”صاحب! میں پاکستان کا سپاہی ہوں، میں نہیں جاؤں گا“!
قسط 17
کشتیا (Kushtia) میں 27بلوچ کی ایک کمپنی مقیم تھی۔28مارچ کو 14ڈویژن کی طرف سے 107بریگیڈ کو یہ خبر دی گئی کہ اگر اس کمپنی کو جلد از جلد کمک نہ پہنچائی گئی تو پوری کمپنی ختم کر دی جائے گی۔چنانچہ 107بریگیڈ نے ایک ریلیف کالم (دستہ)ترتیب دیا کہ کشتیا میں 27بلوچ کی کمپنی سے لنک اَپ کرے۔ یہ کالم درج ذیل عناصر پر مشتمل تھا:
1۔25بلوچ ……(دو کمپنیاں کم)
2۔27بلوچ کی ایک کمپنی (R&S)
3۔201فیلڈ بیٹری
4۔انجینئرز کی ایک پلاٹون
یہ کالم 0800بجے بریگیڈ ہیڈکوارٹر سے روانہ ہوا،27بلوچ کی کمپنی ہراول میں تھی۔ کالی گنج کے مقام پر کالم کو رکنا پڑا۔ وہاں ایک پُل تھا جو تباہ کر دیا گیا تھا اور دوسری طرف سے فائر آ رہا تھا۔شام ہونے پر یہ کالم واپس جیسور آ گیا۔ کشتیا میں جو کمپنی تھی اس نے وہاں سے نکل کر ریلیف کالم سے لنک اَپ کرنے کی کوشش کی۔ اس پر شب خون مارا گیا اور پوری کمپنی کو ختم کر دیا گیا۔
بعد میں 15اپریل کو 13ایف ایف نے کشتیا پر قبضہ کر لیا۔یہ بٹالین (13ایف ایف) 28فروری اور یکم مارچ کی درمیانی شب کو ڈھاکہ سے ائرلفٹ کی گئی تھی۔ 12اپریل کو اس نے ہارڈنگ پل (Harding Bridge) عبور کیا جو دریائے گنگا پرتعمیر کیا ہوا تھا اور 15اپریل کو کشتیا پہنچ گئی۔
53بریگیڈ کومیلا میں مقیم تھا اور بریگیڈیئر اقبال شفیع اس کے کمانڈر تھے۔
اس بریگیڈ میں درجِ ذیل یونٹیں تھیں۔
1۔24ایف ایف…… (کومیلا میں)
2۔20بلوچ…… (چٹاگانگ میں)
3۔4ایسٹ بنگال…… (برہمن باڑیا میں)
4۔53فیلڈ رجمنٹ…… (کومیلا میں)
24مارچ کو بریگیڈیئر اقبال شفیع کو حکم دیا گیا کہ چٹاگانگ جائے اور 20بلوچ کی مدد کرے۔
لیفٹیننٹ کرنل یعقوب (53فیلڈ رجمنٹ) کو کہا گیا کہ وہ کومیلا کو محفوظ بنائے۔ 25اور 26مار چ کی شب اس مشن کو کامیابی کے ساتھ پورا کیا گیا۔
برہمن باڑیا میں 4ایسٹ بنگال مقیم تھی جس کے بنگالی آفیسر کا نام میجر خالد مشرف تھا جو اس بٹالین کا سیکنڈ اِن کمانڈ تھا۔ مشرف نے اپنے مغربی پاکستانی کمانڈنگ آفیسر اور دو دوسرے افسروں کو حراست میں لے لیا۔ اس کے بعدمشرف اپنی بٹالین کو اگر تلہ کراس کرکے انڈیا لے گیا۔ مغربی پاکستانی افسروں کو کوئی نقصان نہ پہنچایا گیا اور جب 1971ء کی جنگ ختم ہوئی تو ان کو واپس پاکستان بھیج دیا گیا۔
چٹاگانگ میں درج ذیل ٹروپس تھے:
1۔ایسٹ بنگال رجمنٹ سنٹر
2۔8ایسٹ بنگال بٹالین
3۔ایسٹ پاکستان رائفلز (سیکٹر ہیڈکوارٹر)
4۔20بلوچ
20بلوچ کی نفری بمقابلہ بنگالیوں کے بہت ہی کم تھی۔ اگر چٹاگانگ کو زیرِ قبضہ لانا تھا تو 20بلوچ کو جلد از جلد کمک پہنچانی ضروری تھی۔ 25مارچ کو بریگیڈیئر اقبال شفیع 24ایف ایف کو ساتھ لے کر چٹاگانگ روانہ ہوئے۔ اس دن ڈھاکہ سے 25ایف ایف بھی بذریعہ طیارہ چٹاگانگ بھیج دی گئی۔ بریگیڈیئر M.Hانصاری نے جو لاگ ایریا کمانڈر تھے، انہوں نے اس ایریا میں موجود ٹروپس کی کمانڈ سنبھال لی۔
28مارچ کو جنرل خادم بھی بذریعہ طیارہ چٹاگانگ چلے گئے تاکہ وہاں لڑائی کو کنٹرول کر سکیں۔ ان کے ساتھ لیفٹیننٹ کرنل سلیمان، کمانڈنگ آفیسر 2کمانڈو بٹالین بھی تھے۔2کمانڈو کی غازی کمپنی بھی بذریعہ طیارہ چٹاگانگ بھیج دی گئی۔
دریں اثناء بریگیڈیئر اقبال شفیع اور ان کے ہمراہ جو کالم تھا اس کو کمیری (Kumere) میں روک لیا گیا۔ یہ جگہ چٹاگانگ کے شمال مغرب میں چند میل کے فاصلے پر تھی۔27اور 28مارچ کی شب 24ایف ایف کی ایک کمپنی نے اپنی پوزیشن سے باہر نکلنے کی کوشش کی۔ کمپنی پر شب خون مارا گیا اور اس کی ایک پلاٹون کو محصور کر لیا گیا۔ لیفٹیننٹ کرنل شاہ پور نے 24ایف ایف کی دوسری کمپنی کی قیادت کرتے ہوئے محصور پلاٹون کا محاصرہ توڑنے کی کوشش کی۔ اس لڑائی میں لیفٹیننٹ کرنل شاہ پور مارے گئے۔
29مارچ کو 1600بجے 2کمانڈو کی غزنوی کمپنی، زیرِ قیادت لیفٹیننٹ کرنل سلیمان کھلے ٹرکوں میں سوار ہو کر چٹاگانگ سے نکلی تاکہ 24ایف ایف کے ساتھ لنک اَپ کر سکے۔ ایک گھنٹہ بعد 1700بجے چٹاگانگ کے نواحی علاقے میں غزنوی کمپنی پر شب خون مارا گیا۔ لیفٹیننٹ کرنل سلیمان، کیپٹن سکندر، صوبیدار الٰہ دین اور 19سولجر اس چھاپے میں مارے گئے۔ کیپٹن محمد حسین جو میڈیکل آفیسر تھا اور ایک اور کیپٹن زخمی ہو گئے۔
جب کیپٹن محمد حسین (AMC)کو ہوش آئی تو اس نے اپنے اردگرد کھڑے آدمیوں سے کہا کہ آپ سب لوگ یہاں سے نکل جائیں اور جب اندھرا چھا جائے تو کمپنی کمانڈر کے سامنے پیش ہو جائیں۔ ایک سولجر جس کا نام نذر تھا اور وہ کیپٹن محمدحسین کے سرہانے بیٹھا ہوا تھا اس کو اس ڈاکٹر نے سختی سے کہا کہ سب لوگ چلے گئے ہیں، تم یہاں کیوں بیٹھے ہوئے ہو؟…… نذر نے جواب دیا:”صاحب بنگالی تو ضرور ہوں، مگر بے غیرت نہیں۔ میں آپ کو چھوڑ کر نہیں جاؤں گا۔“
اس کیپٹن نے نذر کوبیرون ملک بنی، کمر کی پیٹی (Web Belt) بطور شناخت دی اور کہا کہ باہر جاؤ اور میرے لئے یہاں سے نکلنے کا کوئی بندوبست کرو۔ دس منٹ کے بعد نذر واپس آیا۔ اس کے ساتھ تین آدمی تھے۔ انہوں نے مل کر اس آفیسر کو یہاں سے نکالا اور ایک محفوظ مقام پر پہنچا دیا۔
نذر اس جنگ کے خاتمے تک 2کمانڈو کے ساتھ رہا۔ ہتھیار ڈالنے سے پہلے اس کو اچھی خاصی نقد رقم دی گئی اور حکم دیا گیا کہ یونٹ سے نکل جاؤ اور مقامی بنگالیوں کے ساتھ مل جاؤ اور اپنی جان بچاؤ۔ نذر نے صاف انکار کر دیا اورکہا: ”صاحب! میں پاکستان کا سپاہی ہوں۔ جو کچھ آپ کے نصیب میں ہے وہ میرے نصیب میں بھی ہے۔ میں نہیں جاؤں گا“۔
وہ دوسرے جنگی قیدیوں کے ساتھ مغربی پاکستان آ گیا۔ جب پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان معمول کے تعلقات قائم ہو گئے تو نذر نے واپس بنگلہ دیش جا کر اپنے عزیز و اقارب سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ اس کی یہ درخواست ابھی تک طاقت کے ایوانوں میں گردش کررہی ہے۔
آیئے اب چٹاگانگ کی طرف لوٹتے ہیں ……
لیفٹیننٹ کرنل شاہ پور کے مارے جانے کے بعد بریگیڈیئر اقبال شفیع نے 24ایف ایف کی کمانڈ سنبھال لی۔ 29مارچ کی شام تک روڈ بلاک کلیئر کر دیا گیا اور اقبال شفیع 31مارچ کو چٹاگانگ پہنچ گئے۔
بریگیڈیئر M.H انصاری نے 25ایف ایف کو ساتھ لیا اور ”ریزرو پولیس“ کے اسلحہ گھر (Armoury)کو زیرِ قبضہ کرلیا۔
یکم اپریل کو ”ایسٹ پاکستان رائفلز ہیڈکوارٹرز“ پر بھی قبضہ کرلیا گیا۔ چٹاگانگ کا باغی ریڈیو اسٹیشن ابھی باغیانہ نشریات براڈ کاسٹ کررہا تھا۔ اس پر فضائی حملہ کرکے اسے خاموش کر دیا گیا۔
یکم اپریل کو 205بریگیڈ (بریگیڈیئر S.Aحسن) مغربی پاکستان سے ڈھاکہ پہنچا اور اسے 14ڈویژن کے زیرِ کمانڈ کر دیا گیا۔ ہیڈکوارٹر 205بریگیڈ نے،ہیڈکوارٹر 53بریگیڈ سے چارج سنبھالا۔ 53بریگیڈ ہیڈکوارٹر کو مارشل لاء فرائض پر مامور کر دیا گیا۔11اپریل کو53بریگیڈ نے 205 بریگیڈ کا چارج سنبھالا اور 205بریگیڈ ہیڈکوارٹر نے مارشل لاء کے فرائض سنبھال لئے۔
اپریل کے پہلے ہفتے میں 9اور 16ڈویژن مغربی پاکستان سے بذریعہ طیارہ جات مشرقی پاکستان پہنچ گئے۔
]ان دو ڈویژنوں سے پہلے مشرقی پاکستان میں صرف ایک ڈویژن (14ڈویژن) مقیم تھا۔ ان دو ڈویژنوں کے بعد آگے چل کر دو مزید ڈویژن بھی مشرقی پاکستان پہنچے۔ ان کا ذکر آگے چل کر کیا جا رہا ہے۔ مترجم[
یہ دونوں ڈویژن اپنے ساتھ صرف چھوٹے ہتھیار (رائفل، لائٹ مشین گن، کاربائن، پستول، ہینڈ گرنیڈ وغیرہ) اور ہلکے وائرلیس سیٹ ہی لا سکے۔ ان کے ساتھ کوئی آرٹلری، کوئی گاڑیاں اور نارمل سگنل مواصلات کا سامان وغیرہ کچھ بھی نہ تھا۔ کچھ گاڑیاں البتہ سمندر کے راستے چٹاگانگ پہنچیں۔ لیکن تب تک باغی دریائے فینی (Feni)پر تعمیر ریل/ روڈ پل مسمار کر چکے تھے۔
اپریل کے دوسرے ہفتے میں جنرل ٹکا نے تینوں ڈویژنوں (9،14اور 16) کودرجِ ذیل علاقے الاٹ کر دیئے:
1۔ 9ڈویژن …… دریائے میگھنا کا مشرقی علاقہ
الف: 313بریگیڈ…… سلہٹ
ب:117بریگیڈ …… کومیلا
ج:53بریگیڈ…… چٹاگانگ
2۔ 14ڈویژن…… میمن سنگھ، ڈھاکہ، جیسور
الف: 27بریگیڈ…… میمن سنگھ
ب:57بریگیڈ …… ڈھاکہ
ج:107بریگیڈ…… جیسور
3۔ 16ڈویژن …… دریائے گنگا و جمنا کا درمیانی علاقہ
الف: 23بریگیڈ…… رنگ پور
ب:34بریگیڈ …… بوگرا۔ نٹور
اب ان تینوں ڈویژنوں کی پروفیشنل کارکردگی کا ذکر کیا جاتا ہے۔
9ڈویژن
اس ڈویژن کی کمانڈ میجر جنرل شوکت رضا کے ہاتھ میں تھی…… ]جو اس کتاب کے مصنف بھی ہیں۔ مترجم[…… جب یہ ڈویژن ڈھاکہ پہنچا تو اس کے درج ذیل ٹروپس اس سے الگ کرکے دوسرے ڈویژنوں کو دے دیئے گئے:
1۔27بریگیڈ…… 14ڈویژن کو
2۔34پنجاب (R&S)…… ایسٹرن کمانڈ ریزرو کو
3۔ 33پنجاب…… 16ڈویژن کو
ڈویژن کا ٹیکٹیکل ہیڈکوارٹر8اپریل کو کومیلا میں قائم کیا گیا۔ اس ڈویژن نے درج ذیل ٹروپس کی کمانڈ بھی سنبھال لی جو پہلے سے دریائے میگھنا کے شمال میں مقیم تھے:
1۔53 بریگیڈ…… چٹاگانگ
2۔53فیلڈ رجمنٹ…… کومیلا
3۔31پنجاب……سلہٹ
مغربی پاکستان سے جیسے جیسے ٹروپس مشرقی پاکستان میں پہنچتے رہے، ان کو درج ذیل مقامات کو روانہ کیاجاتا رہا:
1۔سلہٹ
الف: 313بریگیڈ
ب:31پنجاب
ج:32بلوچ
د:مارٹر ٹروپس (120ایم ایم)
2۔ کومیلا
الف: ہیڈکوارٹر 9ڈویژن
ب:117بریگیڈ
ج:12ایف ایف
د:33بلوچ
ہ:39بلوچ
و:53فیلڈ رجمنٹ آرٹلری
ز:مارٹر ٹروپس(120ایم ایم)
3۔چٹاگانگ
الف:53بریگیڈ
ب:20بلوچ
ج:24ایف ایف
د:25ایف ایف
ہ:ایک ٹروپ چیفی ٹینک (4ٹینک)
و:مارٹر کا ایک ٹروپ
10اپریل تک ہیڈکوارٹر 9ڈویژن مکمل طور پر قائم ہو چکا تھا۔ اس میں سٹاف کی اَن تھک کوششیں شامل تھیں۔ سلہٹ، چٹاگانگ اور ڈھاکہ سے ٹیلی فونی مواصلات قائم ہو چکی تھیں۔ کمانڈر سگنلز، لیفٹیننٹ کرنل منصور الحق ملک نے بڑی محنت اور جانفشانی سے اس کام کو پایہء تکمیل تک پہنچایا اور اس دوران اپنی کارکردگی کا کوئی ڈھنڈورہ نہ پیٹا۔اب تک یہ ہوتا چلا آیا تھا کہ ٹروپس کو ایک مقام سے دوسرے مقام تک منتقل کرنے کے لئے ائر ٹرانسپورٹ استعمال کی جاتی تھی۔ بذریعہ روڈ / ریل منتقلی کا دار و مدار چٹاگانگ اور کُھلنا (Khulna)سے مواصلاتی صورتِ حال پر تھا۔ لیکن اب بذریعہ ریل / روڈ منتقلی کا حجم اتنا بڑھ چکا تھا کہ نارمل حالات میں بھی اس کا امکان نہیں تھا۔ دریائے فینی (Feni)کے پل اور دوسرے مقامات پر پلوں کے انہدام نے مجبور کر دیا تھا کہ آبی ٹرانسپورٹ ہی ہمارا واحد ذریعہء مواصلات باقی رہ گیا تھا۔ ایسٹرن کمانڈ کی بقاء اب اسی آبی ٹرانسپورٹ پر تھی۔ اس مجبوری کی بناء پر چاند پور کی دریائی بندرگاہ پر قبضہ سب سے پہلی ترجیح تھی۔
دریائے میگھنا کے مشرقی ایریا میں چٹاگانگ۔ کومیلا۔ سلہٹ کی سڑکیں اور ریلوے کا نظام انڈیا کے ساتھ ساتھ متوازی انداز میں چلتا تھا اور بعض جگہ تو انڈیا اور پاکستان کا سرحدی فاصلہ 50گز سے بھی کم ہو جاتا تھا۔ انٹرنیشنل باؤنڈری شاذ ہی کسی نمایاں فطری زمینی نقش / نقوش سے مارک کی جا سکتی تھی۔ البتہ انڈیا کی جانب کا علاقہ ہمارے علاقوں کی نسبت زیادہ اونچا تھا۔ علاوہ ازیں ان علاقوں میں سینکڑوں محصور علاقے (Enclaves)تھے۔ یہ محصور علاقے انڈین سرزمین سے گھرے ہوئے تھے اور انہی سے ”مکتی باہنی“ آپریٹ کرتی تھی۔ ہندوستانی علاقے سے جو دریا اور نالے دریائے میگھنا میں آکر گرتے تھے وہ ہر 500گز کے بعد بڑی سڑکوں کو کاٹ ڈالتے تھے۔ چنانچہ مکتی باہنی جو اِن محصور علاقوں سے آپریٹ کرتی تھی وہ جب چاہتی اور جہاں چاہتی تھی ان سڑکوں پر بنائے گئے پلوں کو مسمار کر دیتی تھی۔
اس سڑک کے تنگ ترین حصے فینی اور آشو گنج میں تھے اور یہی حصے گویا دریائے میگھنا کے مشرقی علاقوں پر کنٹرول کرنے کی کلید تھے۔
]جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے،9 ڈویژن کے زیرِ کمانڈ تین بریگیڈ تھے جن کے نام 117بریگیڈ، 313بریگیڈ اور 53بریگیڈ تھے۔ مصنف نے ان تینوں بریگیڈوں نے 25مارچ تا اواخر مئی 1971ء جو آپریشنزکئے ان کا مختصر تذکرہ درجِ ذیل سطور میں کیا ہے۔ مترجم[
117بریگیڈ
117بریگیڈ اور 33بلوچ 7اپریل کی صبح ڈھاکہ سے بذریعہ طیارہ یہاں بھیجے گئے تھے۔ 8اپریل کو 1330بجے بریگیڈیئر KMخالد نے چاند پور پر قبضہ کرنے کے لئے جو دستہ (کالم)روانہ کیا وہ درج ذیل پر مشتمل تھا:
1۔کمانڈر…… لیفٹیننٹ کرنل مظہر قیوم (33بلوچ)
2۔ٹروپس……
الف:33بلوچ
ب:53فیلڈ رجمنٹ کی ایک بیٹری
ج:ایک مارٹر ٹروپ
اس سے پہلے اسی روز کرنل میرعبدالنعیم نے ایک سیسنا (Cessna) طیارے میں سطحِ زمین سے تقریباً200فٹ کی بلندی پر کومیلا سے چاند پور تک پرواز کی۔ اس نے رپورٹ دی کہ وہاں کے باسیوں نے اس کا تالیوں سے استقبال کیا ہے۔ اس کے باوجود کالم نے بڑے محتاط انداز میں مووکیا۔جب وہ لال مائی (Lal mai) پہاڑی کے نزدیک پہنچے تو کالم کی اگلی گاڑیوں پر فائرنگ کی گئی۔ دوسولجرز زخمی ہوئے اور ایک مارا گیا۔ کالم نے حاجی گنج پر قائم کردہ روڈ بلاک کو کلیئر کیا اور 10اپریل کی شام کو چاند پور پہنچ گیا۔ پولیس کا اسلحہ خانہ، سارے بینک، حکومت کا خزانہ اور غلے کے گودام بالکل صحیح سلامت حالت میں تھے۔
10اپریل کو12ایف ایف (دو کمپنیاں کم) کومیلا پہنچی۔ ایک دن آرام کرنے کے بعد بٹالین کو حکم دیا گیا کہ وہ لال مائی کی پہاڑیوں اور لکشم کوکلیئر کرے۔ لکشم (Luksham) کومیلا، چاند پور، نواکھالی اور فینی کے درمیان ایک اہم ریل / روڈ جنکشن تھا۔ 12ایف ایف نے اس ایریا پر قبضہ کرلیا۔ اسی روز دوپہر کو ایسٹ بنگال رجمنٹ کے 8سولجرز کو بھی پکڑ لیا گیا جو سول لباس پہنے یہاں پھر رہے تھے۔12اپریل کو 12ایف ایف کومیلا واپس آگئی۔ ایک کمپنی لکشم۔ لال مائی ایریا میں چھوڑ دی گئی۔
12اپریل کو 33بلوچ کو بھی حکم دیا گیا کہ وہ اپنی ایک کمپنی چاند پور میں چھوڑ کر واپس کومیلا آ جائے۔
9ڈویژن کا تجزیہ یہ تھا کہ مکتی باہنی اس مرحلے پر پوری طرح منظم نہ تھی۔ ہمیں جس مخالفت کا سامنا تھا وہ ہمارے ملٹری ایکشن کا ایک برجستہ اور فوری ردعمل تھا۔ ہمارا اندازہ تھا کہ مکتی باہنی کو پوری طرح منظم اور ٹرین (Train) ہونے کے لئے چار ماہ کا عرصہ درکار ہوگا۔ چنانچہ اگست 1971ء سے پہلے پہلے موجودہ صورتِ حال پر قابو پانا ضروری تھا۔ لیکن اس کے بعد کسی بھی تصفیے کی قیمت بڑھ جائے گی۔چنانچہ جیسا کہ بعد کے واقعات نے ثابت کر دیا جون 1971ء کے آتے ہی ہمارے ٹروپس ایسے ناگہانی شب خونوں کا شکار ہونے لگے جو بڑی ہوشمندی سے پلان کئے گئے تھے اور بڑی جرأت سے پایہء تکمیل کو پہنچائے گئے۔14اپریل کو 117بریگیڈ نے قصبہ (Kasba)،برہمن باڑیا اور اکھوڑا (Akhaura) کی طرف ایڈوانس شروع کیا۔ اس کالم میں درج ذیل عناصر شامل تھے:
1۔22بلوچ (ایک کمپنی کم)
2۔12ایف ایف (ایک کمپنی کم)
3۔ایک بیٹری 53فیلڈ رجمنٹ
(یعنی چار 105ایم ایم ہوٹزرز)
4۔ انجینئر کا ایک دستہ
5۔EMEکا ایک دستہ
ان کے پاس کوئی ساز و سامان نہ تھا
اس کالم کے لئے ٹرانسپورٹ سول ذرائع سے حاصل کی گئی تھی اور خستہ و خراب حالت میں تھی۔(جاری ہے)