پاک چین راہداری عالمی سرداری
یہ امر خوش آئند ہے کہ پاکستان کے تقریباً ہر علاقے سے کاشغر تا گوادر عالمی معیار کی سڑکوں کا جال/ نیٹ ورک پھیلا دیا جائے گا۔ پاکستان کی خوشی، خوشحالی اور ترقی تقدیر الٰہی ہے اور تقدیر الٰہی کی تکمیل میں شامل ہر فرد اور ادارہ قابلِ تحسین ہے۔یہ راہداری بری، زمینی اور بحری راستوں پر مبنی ہے۔ کاشغر تا گوادر راہداری کا پہلا مرحلہ ہے، دوسرا مرحلہ گوادر تا دبئی ہے جہاں سے تجارتی مال زمینی راستوں سے مشرقِ وسطیٰ، یوروپ اور افریقہ کے ممالک کو جا سکتا ہے، جبکہ بحری راستہ خلیج عرب سے ہوتا ہوا بحرین، یمن، سوڈان، مصر اور اسرائیل کو جاتا ہے۔ نہر سوئز بھی اسی راہداری کا حصہ ہے۔ بقول اقبال:
نیل کے ساحل سے لے لر تابخاک کاشغر
علاوہ ازیں یہی بحری راستہ جنوبی بھارتی سمندری علاقوں سے متصل مشرق بعید تک چلا جاتا ہے۔ چین کی مشرقِ بعید کے لئے دوسری راہداری بنگلہ دیش، برما، سری لنکا بھی ہو سکتی ہے۔ البتہ پاک چین راہداری نئے عالمی تجارتی زمینی و سمندری راستوں کی بنیاد بنتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ گوادر دُنیا کی بہترین بندرگاہ ہے، جس کے عقب میں بے بہا معاشی و تجارتی سرگرمیاں پنہاں ہیں۔ پاکستان ایسا تجارتی و معاشی مقام اتصال ہے، جہاں بھارت، افغانستان، وسط ایشیا، چین اور کسی حد تک روس کی تجارتی سرگرمیوں کا مصدر و مرکز ہے۔ اس وقت عالمی منڈی، یعنی معاشی و تجارتی حالات و واقعات بہت بڑی تبدیلی کی جانب اشارہ کر رہے ہیں۔ پچھلے کچھ عرصے سے سستی چینی مصنوعات نے عالمی منڈی میں یہودی کی عالمی کمپنیوں کی مہنگی مصنوعات کو نہ صرف مات کر دیا، بلکہ یہودی عالمی کمپنیوں کی مصنوعی اجارہ داری کو بھی بُری طرح متاثر کیا ہے۔ درایں صورت پاکستان کا جغرافیائی محل وقوع دُنیا کی ہر قوم اور ہر مُلک کی ضرورت ہے اسی ضرورت کے تحت عالمی ساہو کاروں، سرمایہ کاروں نے پاک سرزمین کو اپنا نیا محاذ جنگ بنا رکھا ہے۔ اس وقت پاکستان عالمی ساہو کاروں کا سرکاری حلیف ہے، مگر عالمی ساہو کاروں کو خدشہ ہے کہ کسی وقت پاکستان کی قومی و ملی روح بھی بیدار ہو سکتی ہے، جس کا اظہار قیام پاکستان کی نظریاتی اساس ہے جو قرآن و سنت کے ساتھ غیر مشروط وفاداری پر استوار ہے اور اسی اسلامی ، یعنی قومی وملی جذبے نے پاکستان کو عالمی جوہری قوت بنا دیا ہے اور یہی وہ پس منظر اور پیش منظر ہے، جس کو نواز شریف صاحب نے عالمی گیم چینجر کہا ہے اور شاعر مشرق نے اسے درایں شعر واضح کیا ہے:
کھول آنکھ، زمیں دیکھ، فلک دیکھ، فضا دیکھ
مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ!
فی الحقیقت پاکستان عالمی سرگرمیوں کا محاذ، مرکز اور سردار ہے۔ عالمی سرداری کی تاجپوشی کا ہما کس فرد کے سربیٹھے گا، یہ دیکھنے کے لئے قوم کی نظریں منتظر ہیں۔ شاعر اسلام علامہ اقبال ؒ نے بہت پہلے کہا تھا:
سبق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام، دنیا کی امامت کا!
یہ نکتہ سرگزشت ملت بیضا سے ہے پیدا!!
کہ اقوامِ زمینِ ایشیا کا پاسبان تو ہے
پاک چین دوستی سمندر سے گہری اور ہمالہ سے اونچی ہے، دونوں ممالک کی تاریخ باہم ایثار، اخلاص اور وفا سے مرقوم ہے۔ یہ دوستی عالمی اتحادی طاقتوں کو کھلتی ہے۔پاکستان اقتصادی راہدای کے ساتھ دینی ، دفاعی اور فوجی راہداری بھی ہے۔ غزنوی، غوری اور ابدالی بھی سرزمین پاکستان رہی ہے، جبکہ ہجویری، اجمیری، نظامی، مجددی (چشتی) کی دینی راہداری بھی پاک سرزمین تھی، یعنی پاک سرزمین اللہ کے دوستوں(اولیاء، علماء، مشائخ) اور مجاہدوں کی راہداری ہے۔ بھارت نے اسی تاریخی حقیقت کو مدظر رکھ کر افغانستان میں اپنا اثرو رسوخ اس حد تک بڑھا لیا ہے کہ سارا پاکستان بھارت اور اتحادی طاقتوں کے درمیان سینڈوچ بن کر رہ گیا ہے۔ اتحادی اثرو رسوخ نے مسئلہ یمن کے حوالے سے پاکستان کے غیر مشروط اور معتمد ترین دینی اور ریاسی حلیف کے درمیان بداعتمادی کا خلا پیدا کر دیا ہے یہ بداعتمادی پاکستان اور سعودی عرب دونوں کی ریاستی سلامتی کے لئے مہلک ہے۔
راہداری عالمی سرداری ہے۔ یہ پاکستان کی جغرافیائی جیت ہے، قائداعظم ؒ نے غالباً 1944ء میں مصری سیاست دانوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر پاکستان نہ بنا تو بھارتی ہندو بذریعہ کراچی (گوادر) نہر سوئز کو اپنی مرضی کے مطابق چلائے گا، لہٰذا قیام پاکستان نہ صرف مصر، بلکہ تمام عالم اسلام کی سلامتی کے لئے ضروری ہے۔ بھارتی پالیسی کا رہنما اصول خطے میں رام راج اور اکھنڈ بھارت ہے۔ ہندو انتہا پسندی اور دہشت گردی کا حال یہ ہے کہ رام گاڈ نے مہاتما گاندھی کو اس لئے قتل کیا کہ اس نے تقسیم ہند اور پاکستان کو قبول کر لیا تھا۔ اس ضمن میں بھارت کو اسرائیل، ایران، امریکہ، روس، یورپ بلکہ تمام اتحادی طاقتوں کی حمایت میسر ہے اسی لئے مودی سرکار نے راہداری کے خلاف اور دہشت گردی کی سرپرستی کے لئے کھل کر اعلان کیا اور پاکستان کے خلاف اسرائیل یاترا کا فیصلہ کیا ہے۔ بھارت اپنے اہداف کے حصول کے لئے کچھ بھی کر سکتا ہے، مگر الحمد للہ پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت بھارتی جنون، مذہبی انتہا پسندی، دہشت گردی اور پاکستان دشمن پالیسی کو بخوبی سمجھ گئے ہیں۔ قائداعظم ؒ کی پالیسی دشمن شناسی ہے، جبکہ علامہ اقبال ؒ کی پالیسی خود شناسی ہے اور یہی دوست اور دشمن شناسی کی پالیسی پاکستان کی جیت ہے۔ پاکستان امن، ترقی اور خوشحالی کا حامی ہے، مگر ازلی دشمن کو دوست بنا کر خود کشی کی پالیسی نہیں اپنا سکتا اور یہی موجودہ قیادت کا عزم ہے۔