچیں گے۔ اپوزیشن لیڈروں نے بھی عمران خان کی سنگدلی کی مذمت کرتے ہوئے متاثرین سے مقتولین کو اللہ کے سپرد (تدفین) کرنے کا مشورہ دیا مگر متاثرین نہ مانے۔
وزیر اعظم نے تمام تر تنقید کے باوجود اعلان کر دیا کہ ”دنیا میں اس طرح وزیر اعظم کو بلیک میل نہیں کیا جاتا۔ جونہی تدفین ہو گی وہ کوئٹہ پہنچ جائیں گے۔“ معاملہ سنگین صورت اختیار کرتا جا رہا تھا کہ رات گئے اچانک تدفین کا اعلان کرتے ہوئے دھرنا ختم کر دیا گیا۔ قبریں کھدنے لگیں لوگ دھرنے سے جانے لگے معاہدے پر دستخط ہو گئے۔ صبح مقتولین کی تدفین کے ساتھ ہی ماحول کی کشیدگی ختم ہو گئی وزیر اعظم کوئٹہ پہنچے۔ یونیورسٹی میں مقتولین کے لواحقین سے ملاقات کی ان سے اظہار تعزیت کیا انہیں معاہدے پر عملدرآمد کی یقین دہانی کرائی اور مطمئن ہو کر دارالحکومت واپس لوٹ گئے۔ بظاہر یوں لگا (اور کہا بھی گیا) کہ عمران خان جیت گئے مظاہرین ہار گئے بعد میں جب افواہ کی صورت خبر پھیلی اور بڑے کالم نگار صحافی ہارون الرشید نے تصدیق بھی کی کہ سرکاری وفود اور وفاقی وزراء کی ناکامی کے بعد رات کو ایران کے ایک ممتاز مذہبی رہنما سے دھرنا قیادت کو فون کرایا گیا تو دھرنا ختم ہوا۔ اگر یہ درست ہے تو جناب وزیر اعظم!آپ جیتے نہیں ہارے ہیں۔ آپ کا اقتدار ہار گیا آپ کا پورا سیاسی و انتظامی ڈھانچہ ہار گیا۔ فیصلے جب باہر کی ہدایت پر ہوں تو اندر کی حکومت ہوئی اور نہ ہوئی برابر ہے۔
ابھی اس بحران کی گرد بھی پوری طرح نہیں بیٹھی تھی کہ ہفتہ کی رات پورا ملک اچانک تاریکی میں ڈوب گیا۔ گدو پاور سٹیشن میں خرابی ہو گئی چند سیکنڈ میں سارا برقی نظام بیٹھ گیا۔ ملک افواہوں کی زد میں آ گیا کہا جانے لگا کہ بھارت نے حملہ کر دیا ہے اس لئے بلیک آؤٹ کر دیا گیا ہے حالانکہ حملے یا جنگ کی صورت میں بجلی بند نہیں کی جاتی۔ لوگوں کو بتیاں بجھانے کا کہا جاتا ہے۔ دوسری افواہ یہ پھیل گئی کہ فوج نے حکومت کا تختہ الٹ کر مارشل لاء لگا دیا ہے حالانکہ وطن عزیز میں کبھی مارشل لاء رات کو بجلی بند کر کے نہیں لگا یہ بریک ڈاؤن تھا اور تاریخی بریک ڈاؤن تھا تقریباً بارہ گھنٹے ملک کے طول و عرض میں بجلی بند رہی۔ حکمران شکر کریں کہ سردیاں ہیں اگر گرمیاں ہوتیں تو لوگ قمیضیں بنیانیں اتار کر سڑکوں پر آ جاتے۔
احتجاج کوئی بھی رخ اختیار کر سکتا تھا۔ ستم بالائے ستم یہ کہ اگلا سارا دن سرکاری ترجمان یہ درفطنی چھوڑتے رہے کہ (ن) لیگ کی حکومت دھڑا دھڑ بجلی بنانے کے کارخانے لگا کر بجلی کی پیداوار بڑھاتی رہی مگر ترسیلی نظام پر کوئی توجہ نہیں دی۔ ہزاروں میگا واٹ بجلی کا تو اضافہ کر لیا مگر گھروں، کارخانوں تک بجلی پہنچانے کا انتظام نہیں کیا۔ (ن) لیگ کے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے جواب دیا کہ اگر ترسیلی نظام نہ ہوتا تو حالیہ گرمیوں میں 4500 میگا واٹ بجلی کیسے صارفین تک پہنچتی رہی۔ جبکہ اس دوران بریک ڈاؤن بھی نہیں ہوا۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی حکومت نے ایک ہزار کلومیٹر طویل ٹرانسمیشن لائن بچھائی اور جو ترسیلی منصوبہ ایک دو ماہ میں مکمل ہونے جا رہا ہے وہ بھی انہی کے دور میں شروع ہوا۔
اس تازہ برقی بحران میں ہماری محبوب حکومت نے دو کام تو فوری طور پر کر دیئے ہیں۔ ایک تو لیگی رہنماؤں کے اس دعوے کی تصدیق کر دی ہے کہ ان کی حکومت نے دھڑا دھڑ بجلی بنانے کے کارخانے لگا کر لوڈشیڈنگ کا عذاب ختم کر دیا۔ دوسرے یہ کہ گدو پاور پلانٹ کے ڈپٹی مینجر سمیت 7 ملازمین کو معطل کر دیا ہے۔ اب تحقیقات ہوں گی یوں بھی ہماری محبوب حکومت اور کچھ کرے نہ کرے حادثات، سانحات اور المناک واقعات کی تحقیقات نہ صرف کراتی ہے بلکہ تحقیقاتی رپورٹ جاری بھی کرتی ہے۔ ہمیں یقین رکھنا چاہئے کہ کبھی نہ کبھی ان تحقیقاتی رپورٹوں کی روشنی میں ذمہ داران کو نشانِ عبرت بنانے کا مرحلہ بھی آئے گا بشرطیکہ ان کا تعلق مخالف شرپسند عناصر سے ہوا۔