الیکشن کے موقع پردہشت گردی
پشاور میں اے این پی کی انتخابی مہم کے دوران دھماکے میں اے این پی کے مرحوم رہنما بشیر بلور کے بیٹے ہارون بلور سمیت 6 افراد شہید ہوگئے۔دھماکا پشاور کے علاقے یکہ توت میں عوامی نیشنل پارٹی کی کارنر میٹنگ کے دوران ہوا۔
کارنر میٹنگ کے دوران ہارون بلور کارکنوں سے خطاب کرنے کے لئے سٹیج کی جانب جارہے تھے کہ اس موقع پر ایک 24سالہ لڑکے نے ان کے قریب خود کو دھماکے سے اڑادیا۔زخمیوں کی تعداد 30 کے قریب ہے جن میں سے متعدد کی حالت تشویش ناک ہے۔
عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ حملہ خود کش تھا۔ ہارون بلور تقریب کے مہمان خصوصی تھے ان کے پہنچنے پر حملہ آور نے ان کے قریب پہنچ کر خود کو دھماکے سے اڑالیا۔ دھماکے کے بعد اے این پی کے کارکنان بڑی تعداد میں جائے وقوع اور اسپتال پہنچ گئے۔ ہارون بلور کے ساتھ ان کے بیٹے دانیال بلور بھی موجود تھے اور وہ بھی زخمی ہوگئے ہیں۔
جائے وقوع سے کچھ ہی فاصلے پر 22 دسمبر 2012ء میں اے این پی کے رہنما بشیر بلور پر خودکش حملہ ہوا تھا جس میں بشیر بلور سمیت 9 افراد شہید ہوگئے تھے بشیر بلور کو بھی لیڈی ریڈنگ اسپتال منتقل کیا گیا تھا جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گئے تھے اس وقت ہارون بلور بھی وہاں موجود تھے جو دھماکے میں زخمی ہوگئے تھے۔
چیف الیکشن کمشنر سردار محمد رضا نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ حملہ سکیورٹی اداروں کی کمزوری ہے۔ حملہ شفاف الیکشن کے خلاف سازش ہے۔
تمام امیدواروں کو یکساں سکیورٹی فراہم کرنے کے احکامات دیئے جا چکے ہیں ۔نگراں وزیراعظم ناصر الملک نے پشاور دھماکے کی شدید مذمت کی ہے۔ عام انتخابات میں سیاسی رہنماؤں کی سیکیورٹی بڑھانے کے لئے الیکشن کمیشن نے پولیس افسران کو خصوصی اقدامات کی ہدایت کر دی ہے۔
الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعتوں کے امیدواروں اور الیکشن کمیشن کے عملے کو سیکیورٹی خدشات کے معاملے پر چاروںآئی جیز کو خط لکھنے کا فیصلہ کیا۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ میں اسپیشل سیکرٹری داخلہ رضوان ملک نے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ انتخابات کے موقع پر امیدواروں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے اور بیرون ملک سے الیکشن کو متاثر کرنے کے خدشات ہیں۔ اسپیشل سیکرٹری داخلہ کا کہنا تھا کہ رینجرز اور مختلف کانسٹیبلری کا انتخابات کے دوران سیکیورٹی میں اہم کردار ہوگا۔
اس کے علاوہ 3 سیسنا طیارے بھی سیکیورٹی کے لئے ہمہ وقت تیار ہوں گے۔ روزانہ کی بنیاد پر ان امور کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔نیکٹا کو 12 تھریٹس موصول ہوئے تھے جس میں 6 سیاسی شخصیات کے حوالے سے تھے۔عام انتخابات کی ٹریننگ لینے والے عملے کو بھی تھریٹس موصول ہوئے ہیں۔نیکٹا نے پچھلے ہفتے سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے داخلہ کے سامنے ان 6 لیڈروں کے نام کا انکشاف کیا تھا ، جنہیں انتخابی مہم کے دوران دہشت گرد نشانہ بناسکتے ہیں۔
نیکٹا نے بتایا تھا کہ خفیہ اداروں کی رپورٹ کے مطابق ان چھ سیاسی افراد میں پاکستان تحریک انصاف کے صدرعمران خان،عوامی نیشنل پارٹی کے لیڈر اسفندیارولی اورامیرحیدر، قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب شیرپاو، جمعیت علمائے اسلام فضل کے لیڈراکرم خان درانی اورحافظ سعید کے بیٹے طلحہ سعید شامل ہیں۔ اس کے علاوہ نیکٹا کے مطابق پاکستان پیپلزپارٹی اور پاکستان مسلم لیگ نوازکی اعلیٰ قیادت کو بھی دہشت گردی سے خطرہ ہے۔
پاکستان کے نگران وزیر داخلہ اعظم خان نے کہااگرچہ ملک میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے کی جانے والی انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں کے نتیجے میں امن و امان کی صورت حال پہلے کے مقابلے میں کافی بہتر ہے، لیکن، دہشت گردی کا خطرہ اب بھی موجود ہے۔ اور ان کے بقول، دہشت گرد عام انتخابات کے عمل کو سبوتاژ کرنے کے لئے کارروائی کرسکتے ہیں۔
بقول ان کے ’آپ کو پتا ہے کہ پاکستان میں حالات پہلے تو بہت خراب تھے اور اب فوجی آپریشن کی وجہ سے کافی کنڑول ہوگئے ہیں،لیکن، دہشت گردی کا خطرہ جو ہے رہے گا اب بھی کسی حد تک ہے اور یہ رہے گا اس بات کورد نہیں کیا جاسکتا کہ دہشت گرد کسی سیاسی جماعت یا اس کی ریلی یا اجلاس میں خلل ڈالیں یا گڑ بڑ نہ کریں۔‘ وزیر داخلہ نے کہا کہ ہمارے پاس ایسی اطلاعات موجود ہیں کہ سیاسی اجتماعات کو دہشت گرد نشانہ بنا سکتے ہیں۔عام انتخابات میں جلسوں اور سیاسی اجتماعات پر دہشت گردوں کی طرف سے حملہ کا خطرہ ہے۔
دہشت گردوں کے سلیپرز سیل موجود ہیں جن کو کسی وقت متحرک کیا جا سکتا ہے۔ انتخابی عمل کے دوران ایف سی‘ پولیس اور دوسری پیرا ملٹری فورسز کو استعمال کیا جائے گا۔ فوج صرف پولنگ سٹیشنوں پر متعین ہو گی، لیکن اگر ضرورت پڑی تو کسی صورت حال سے نمٹنے کے لئے فوج کو طلب کیا جا سکتا ہے۔
خطرات کامقابلہ کرنا ہماری فوج ہمارے حساس اداروں‘ رینجرز‘ ایف سی اور پولیس کی ذمہ داری ہے امیدواروں کو تحفظ فراہم کرنا اور ضابطہ اخلاق کے دائرے میں انتخابی مہم چلانے کو یقینی بنانا نگران حکومت اور الیکشن کمیشن کابنیادی فریضہ ہے مگر ایسا لگتا ہے کہ اس میں ان کے ناکام ہونے کا خطرہ ہے اور ملک میں انتخابی عمل شروع ہونے کے باوجود انتخابات کے انعقاد شفافیت اور غیر جانبداری کے حوالے سے جن شکوک و شبہات کا اظہار کیاجا رہاہے وہ اذہان و قلوب کے وسوسے سے نہیں، بلکہ حقیقت سے قریب تر ہیں۔