2025ء سے وابست امیدیں ”اڑان پاکستان“کا حصول امن اور سیاسی استحکام کے بغیر ممکن نہیں!

2025ء سے وابست امیدیں ”اڑان پاکستان“کا حصول امن اور سیاسی استحکام کے بغیر ...

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


الحمد للہ 2025ء کے شروع ہوتے ہی ملک میں معیشت کی بہتری کے حوالے خبریں آنی شروع ہو گئی ہیں،جس کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان کی درآمدات 27 ماہ کے بعد بلند ترین سطح 5 ارب 28 کروڑ 50 لاکھ ڈالر  پر پہنچ گئیں،جو کہ ایک خوش آئند امر ہے۔پاکستان کی درآمدات میں ایک بار پھر اضافہ ہونا شروع ہو گیا ہے اور دسمبر 2024ء  میں درآمدات ستائیس ماہ کے بعد بلندترین سطح پر پہنچ گئیں۔گزشتہ ماہ دسمبر میں ملکی درآمدات پانچ ارب اٹھائیس کروڑ پچاس لاکھ ڈالر ہوئیں، جس میں نومبر 2024ء  کے مقابلے میں 17.44 فیصد جبکہ دسمبر 2023ء  کے مقابلے میں چودہ اعشاریہ صفر دو فیصد اضافہ ریکارڈ ہوا۔
واضح ہو کہ پاکستان کی دسمبر میں برآمدات دو ارب چوراسی کروڑ دس لاکھ ڈالر کی ہوئیں، جو نومبر دوہزار چوبیس کے مقابلے میں صفر اعشاریہ دو آٹھ فیصد جبکہ دسمبر دوہزار تیئس کے مقابلے میں صفر اعشاریہ چھ سات فیصد اضافی ہیں۔دسمبر میں تجارتی خسارہ دو ارب چوالیس کروڑ چالیس لاکھ ڈالر رہا، جو نومبر 2024ء کے مقابلے میں چھیالیس اعشاریہ چھ ایک فیصد جبکہ دسمبر دوہزار تیئس کے مقابلے میں چونتیس اعشاریہ آٹھ فیصد اضافی ہے۔رواں مالی سال کے جولائی سے دسمبر تک برآمدات 10 فیصد اضافے کے ساتھ 16 ارب چھپن کروڑ دس لاکھ ڈالر ہو گئیں جبکہ درآمدات چھ اعشاریہ ایک  فیصد اضافے کے ساتھ ستائیس ارب تہتر کروڑ تیس لاکھ ڈالر کی ہوئیں۔پاکستان میں چھ ماہ کا تجارتی خسارہ صفر اعشاریہ ایک آٹھ فیصد اضافے کے ساتھ گیارہ ارب سترہ کروڑ بیس لاکھ ڈالر پر پہنچ گیا۔
 پاکستان کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرنے اور اقوامِ عالم میں ایک باعزت مقام دلانے کے لئے حکومت ِپاکستان نے ملک کی خام ملکی پیداوار (جی ڈی پی) کی شرح 9.8 فیصد تک لے جانے، خواندگی کی شرح 70 فیصد تک بڑھانے اور غربت میں 13 فیصد تک کمی لانے کے لیے ”اُڑان پاکستان“ کے نام سے نیشنل اکنامک ٹرانسفارمیشن پلان متعارف کروانے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف نے اِس پانچ سالہ منصوبے کی منظوری بھی دے دی ہے۔اس منصوبے کے جو بڑے اہداف رکھے گئے ہیں ان میں 2029ء تک برآمدات کو 63 ارب ڈالر سالانہ اور ترسیلاتِ زر کو 39.8 ارب ڈالر تک بڑھانے‘ تعلیمی بجٹ کو جی ڈی پی کے چار فیصد تک بڑھانے‘ شرحِ خواندگی میں اضافہ کرتے ہوئے پرائمری سکولوں میں داخلے کی شرح 64 فیصد سے بڑھا کر 72 فیصدپر اور غربت کی شرح کو 21.4 فیصد سے کم کر کے 12 فیصد پر اور آئی ٹی برآمدات کو 10 ارب ڈالر سالانہ تک بڑھانا‘ کے لیے اقدامات شامل ہیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف کے اِس منظور کردہ پلان کے تحت آئندہ پانچ سال کے دوران مذکورہ اہداف کے علاوہ 2035ء تک پاکستانی معیشت کا حجم ایک ٹریلین ڈالر تک لے جانے کیلئے اقدامات کئے جائیں گے۔ اِس کا مقصد پاکستان کو پائیدار بلند معاشی ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہے۔ یہ منصوبہ برآمدات میں مطلوبہ اضافے اور ریلوے کے ایم ایل ون منصوبے کی تکمیل کے علاوہ ”فائیو ایز“ فریم ورک یعنی انفراسٹرکچر، ایکویٹی، ایتھکس، امپاورمنٹ (لوگوں کو بااختیار بنانا) اور انوائرمنٹ (ماحولیات) کی بہتری جیسی ترجیحات پر مشتمل ہو گا۔
پاکستان میں پانچ  سالہ ترقیاتی منصوبوں کی ایک تاریخ ہے۔ 1950ء کی دہائی میں پانچ  سالہ ترقیاتی منصوبوں کی روایت ڈالی گئی۔ ابتدا میں ان منصوبوں کو معاشی اْٹھان کے لیے ناگزیر قرار دیتے ہوئے ان کی تکمیل کے لئے بلند عزم کا اظہار کیا گیا مگر رفتہ رفتہ یہ منصوبے حکومتوں کے زبانی دعوؤں اور رسمی اعلانات تک محدود ہو کر رہ گئے۔ اس کی اور وجوہ بھی ہوں گی تاہم ایک بڑی وجہ ملک میں جمہوری اور سیاسی عدم استحکام بھی تھا۔ ڈانواں ڈول حکومتوں کی جانب سے محض ترقیاتی منصوبے کا اعلان ہی کافی سمجھا جاتا رہا اور اس پر عملدرآمد کرنا یا پانچ سال کے اختتام پر پیش کردہ منصوبوں کے اہداف کی جانچ پڑتال کی زحمت کم ہی اٹھائی گئی۔ تاہم پانچ  سالہ منصوبوں کے ماڈل کی افادیت میں دورائے نہیں۔ یہ ایک ایسا طریقہ ہے جس کے تحت ترقیاتی اہداف کا تعین کرنے کے ساتھ ساتھ توجہ اور وسائل مرکوز رکھنے میں مدد مل سکتی ہے؛چنانچہ کئی علاقائی ممالک نے پاکستان کے وسط مدتی ترقیاتی ماڈل سے استفادہ کرتے ہوئے خود کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا۔ ان میں جنوبی کوریا سر فہرست ہے۔ 
یہ بات ذہن نشین رہے کہ ترقی کے عمل کو جاری رکھنے کے لئے پانچ  سالہ منصوبہ ایک بہترین ماڈل ہے مگر چونکہ ہمارے ہاں ماضی میں حکومتوں کا عزم اس حوالے سے متزلزل رہا یا سیاسی حالات میں ایسے تغیرات آتے رہے کہ حکومتیں ترقیاتی اہداف پر توجہ مرکوز کرنے سے قاصر رہیں لہٰذا بیشتر ترقیاتی اہداف نامکمل رہے۔ یہی وجہ ہے کہ معاشی و سماجی ترقی کا یہ مؤثر ماڈل خانہ پْری کی حد تک رہ گیا اور 2004ء میں پانچ سالہ منصوبے کی اصطلاح کو وسط مدتی ترقیاتی فریم ورک سے تبدیل کر دیا گیا۔ 1955ء سے 2004ء تک‘ نصف صدی میں پانچ  سالہ منصوبہ بندی میں کیا کھویا کیا پایا‘ اس کی جانچ پڑتال اور اس کا تجزیہ کم ہی کیا گیا۔ شاید ہی کبھی پانچ  سالہ منصوبے کی تکمیل پر اس کے حقیقی اہداف‘ حاصل‘ نامکمل اور ناکام منصوبوں کا عمیق تجزیہ کر کے ذمہ دار عوامل کا تعین کیا گیا ہو۔ جب ناکامیوں کے عوامل ہی کا تجزیہ نہیں کیا گیا تو پھر مسائل بھی وہیں کے وہیں رہے‘ نتیجتاً بہترین ترقیاتی منصوبے بھی ثمرآور نہیں ہو سکے اور ملک آج بھی انہی مسائل کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے جن سے نصف صدی قبل نبرد آزما تھا۔ 
مثال کے طور پر 1955ء سے 1960ء کے پہلے پانچ  سالہ منصوبے کے اہم نکات زرعی ترقی‘ سائنس و ٹیکنالوجی کا فروغ‘ غربت کا خاتمہ اور اکنامک کوآرڈی نیشن کمیٹی کا قیام تھا۔ آج تیرہویں پانچ سالہ منصوبے میں بھی انہی اہداف کا اعادہ‘ کچھ مختلف الفاظ میں کیا گیا ہے۔ دوسری جانب یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ملک کی بڑھتی ہوئی آبادی ترقیاتی منصوبوں کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ثابت ہوئی ہے۔ کثیر آبادی کی خوراک کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے زرعی شعبے کی بہتری اور پیداوار بڑھانے کے لیے انقلابی اقدامات کی ضرورت ہے، ورنہ ہم خوراک کے جس بحران کا شکار ہیں‘ یہ بحران اور غذائی درآمدات کا بل یونہی بڑھتا رہے گا۔ 
اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ ماضی میں پانچ سالہ منصوبوں کی ناکامی معاشی ماڈل کی ناکامی نہیں تھی بلکہ یہ ناکامی ان منصوبوں پر عملدرآمد کے فقدان کا شاخسانہ تھی۔ پائیدار ترقی کا دنیا میں ایک ہی کامیاب ماڈل ہے اور وہ یہ کہ قلیل مدتی‘ وسط مدتی اور کثیر مدتی اہداف مقرر کیے جائیں اور ہر ہدف کی تکمیل کو یقینی بنانے کے لئے ہر ممکن سعی کی جائے۔ اگر کوئی ہدف مقررہ مدت میں حاصل نہیں ہوتا تو اس کی ناکامی کے اسباب اور عوامل کا تجزیہ کیا جائے تاکہ آئندہ ان کا سد ِباب کیا جا سکے۔ اب 2025ء  شروع ہو چکا ہے اگر حکومت پائیدار ترقی کے خواب اور پانچ سالہ منصوبہ بندی سے کر رہی ہے تو اس کا خیرمقدم کیا جانا چاہیے‘ مگر یہ بھی ادراک ہونا چاہیے کہ معاشی منصوبوں کی تکمیل کے لئے سیاسی استحکام اور میثاقِ معیشت کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔  ماضی میں معاشی ترقی کے لئے سیاسی استحکام کو درخورِ اعتنا نہیں سمجھا گیا، لہٰذا حکومت کو اس حوالے سے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کرنے چاہئیں۔یہ بات ذہن نشین رہے کہ ملک سیاسی استحکام کے بغیر کسی صورت ترقی کی منازل سے ہمکنار نہیں ہو سکتا۔
 وفاقی وزیر خزانہ اور محصولات محمد اورنگزیب نے کراچی میں منعقدہ دوسری انٹرنیشنل اسلامک کیپٹل مارکیٹس کانفرنس اینڈ ایکسپو سے آن لائن خطاب میں کہنا تھا کہ ملکی معیشت پائیدار اقتصادی ترقی کی جانب گامزن ہو چکی ہے، حالیہ برسوں میں معاشی چیلنجوں کا سامنا رہا ہے؛ تاہم اْن مسائل کو حل کر لیا گیا ہے، اب ہم میکرو اکنامک استحکام کی طرف صحیح سمت میں بڑھ رہے ہیں۔ اْن کا کہنا تھا کہ حکومت شرعی اصولوں کے مطابق مالیاتی نظام کو تبدیل کرنے کے لئے پْرعزم ہے۔پاکستان اسلامک فنانس کے ایک اہم عالمی مرکز کے طور پر اْبھرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔پاکستان اسٹاک ایکسچینج (پی ایس ایکس) میں 56 فیصد مارکیٹ کیپٹلائزیشن سیکیورٹیز، سرمایہ کاری کے شعبے میں میوچل فنڈز کے زیر انتظام 48 فیصد اثاثے، رضاکارانہ پنشن فنڈز کے انتظام کے تحت 66 فیصد فنڈز اور رئیل اسٹیٹ انویسٹمنٹ ٹرسٹ (آر ای آئی ٹی) میں 95 فیصد اثاثے شریعت کے مطابق ہیں۔

ملکی معیشت میں بہتری کے آثار دکھائی بھی دے رہے ہیں، کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں کمی آئی ہے، ملک میں مہنگائی کی شرح 78 ماہ کی کم ترین 4.9 فیصد کی سطح پر آ گئی ہے، ملکی آمدن میں اضافہ ہو رہا ہے، زرِمبادلہ کے ذخائر دو ہفتے کی ضروریات سے بڑھ کر اب ڈھائی ماہ کی درآمدی ضروریات پورا کر سکتے ہیں، شرح سود 13 فیصد سے نیچے آ چکی ہے اور اِس کے جلد یک عددی (سنگل ڈیجٹ) سطح تک کم ہونے کے بھی قوی امکانات موجود ہیں جبکہ رواں مالی سال کے پہلے پانچ ماہ کے دوران ترسیلاتِ زر 34 فیصد اضافے سے 14.76 ارب ڈالر رہیں جو گزشتہ سال کے اسی عرصے میں 11 ارب ڈالر تھیں۔ 
انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کا پروگرام چل رہا ہے تاہم محاصل کے طے کردہ اہداف کا حصول حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج بنا ہوا ہے جس کے اثرات آئی ایم ایف کی طرف سے جاری کی جانے والی دوسری قسط کے اجراء  پر پڑ سکتے ہیں۔ حکومت اگرچہ پْراْمید ہے کہ معیشت کی حالیہ بہتری سے محاصل کے اہداف پورے کرنے میں مدد ملے گی اور اِنہیں رواں سال کی آخری سہ ماہی تک حاصل کر لیا جائے گا۔ ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی بی) نے مالی سال 2025ء کے لئے پاکستان کی جی ڈی پی کی شرح نمو کے تخمینے پر نظرِثانی کرتے ہوئے اِسے 2.8 فیصد سے بڑھا کر تین فیصد کر دیا ہے جبکہ رواں مالی سال کے دوران افراطِ زر 15 فیصد رہنے کی پیشگوئی کو 10 فیصد تک کم کردیا گیا ہے۔ معاشی بہتری کے مد ِ نظر ہی سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہو رہا ہے، سٹاک مارکیٹ نئے ریکارڈ قائم کر رہی ہے، اِس کا 100 شیئر انڈیکس ایک لاکھ 14ہزار سے زائد پوائنٹس کی سطح پر ہے، صرف 18 ماہ میں 100 انڈیکس 40 ہزار سے بڑھ کر 114,000 تک پہنچ گیا یعنی اِس نے قریباً دو گنا منافع حاصل کیا۔ اوورسیز انویسٹرز چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری نے گزشتہ ماہ اکتوبر اور نومبر 2024ء کے دوران ملک بھر میں کیے گئے جامع بزنس کانفیڈنس انڈیکس کے نتائج کا اعلان کیا جس کے مطابق پاکستان میں کاروباری اعتماد میں نو فیصد کی نمایاں بہتری آئی ہے۔کاروباری اعتماد کا انڈیکس اگرچہ بدستور منفی پانچ پوائنٹس کی سطح پر ہے تاہم گزشتہ سروے کے منفی 14 کے مقابلے میں صرف دو ماہ کی قلیل مدت میں اِس میں کافی بہتری آ چکی ہے۔ 
ملکی معیشت میں بہتری کے باوجود ادارہ جاری اصلاحات سمیت معیشت سے جُڑے دیگر ایسے کئی محاذ ہیں جہاں حکومت کے لئے بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ نجکاری کا عمل اْتنی تیزی سے آگے نہیں بڑھ پا رہا جتنے کی توقع کی جا رہی تھی۔ پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کی بولی میں ناکامی نے اس پورے عمل کو متاثر کیا ہے، معاشی ٹیم اگرچہ پْر اْمید ہے کہ وہ اسے دوبارہ بہتر طریقے سے آگے بڑھانے میں کامیاب ہو جائے گی تاہم فی الحال اِس کی کوئی واضح شکل عوام کے سامنے نہیں آ سکی۔ مختلف وزارتوں اور اْن سے جڑے محکموں کو ختم کرنے، ضم کرنے اور صوبوں کے حوالے کرنے کا کام جاری ہے، چند وزارتیں اور محکمے ضم یا ختم کر دیے گئے ہیں تاہم زیادہ تر کام تاحال کاغذوں تک محدود ہے۔ حکومتی اخراجات میں کمی نہیں آ سکی جبکہ موجودہ قومی مالیاتی ایوارڈ (این ایف سی) کو لے کر بحث بھی چل رہی ہے کہ صوبوں کو پیسے دینے کے بعد وفاق کے پاس کچھ نہیں بچتا، اِسے اپنی ضروریات پوری کرنے کے لئے لیے گئے غیر ملکی قرضوں پر آٹھ  فیصد تک شرح سود ادا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس بات کا انکشاف بھی گزشتہ ماہ سینیٹ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں سامنے آیا۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ ساتویں این ایف سی ایوارڈ کے تحت وفاقی ٹیکسوں میں صوبائی حصہ 47.5 فیصد سے بڑھا کر 57.5 فیصد کر دیا گیا تھا لیکن وہ اْن وزارتوں کو ختم کرنے میں ناکام رہی جو صوبوں کے پاس جانی تھیں جس کی وجہ سے بڑا مالیاتی عدم توازن پیدا ہوا اور اِس نے وزارتِ خزانہ کو مقامی و غیر ملکی قرض دہندگان کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جبکہ 2009-10ء کے بعد سے عوامی قرضوں میں غیر متناسب اضافہ ہوا۔ کمیٹی چیئرمین نے نئے این ایف سی ایوارڈ پر فوری کام شروع کرنے کی سفارش کرتے ہوئے تجویز دی کہ آئندہ این ایف سی ایوارڈ کے تحت وسائل کی تقسیم کا جائزہ لینے کے لئے وفاق اور صوبوں کے درمیان مشاورت کا نیا عمل شروع کیا جائے۔
حکومتی اخراجات میں کمی، نجکاری، قرض کی ادائیگیوں اور وسائل کی وفاق اور صوبوں میں تقسیم کے علاوہ بھی کئی ایسے معاملات ہیں جو ہر گزرتے دن کے ساتھ ملکی مسائل میں اضافہ کر رہے ہیں۔ بڑھتی آبادی اور موسمیاتی تبدیلی سمیت بعض معاملات ایسے ہیں جن پر قابو نہ پایا گیا تو پاکستان کا اقتصادی ترقی کا خواب شاید پورا ہونا ممکن نہ ہو پائے۔ 2.55 فیصد کی رفتار سے بڑھتی آبادی کسی ٹائم بم کی طرح ہے جبکہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ گزشتہ سیلاب میں ہونے والے اربوں ڈالر کے نقصانات کے نتائج ملکی معیشت آج بھی بھگت رہی ہے لیکن اِس کے باوجود اِن مسائل کے حل کے لئے ویسے کام نہیں ہو رہا جیسے ہونا چاہئے۔اِن معاملات کو ایمرجنسی بنیادوں  پر حل کیے جانے کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف بین الاقوامی سطح پر موسمیاتی تبدیلیوں پر مسلسل بات کر رہے ہیں،”اْڑان پاکستان“ میں ماحولیات کو بھی شامل کیا گیا ہے لیکن آبادی میں اضافہ اِس میں شامل نہیں ہے جو کہ سب سے زیادہ گمبھیر مسئلہ ہے۔ بہتر ہے اگر اِس پروگرام میں فائیو ایز کے ساتھ ایک پی بھی شامل کر لیں بلکہ بعض ایسے تمام بنیادی مسائل کو اِس پانچ سالہ پروگرام کا حصہ ہونا چاہئے جو ملکی معیشت پر اثر انداز ہوتے ہیں اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ لہٰذا اس حوالے سے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات  کئے جائیں تاکہ پاکستان ترقی وخوشحالی کی منزل سے ہمکنار ہو سکے اور عوام بھی سکھ کا سانس لے سکیں۔ 
                   ٭٭٭
final

مزید :

ایڈیشن 1 -