قاضی حسین احمد 

قاضی حسین احمد 
قاضی حسین احمد 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


قاضی حسین احمد اگرچہ جماعت اسلامی کے امیر تھے لیکن ان کی عزت،  مرتبہ قدر و منزلت ہر مذہبی جماعت میں ایسے ہی کی جاتی تھی جیسے  وہ جماعت اسلامی کے نہیں تمام مذہبی جماعتوں کے رہنماء  ہیں۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ قاضی حسین احمد جیسی شخصیت جماعت اسلامی اور پاکستان کی سیاسی و مذہبی فضاء کے لئے ایک آکسیجن کی حیثیت رکھتی تھی اور ان کے نو سال قبل دنیا سے رخصت ہونے کے بعد سے اس آکسیجن میں کمی ہی ہوئی ہے اور ہی ان کے بعد مذہبی و سیاسی جماعتوں کو ان جیسی ہمہ جہت شخصیت میسر نہیں آئی ہے جس پر سب اپنا حق جتا سکیں کیوں کہ قاضی حیسن احمد ایک باغ و بہار شخصیت تھے یہ کہنا بے جا نہ ہو گا(سراج الحق بھی اپنے پیش رو کی سنت پر چلنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں جس میں وہ بڑی حد تک کامیاب ہوئے ہیں) مجھ نا چیز کی بھی قاضی حسین احمد کے ساتھ بڑی نیاز مندی رہی ہے ملی یکجہتی کونسل بنائی تو قاضی صاحب کے ساتھ کام کرنے ان کے طریقہ کار کو دیکھنے کا موقع ملا۔

راقم اس بات کا گواہ ہے اگرچہ وہ امیر تھے لیکن وہ کام ایک کارکن کی طرح کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بار ملی یکجہتی کونسل کا اجلاس ہو رہا تھا  جس میں میرے ساتھ اس وقت ملی یکجہتی کونسل کے انفارمیشن سیکرٹری برادرم ثاقب اکبر بھی موجود تھے اور قاضی صاحب سٹیج پر تشریف فرما تھے۔میں ان کے سامنے مہمانوں والی نشست پر موجود تھا۔میرے سے اگلی نشست پر ان کا پریس سیکرٹری بیٹھا ہوا تھا تو قاضی صاحب اجلاس کی جو کارروائی بھی میڈیا کو بھیجنا چاہتے تھے پریس سیکرٹری جب لکھتا توباقاعدہ طور پر قاضی صاحب اس کو چیک کرتے پھر اس میں جو املا کی غلطیاں ہوتیں تو اس کو درست کروا کر بھیجنے کی ہدایت کرتے۔یعنی کہ وہ اس حد تک اپنے کام میں مخلص تھے چاہتے تھے کہ ایک بھی غلطی نہ ہو اور یہ نہیں ظاہر کیا کہ وہ امیر ہیں تو اتنا معمولی کام کرتے ہوئے انہیں کوئی عار ہے اورمذہبی و سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں اور کارکنوں کیلئے ان کی شخصیت مشعل راہ ایسے ہی نہیں تھی۔

راقم اگرچہ ایک ادنی سیاسی کارکن ہے لیکن قاضی صاحب مجھ نا چیز سے بھی ایسے پیار محبت سے پیش آتے تھے کہ میں اتنے برس گزر جانے کے بعد بھی ان کا لمس محسوس کر سکتا ہوں اور ان کی شخصیت کا ہالہ جیسے میرے اردگرد ہی موجود ہے۔ یہ 2008ء  یا 2009ء  کی بات ہے کہ تب واٹس ایپ اور آن لائن میڈیا اتنا عام نہیں تھا تو ایک دن میں اپنے گھر موجود تھا کہ صبح صبح کوئی سات بجے کے قریب قاضی صاحب کی مجھے کال آتی ہے کہ یزدانی صاحب میں اس وقت اپنے آبائی علاقے دیر میں موجود ہوں اور یہاں اس وقت اخبارات موجود نہیں ہے آپ مجھے آج کے اخبارات کی سرخیاں اور ان کے متن سنا دیں۔ میں ان کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے بازار گیا اور وہاں سے دو یا تین اخبارات لے کر آیا اور ان کو کال پر اس دن کی خبریں سنائیں۔میرے اس معمولی سے عمل سے وہ بہت خوش ہوئے اور انہوں نے مجھے ڈھیروں دعائیں دیں جو میں سمجھتا ہوں میرے لیے ایک قیمتی سرمایہ ہیں۔ قاضی صاحب اتحاد امت کے بھی بہت بڑے داعی تھے ان کی ہمیشہ سے خواہش رہی کہ مذہبی جماعتوں میں اختلافات کو پس پشت رکھتے ہوئے انہیں ایک مشترکہ پلیٹ فارم سے جدوجہد کرنی چاہئے اسی مقصد کیلئے قاضی حسین احمد نے متحدہ مجلس عمل کے پلیت فارم کی بنیاد رکھی۔

اس کے علاوہ انہوں نے پاکستان بھر کے علما، مشائخ اور گدی نشینوں کی بھی ایک کانفرنس کنونشن سنٹر اسلام آباد میں منعقد کی جس میں مجھے بھی شریک ہونے کا موقع ملا۔ قاضی صاحب چاہتے تھے کہ علماء بھی سیاست اور معاشرت میں بھرپور کردار ادا کریں لیکن اس مقصد کیلئے وہ چاہتے تھے کہ علماء  پہلے اپنے آپ کو مالی طور پر مضبوط کریں اور وہ چاہتے تھے کہ علما سیاست میں آنے سے قبل کاروبار کریں، پیسہ جوڑیں اور پھر سیاست کریں تا کہ کوئی ان پر مالی کرپشن کا الزام نہ لگا سکے اور نہ ہی وہ مالی طور پر کسی کے محتاج ہوں۔ نا انصافی اور ظلم کیخلاف وہ کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کرتے تھے اور ان کے متعلق یہ نعرہ تو زبان زد عام تھا کہ ظالمو قاضی آ رہا ہے۔ دھرنا سیاست جو آج کل بڑی مقبولیت اختیار کر چکی ہے پاکستان میں اس کے اجرا کے بانی قاضی حسین احمد تھے جو ظلم کیخلاف دھرنا دے کر بیٹھ جاتے تھے اور مظلوم کو انصاف دلا کر ہی دھرنا چھوڑتے تھے۔

ایک وقت تھا کہ یہ کہا جاتا تھا کہ اگر قاضی حسین احمد دھرنا دے دیں تو حکومتیں گر جاتی ہیں لیکن قاضی حسین احمد نے ہمیشہ ظلم، نا انصافی اور زیادتی کیخلاف آواز بلند کی وہ تنقید برائے تنقید کے قائل ہرگز نہ تھے۔ وہ اصلاح و احوال کے قائل تھے اور گفتگو، عمل میں وہ یکتا تھے یعنی ان کے قول و فعل میں تضاد نہیں ہوتا تھا جو وہ کہتے تھے وہ کرتے تھے اور علمی لحاظ سے بھی ایک بڑی شخصیت تھے اقبال کے اشعار انہیں ازبر تھے  بلکہ یہ کہا جائے کہ علامہ اقبال سے انہیں عشق تھا ان کی کوئی تقریر علامہ اقبال کے اشعار کے بغیر مکمل نہیں ہوتی تھی۔اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ ان کی رحلت پاکستان کیلئے ایک قومی سانحہ تھا اور ان کی کمی مذہبی سیاست میں ابھی تک محسوس کی جا رہی ہے۔بقول شاعر
تیرے جیسا کوئی ملا ہی نہیں 
کیسے ملتا کہیں پہ تھا ہی نہیں 

مزید :

رائے -کالم -