بھارتی تلملاہٹ کا جواز اور علاج

بھارتی تلملاہٹ کا جواز اور علاج
 بھارتی تلملاہٹ کا جواز اور علاج

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

روس میں وزیر اعظم نوازشریف اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے درمیان ملاقات میرے نزدیک ایک رسمی کارروائی کے سوا کچھ نہیں۔ اس ملاقات کے بعد جاری ہونے والا مشترکہ اعلامیہ بذات خود اس بات کی گواہی ہے کہ سب کچھ رسمی تھا۔ قیاس آرائیاں جو مرضی کی جاتی رہیں اور دعوے جیسے چاہیں گھڑے جائیں مگر سب کو علم ہے کہ ایسی ’’سر راہ‘‘ ہونے والی ملاقاتیں کیا اہمیت رکھتی ہیں، ایسی ملاقاتیں ملمع کاری کے سوا کچھ نہیں ہوتیں خاص طور پر پاک بھارت وزرائے اعظم کے درمیان ماضی میں جب بھی ایسی ملاقاتیں ہوئی ہیں ان کا قطعاً کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکلا۔ تلخ حقائق سے نظریں چرا کر مصنوعی مسکراہٹوں کا تبادلہ سوائے فوٹو سیشن کے اور کسی کام کا نہیں۔ اس سے تو کہیں بہتر تھا کہ وزیر اعظم محمد نوازشریف نریندر مودی سے ملاقات نہ کرتے۔ اس سے دنیا کو کم از کم یہ پیغام تو ملتا کہ پاکستان جو خطے میں قیام امن کے لئے باقاعدہ جنگ لڑ رہا ہے، بھارت سے کیوں نہیں ملنا چاہتا۔ یہ نکتہ بھی طشت از بام ہوتا کہ اس خطے کے امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ خود بھارت ہے۔ جو علاقے میں اپنی بالا دستی چاہتا ہے جو پاکستان کو خوشحال نہیں دیکھنا چاہتا اور جس کی خواہش ہے کہ پاکستان بھی علاقے میں نیپال کی طرح کا ملک بن کر رہ جائے۔


جس طرح ایک کم ظرف اور جھوٹی شان و شوکت کا خواہش مند شخص اپنی باڈی لینگویج سے دوسروں کو یہ تاثر دینے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ سب سے بلند مرتبہ ہے،اُسی قسم کی سطحی ذہنیت کا اظہار نریندر مودی نے ملاقات کے موقع پر کیا۔ آج سبھی کہہ رہے ہیں کہ نریندر مودی کا ملاقات کے موقع پر اپنی جگہ سے آگے بڑھ کر وزیر اعظم نوازشریف سے مصافحہ نہ کرنا سفارتی آداب کے خلاف ہے ’ارے نہیں بھائی‘ یہ سفارتی آداب کا معاملہ نہیں، بھارتی ذہنیت کا کیا دھرا ہے۔ خاص طور پر نریندر مودی جیسا شخص جس کی زندگی جھوٹی پھوں پھاں پر گزری ہے، اس قسم کا مظاہرہ کر کے یہ تاثر دینا چاہتا تھا کہ پاکستانی وزیر اعظم خود اُن کی طرف چل کر آئے ہیں، وہ نہیں گئے۔ آپ غور کریں کہ جب اس دورہ کے دوران روسی صدر پیوٹن اور وزیر اعظم محمد نوازشریف کی ملاقات ہوئی تھی تو وہ کس قدر گرم جوشانہ تھی، دونوں رہنما اس طرح ایک دورسے کی طرف آگے بڑھے تھے جیسے دیرینہ دوست ہوں۔ دوسری طرف آپ نریندر مودی سے ملاقات کی ویڈیو کلپ دوبارہ دیکھیں، نریندر مودی اس طرح زمین سے چپک کر کھڑے رہے جیسے وہ مادام تساڈ کے میوزیم میں رکھا ہوا مجسمہ ہوں۔ اب آپ بتائیں کہ جس شخص کی ذہنیت کا یہ معیار ہو وہ کیسے پاک بھارت تعلقات میں کسی بہتری کے لئے کام کر سکتا ہے۔ بھارتی وزیر اعظم کو دورۂ پاکستان کی دعوت دینے کا یہ کوئی موقع نہیں تھا۔ اس دورسے سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا کیونکہ نریندر مودی وزیر اعظم بن کر بھی اپنے اسی ذہینی تعصب سے باہر نہیں نکل سکے۔ جس کا وہ پاکستان کے حوالے سے ہمیشہ شکار رہے ہیں۔


روس میں ہونے والی اس کانفرنس کے دوران بھارتی وزیر اعظم کے اضطرابی عمل سے کیا یہ ثابت نہیں ہوتا کہ بھارت پاکستان کے خطے میں بدلتے ہوئے کردار سے قطعاً خوش نہیں ۔ کیا چینی صدر سے ملاقات میں انہوں نے اکنامک کوریڈور منصوبے پر عدم اطمینان کا اظہار نہیں کیا، جسے چینی صدر نے مسترد کر دیا، کیا ہم اس خوش فہمی میں مبتلا ہو سکتے ہیں کہ سکتے ہیں چونکہ چینی صدر نے بھارت کے موقف کو مسترد کر دیا ہے اس لئے بھارت اب خاموش ہو کر بیٹھ جائے گا؟ نہیں صاحب نہیں، وہ زخمی سانپ کی طرح تڑپ رہا ہے اور اُس کا بس نہیں چل رہا کہ کس طرح اس منصوبے کو سبوتاژ کر سکے۔ پہلے تو اس کا دکھ صرف یہ تھا کہ پاکستان کشمیری مجاہدین کی حمایت کیوں کرتا ہے اور کشمیر کو دونوں ممالک کے درمیان سب سے بڑا مسئلہ بنا کر کیوں شور مچاتا ہے، اب اُس کا دکھ یہ ہے کہ چین کے ساتھ اگر اقتصادی راہداری کا منصوبہ کامیاب ہو گیا تو اس کی حیثیت بالکل ثانوی ہو کر رہ جائے گی۔ پھر شاید وہ دنیا سے اس طرح اپنی ہٹ دھرمی نہ منوا سکے جس طرح اب منواتا ہے اور کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ کہہ کر ہر دعوے کو مسترد کر دیتا ہے۔ پاکستانی قیادت کو یہ بات ذہن نشین کر لیتی چاہئے کہ ان دنوں بھارت کا کوئی بھی مثبت چہرہ یا کوئی بھی مفاہمانہ عمل خطرے سے خالی نہیں ہو سکتا۔ اس وقت ’’را‘‘ اور بھارت کا دفتر خارجہ جس قدر پاکستان کے خلاف متحرک ہے شاید ماضی میں کبھی رہا ہو، کیونکہ جوں جوں وقت گزر رہا ہے، بھارت کی سانسیں پھولتی جا رہی ہیں، اس نے اس کانفرنس میں بھی دیکھ لیا ہے کہ علاقے میں اہمیت کے حوالے سے پاکستان کا پلڑا بھاری ہوتا جا رہا ہے۔


اس ساری صورتحال میں ہمیں بھارت سے خیر کی توقع رکھنے یا اُس کی طرف دیکھنے کی بجائے اپنے گھر پر توجہ دینی چاہئے۔ سیانے کہتے ہیں کہ دشمن اُس وقت کامیاب ہوتا ہے جب آپ خود کمزور ہو جاتے ہیں بھارت کی ساری توجہ اس وقت پاکستان کے بارے میں دنیا کے اندر منفی تاثر پھیلانے پر مرکوز ہے اس منفی تاثر کا بنیادی ہدف یہ ہے کہ پاکستان کو ایک غیر محفوظ اور دہشت گردی کا مرکز ملک ثابت کیا جائے اس کی ایک حالیہ مثال اس وقت سامنے آئی جب ایک روز پہلے چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف اور ڈی جی آئی ایسآئی لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر کوئٹہ میں امن و امان کے حوالے سے ایک اجلاس میں شرکت کرنے گئے۔ اُن کی وہاں موجودگی کے دوران کوئٹہ میں ایک دھماکہ کیا گیا اور تربت میں 9 افراد کو قتل کر دیا گیا۔ صاف نظر آ رہا ہے کہ اس کے پس پردہ ایسی قوتیں کارفرما ہیں جو اس تاثر کو قائم نہیں ہونے دینا چاہتیں کہ کوئٹہ یا بلوچستان میں امن ہو گیا ہے۔ اب اگر ہم ساری توجہ اس بات کو یقینی بنانے پر مرکوز نہیں کریں گے تو بلوچستان سمیت پورے ملک میں امن قائم نہ ہوگا اور یہ خواہش کرتے رہیں گے کہ بھارت مذاکرات کے ذریعے ہماری بات مان لے اور ’’را‘‘ کی سرگرمیاں بند کر دے تو ہم سے بڑا احمق کوئی نہیں ہوگا۔ بنیے سے خیر کی اُمید رکھنا حماقت سے بھی آگے کی چیز ہے۔ خاص طور پر جب بنیا اس بات پر پیچ و تاب کھا رہا ہو کہ خطے میں اُس کا سب سے بڑا حریف اقتصادی حوالے سے آگے نکل رہا ہے اور چین کے ساتھ مل کر ایک ایسا اقتصادی راستہ بنانے کی کوشش کر رہا ہے جس کے بعد بھارت سائیڈ لائن پر چلا جائے گا تو اس کے اندر کی خونخواری کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔


اس وقت اصل راستہ وہی ہے جو ہماری عسکری و سیاسی قیادت نے اختیار کر رکھا ہے کہ اپنا گھر مضبوط کرو، شرپسندی اور دہشت گردی جہاں نظر آئے اسے کچل دو۔ آپریشن ضرب عضب بہت بڑی کامیابی ہے، جس نے دہشت گردوں کی کمر توڑ دی ہے۔ عسکری قیادت نے جنگی حکمت عملی کے تحت ملک کے تین علاقوں کو فوکس کیا ہوا ہے۔ شمالی و جنوبی وزیرستان، بلوچستان اور کراچی۔ اس حکمت عملی کے پیچھے آئی ایس آئی کی بھرپور مدد شامل ہے، جس نے یہ بھانپ لیا ہے کہ انہی علاقوں میں بھارت زیادہ مداخلت کر رہا ہے تاکہ پاکستان کے پر امن تشخص کو برباد کر سکے۔ نجانے ہماری بلوچ قیادت کب سمجھے گی کہ اس موقع پر جب بلوچستان کی تقدیر بدلنے جا رہی ہے، اُن کا سیاسی طور پر متحد ہونا کتنا ضروری ہے۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے ہتھیار پھینکنے والے بلوچوں کے لئے عام معافی کا اعلان کر کے ایک بڑی رکاوٹ دور کر دی ہے، اب سیاسی قیادت کا فرض ہے کہ وہ بلوچستان کے عوام کو وہ اعتماد اور یقین لوٹائے جس سے وہ محروم چلے آ رہے ہیں۔ بھارتی ایجنسی ’’را‘‘ کے ایجنٹ جس احساس محرومی کو بنیاد بنا کر وہاں آباد غیر بلوچی اقوام کے خلاف نفرت کا بیج بوتی ہے اس کا خاتمہ سیاسی قیادت ہی کر سکتی ہے، خاص طور پر گوادر پورٹ اور اقتصادی راہداری منصوبے کے حوالے سے لوگوں میں شعور اُجاگر کر کے اُنہیں ملک دشمنوں کے سامنے مضبوط ڈھال بنایا جا سکتا ہے۔ کراچی میں رینجرز کے اختیارات کی توسیع کے موقع پر جو کچھ ہوا، اُسے کم سے کم الفاظ میں شرمناک ہی کہا جا سکتا ہے۔ یہ تو اُسی بھارتی ایجنڈے کو ممکن بنانے کے مترادف ہے جو وہ پاکستان کو غیر محفوظ ملک ثابت کرنے کے سلسلے میں اپنائے ہوئے ہے۔ شکر ہے کہ پوری قوم اس نکتے پر متفق ہو چکی ہے کہ پاکستان کو ہر قسم کی کرپشن اور دہشت گردی سے پاک کرنا ہے، اس لئے اس ضمن میں فوج جو کچھ کر رہی ہے، اُسے قوم کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ ہماری اصل کامیابی یہی ہے کہ ہم متحد ہو جائیں۔ کیونکہ ہم جس راستے پر چل نکلے ہیں، وہ خطے میں بھارت کی شکست کا راستہ ہے اور اس کی ساری تلملاہٹ اسی وجہ سے ہے۔

مزید :

کالم -