میری زندگی، میرا پاکستان        (1)

    میری زندگی، میرا پاکستان        (1)
    میری زندگی، میرا پاکستان        (1)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

(زیر تحریر خود نوشت سے چند الفاظ)

ہوشیارپور جو میری جنم بھومی ہے اور لاہور جہاں مجھے رہتے ہوئے پچپن سال گذر چکے ہیں، کے درمیان148کلومیٹر کا فاصلہ ہے لیکن یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک دوسرے سے ہزاروں کیا لاکھوں کلو میٹر دور ہیں۔واشنگٹن، نیو یارک اور لندن قریب محسوس ہوتے ہیں کہ جب چاہیں وہاں کا سفر اختیار کیا جا سکتا ہے۔گذشتہ کئی برس سے امریکہ اور برطانیہ کے ویزے میرے پاسپورٹ پر لگے ہوئے ہیں،میں جب ارادہ کروں جہاز کا ٹکٹ کٹا کر وہاں کا رُخ کر سکتا ہوں۔امریکہ یا برطانیہ میں قدم رکھنے کے بعد جہاں چاہوں، ٹھہر سکتا ہوں۔کسی دوست کو تکلیف دوں، یا کسی رشتہ دار کا دروازہ کھٹکھٹاؤں یا کسی ہوٹل میں بسیرا کر لوں، جس شہر میں چاہوں جاؤں اور جتنے دن چاہے قیام کر لوں،کسی سے اجازت طلب نہیں کرنا پڑتی،نہ ہی کسی کے سامنے جوابدہی کی ضرورت ہوتی ہے۔کسی پولیس سٹیشن میں جا کر اپنی آمد کی اطلاع نہیں دینا ہوتی اور متعلقہ پولیس کے کسی کارندے سے کوئی معاملہ نہیں کرنا پڑتا۔ امریکہ اور برطانیہ ہی کیا، دنیا کے جس ملک میں بھی گیا ہوں،نقل و حرکت اور کسی بھی شہر میں آمدورفت پر کوئی پابندی لگی نہیں دیکھی لیکن انڈیا کا ویزا لے کر میں ہوشیار پور نہیں جا سکتا۔وہاں پہنچنے کے لیے الگ سے ’پروانہ‘ لینا پڑے گا۔بھارت اور پاکستان کے شہری ایک دوسرے کے ملک میں آزادانہ گھوم پھر نہیں سکتے۔برسوں سے یہ معمول چلا آ رہا ہے کہ ہندوستان جانے والوں کو ایک،ایک شہر کا ویزا الگ الگ لینا پڑتا ہے۔ یہی سلوک وہاں سے پاکستان آنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ ہندوستان کے لئے کوئی ملٹی پل ویزا نہیں ہے۔ایسا ممکن نہیں کہ آپ پانچ،یا دس سال کے لیے ایک ہی بار ویزا لگوا لیں،اور جب چاہیں اُس ملک میں جا سکیں جہاں کے چپے چپے پر مسلمانوں کے اثرات محسوس کیے جا سکتے،اور مشترکہ تاریخ کے ابواب پڑھے جا سکتے ہیں۔میرے اور میرے بچوں کے لیے ہوشیار پور ایک انتہائی دور افتادہ شہر کا نام ہے، جہاں رسائی ممکن نہیں۔مجھے یاد پڑتا ہے کہ برسوں پہلے میرے والد مرحوم صاحبزادہ فیض الرحمن زائرین کے ایک قافلے کے ساتھ ہوشیار پور گئے تھے،یہ فیلڈ مارشل ایوب خان کا دور تھا،اور جن اولیاء اللہ کے مزارات کی  زیارت کی اجازت دی گئی تھی، ان میں خواجہ معین الدین چشتی اور خواجہ نظام الدین اولیاء کے ساتھ ساتھ ہمارے جدِامجد تاج العارفین حضرت شیخ عبدالنبی شامی کا نام بھی شامل تھا،جو ہوشیارپور سے45کلو میٹر کے فاصلے پر واقع شام چوراسی میں محو ِ آرام ہیں بلکہ یہ کہیے کہ یہ قصبہ انہی کے نام سے آباد ہے۔ کچھ عرصہ بعد یہ سلسلہ بھی رُک گیا۔ والد صاحب چند روز گذار کر واپس آئے، تو وہاں کے درو دیوار کی اُداسیاں بیان کرتے رہے۔

برسوں بعد جنرل پرویز مشرف آگرہ گئے تو مجھے اور عزیزم عمر شامی کو بھی ان کے ساتھ جانے والے اخبار نویسوں کے قافلے میں شامل کر لیا گیا۔ نئی دہلی پہنچ کر چند دوستوں کے ساتھ پروگرام بنا کہ اجمیر جا کر خواجہ معین الدین چشتی کے مرقد پر فاتحہ پڑھی جائے۔بتایا گیا کہ ٹرین کا سفر مناسب رہے گا،سو اس پر نشستیں محفوظ کرا لی گئیں۔محکمہ اطلاعات کے حکام کو مطلع کیا گیا تو انہوں نے پوچھا، کیا  اجمیرکا ویزا آپ کے پاس ہے؟ جواب نفی میں پا کر اطلاع دی گئی کہ پھر آپ اجمیر نہیں جا سکیں گے۔ سوچاکہ یہ ایک رسمی کارروائی ہو گی،پاکستان میں کوئی اخبار نویس اس طرح کی صورتحال سے دوچار ہو جائے تو تھوڑی سی کوشش سے راستہ ہموار ہو جاتا ہے۔ اجازت حاصل کرنے کے لیے جوئے شیر نہیں لانا پڑتی۔محکمہ اطلاعات کے ذمہ داروں سے کہا کہ آپ متعلقہ حکام سے اجازت لے دیجیے،انہوں نے کانوں کو ہاتھ لگا لیے۔ناں بابا ناں،اس کا ایک اپنا طریقہ کار  ہے جس میں وقت لگے گا۔ سو، ارمانوں پر اُوس پڑ گئی۔ مشرقی پنجاب کے کسی شہر میں جانا تو اور بھی مشکل تھا۔

1941ء کی مردم شماری کے مطابق پنجاب میں مجموعی طور پر مسلمان اکثریت میں تھے (53 فی صد سے زائد) جو پنجابی علاقے بھارت کے حصے میں آئے، ان میں مسلمانوں کی آبادی38 فی صد سے زائد تھی۔ ضلع ہوشیار پور کی ایک تہائی آبادی (32.47%) مسلمان تھی، سکھ قریباً17فی صد تھے، اور ہندو 49 فی صد سے کچھ زائد۔ آزادی سے پہلے یہاں بھی ”لے کر رہیں گے پاکستان“ کے نعرے گونجتے تھے۔مسلمانوں کی بھاری  تعداد مسلم لیگ کے ساتھ تھی،اور محمد علی جناح کو اپنا قائداعظمؒ جانتی اور مانتی تھی۔میرے ماموں قاضی نیاز محمد مقامی مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل تھے، اور پاکستان کے نشے میں سرشار (اُن کی خدمات کے اعتراف میں برسوں بعد اُنہیں تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ کی طرف سے گولڈ میڈل سے نوازا گیا) اپنے والدین کو بھی میں نے پاکستان کی محبت میں مگن پایا،اس کا خواب دیکھنے والوں میں وہ کسی سے پیچھے نہیں تھے۔ میری والدہ کا تعلق جالندھر کے معروف قاضی خاندان سے تھا۔ قاضی صاحبان بھی  قانون گو شیخ تھے،اور اس حوالے سے میرے دودھیال سے جڑے ہوئے تھے، لیکن ان کا تشخص اس وقت الگ ہو گیا،جب قضا کا منصب ان کے کسی بڑے کے پاس آیا اور یوں ان کی اولاد قاضی کہلانے لگی۔ جالندھر ہوشیارپور سے جڑا ہوا تھا، دونوں کے درمیان صرف 45 کلو میٹر کا فاصلہ تھا، دونوں دو آبے کا حصہ تھے۔ دریائے ستلج اور بیاس کا درمیانی علاقہ دو آبہ کہلاتا تھا، یعنی دو پانیوں کے درمیان خشکی۔ دو آبے کی پنجابی اپنی الگ پہچان رکھتی ہے، اس میں ”و“ کی  آواز ”ب“ سے ملتی ہے،دھیمے لہجے اور مٹھاس کی وجہ سے دو آبے کے باسی اپنی شناخت رکھتے ہیں۔ میرے دودھیال بھی قانون گو شیخ تھے، لیکن حضرت تاج العارفین عبدالنبی کی اولاد۔ وہ شام چوراسی میں دفن ہیں اور آج کل ان کے مزار کے انتظام و انصرام کے لیے غیر مسلموں کی کمیٹی قائم ہے، جس کے سربراہ ترلوچن ترلوچی ہیں جو کئی بار ہندو زائرین کے ساتھ پاکستان آ چکے ہیں۔سالانہ عرس کی تقریبات انہی کے زیر نگرانی ہوتی ہیں۔ مزار کے جملہ امورکی دیکھ بھال بھی ان کے سپرد ہے۔دو آبے کے قانون گوؤں میں سے کم ہی زراعت یا تجارت سے منسلک تھے، وہ زیادہ تر ملازمت پیشہ تھے، اور ملازمت ہی کو  بہتر ذریعہ روز گار سمجھتے تھے۔چیف جسٹس شیخ انوارالحق، چیف سیکرٹری ایس آئی حق اور بریگیڈیئر احسن رشید شامی مرحوم کا تعلق دو آبے ہی کے قانون گوؤں سے تھا۔آخر الذکر دونوں تو شامی بھی تھے، یعنی حضرت شیخ عبدالنبی کی اولاد۔

تحریک آزادی کے دوران جب ہوشیار پور اور جالندھر میں پاکستان کے نعرے گونجتے تھے،تو کسی کو یہ خبر نہیں تھی کہ یہ شہر پاکستان کا حصہ نہیں بنیں گے۔ ہوشیارپور اور جالندھر میں ہندو سکھوں کے ساتھ مل کر اکثریت بن جاتے تھے، لیکن یہ دونوں پنجاب کا حصہ تھے اور پنجاب میں مسلمانوں کی اکثریت تھی۔ میرے والدین یہی سمجھتے تھے کہ ہوشیارپور پاکستان کا حصہ ہو گا، مسلمان اکثریتی علاقوں پر مشتمل نیا ملک ان کی زمین سے قطع تعلق کیسے کر لے گا؟ تحریک آگے بڑھتی گئی تو وسوسے پیدا ہوتے چلے گئے،اور جب یہ معلوم ہوا  کہ مسلم اکثریتی صوبوں پنجاب اور بنگال کی تقسیم پر مسلم لیگ متفق ہو گئی ہے،تو دھچکا سا لگا۔ یقین نہیں آ رہا تھا کہ ایسا ہو سکتا ہے۔پانچ دریاؤں سے جڑی زمین کی چیر پھاڑ بھی ممکن ہے۔ خون کے کئی گھونٹ پینا پڑے،اپنے آپ کو طفل تسلیاں دی جانے لگیں کہ پاکستان ہماری سرحدوں پر تو موجود ہو گا۔ہماری طاقت تو بنا رہے گا،اس کی طاقت سے ہم طاقت حاصل کریں گے،یہاں ہمیں کوئی دبا نہیں سکے گا۔وقت جوں جوں گذرتا گیا، ماحول تبدیل ہوتا گیا۔

(یہ کالم روزنامہ  ”پاکستان“ اور  روزنامہ ”دُنیا“ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)

٭٭٭٭٭

مزید :

رائے -کالم -