پچھلے منشور کا کیا بنا؟
ہر الیکشن سے چند روز قبل الیکشن میں حصہ لینے والی پارٹیاں اپنے اپنے منشور کا اعلان کرتی ہیں۔ ماضی میں سیاسی جماعتوں کے اعلان کردہ منشور اور ان پر عملدرآمد کی صورت حال کو دیکھا جائے تو کافی حد تک مایوسی ہوتی ہے ۔ ایسے منشور عوام کو بہلانے، چند سیاسی نعروں اور سبز باغ دکھانے سے زیادہ کچھ نظر نہیں آتے۔
ہر سیاسی جماعت ایسے ایسے بلند بانگ دعوے کردیتی ہے جن کا زمینی حقیقتوں سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا ۔ سیاست دانوں کے بارے میں ایک لطیفہ مشہو ہے کہ انتخابی مہم کے دوران ایک ووٹر نے سیاست دان کے سامنے درخواست رکھی کہ ہمارے گاؤں سے چاندتک پختہ سڑک بنائی جائے۔ سیاست دان نے فوری طور پر قلم پکڑا اور لکھ دیا کہ جلد از جلد پختہ سڑک بنائی جائے۔ سیاستدانوں اور امیدواروں کے بارے میں ایسے سینکڑوں لطیفے زبان زد عام ہیں۔
کسی خاندان کا پانچ برس قبل ایک شخص فوت ہوا ۔ امیدوار انتخابی مہم کے دوران اس کے گھر پہنچا اور فاتحہ خوانی کرنے کے لئے ہاتھ اٹھا لئے۔ ووٹرز کے ساتھ سرد مہری اور دوری کو اپنے عمل سے ظاہر کر دیا۔ دور نہ جائیں 2013 ء کے الیکشن سے قبل ملک میں بجلی کی شدید قلت تھی ۔ لوڈشیڈنگ کی وجہ سے گھرو ں میں لوگ جھلس رہے اور کارخانے بندش کا شکار رہتے تھے۔
آصف علی زرداری کی حکومت تھی ، پہلے تو انہوں نے لوگوں کی تکالیف کی پرواہ نہیں کی، جب بجلی کا انتظام کیا تو کرپشن میں ڈوبے ہوئے رینٹل پاور اسٹیشن منگوا لئے، اگر ان سے حاصل کردہ بجلی استعمال کی جاتی تو گھریلو صارفین گھر کے برتن بیچ کر بھی شاید بل ادا نہ کر سکتے۔
صنعتی صارفین اگر ایسی بجلی استعما ل کرتے تو ان کی مصنوعات اندرون اور بیرون ملک فروخت نہ ہو سکتیں۔ میاں محمد نواز شریف نے اپنی انتخابی مہم کے دوران کاروباری طبقے اور عوام سے وعدہ کیا کہ وہ پہلی فرصت میں بجلی کی پیداوار بڑھانے کا بندوبست کریں گے۔ اقتدار میں آتے ہی شریف برادران نے چین کے متعدد دورے کئے اور چین کی قیادت کو پاکستان کی حقیقی ضرورتوں سے آگاہ کیا۔
سی پیک منصوبے کے لئے پہلی قسط کے طور پر46 ارب ڈالر دینے پر اتفاق ہوا، اس رقم میں سے 30 ارب ڈالر کے قریب بجلی کے منصوبوں پر خرچ کی جانا تھی ۔ میاں محمد نواز شریف نے دھڑا دھڑ بجلی کے منصوبوں کا سنگ بنیاد رکھا ۔ ایک اور سیاسی رہنما نے بجلی اور دیگر ترقیاتی منصوبوں میں رکاوٹیں پیدا کرنے کے لئے دھرنوں کا آغاز کر دیا۔
سب مشکلات کے باوجود2018 ء کے الیکشن سے پہلے پہلے شروع کردہ منصوبوں سے بجلی ملنا اور اندھیرے رفو چکر ہونا شروع ہو گئے۔ اپنے منشور پر عملدرآمد کے سلسلے میں شریف برادران نے انفرا سٹرکچر کی تعمیر و تکمیل، میٹرواورنج لائن ٹرین چلانے اور سی پیک پر تیزی سے کام شروع کر ا دیا ۔
ہسپتالوں اور سکولوں کی حالت میں بہتری لائی گئی،یہی وجہ ہے کہ میاں محمد شہباز شریف بھرے جلسوں میں اپنی کارکردگی بتاتے ہیں، جبکہ دیگر سیاست دان صرف ان پر الزامات لگاتے اور مقدمہ بازیوں سے ڈراتے ہیں ۔
25 جولائی کے الیکشن کے لئے ایک بار پھر سیاسی جماعتیں منشور کی شکل میں عوام سے وعدوں کی مصنوعی بہار کھلا رہی ہیں ۔ سچی اور زمینی حقیقت یہ ہے کہ 2013 ء کے الیکشن کے لیے اعلان کردہ منشور پر زیادہ نہیں تو 75فیصد پر اگر کسی نے عمل کیا ہے توصرف میاں محمد نواز شریف اور میاں محمد شہباز شریف نے کیا ہے۔
بالخصوص پنجاب کا کاروباری طبقہ میاں محمد شہباز شریف کی کارکردگی سے اس لئے مطمئن ہے کہ انہوں نے پہلی ترجیح کے طور پر بجلی کی پیداوار بڑھائی، لوڈشیڈنگ ختم کی اور کارخانے چلائے۔بہترین سڑکوں کی تعمیر اور ضرورت کے مطابق انڈر پاس تعمیر کرکے خارجہ سرمایہ کاروں کی پنجاب میں دلچسپیوں کو بڑھایا۔
موٹر ویز تعمیر کئے اور سی پیک پر کام شروع کرا کے پاکستان کے احترام و وقار کو چار چاند لگائے، اگر ملک بھر کے سیاست دان میاں محمد نواز شریف اور میاں محمد شہباز شریف کی طرح اپنے وعدوں کا پاس و لحاظ کریں تو پاکستان صحیح معنوں میں اسلامی فلاحی ریاست بن سکتا ہے ۔ جھوٹ بولنا چھوڑ دیں اور بس اتنے وعدے کریں جو بعد میں پورے کر سکیں۔
پاکستان کا کاروباری طبقہ اور باشعور عوام سیاست دانوں کے سابقہ وعدوں کو عملدرآمد کے گراف کے آئینے میں دیکھ اور پرکھ رہے ہیں۔کتنا اچھا ہوتا کہ تمام سیاست دان سابقہ وعدوں کو وفا کرتے تو عوام کو سبز باغ کے کڑوے کسیلے پھل نہ کھانے پڑیں ۔