کامل رہنما کی آرزو

کامل رہنما کی آرزو
کامل رہنما کی آرزو

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ایون فیلڈریفرنس میں نوازشریف اسکی بیٹی مریم نواز اور داماد کپٹن صفدر کو بالترتیب دس،آٹھ اور ایک سال قید بامشقت اور بھاری جرمانے کی سزاوں کے بعد الیکشن کا پرامن انعقاد تھوڑا بہت دشوار ہو جائے گا،اس فیصلہ نے سیاسی ماحول میں جو تلخی پیدا کی وہ اب الیکشن مہمات کو کشیدگی میں ڈھال کے تشدد کی راہ اختیار کر سکتی ہے،ایسے میں الیکشن کا انعقاد اگرچہ کٹھن راستہ ہو گا ،لیکن مملکت کی بقاء اور قومی سلامتی کی امیدیں بھی اسی راہ سے جڑی ہوئی ہیں،نواز شریف کے ردعمل سے لگتا ہے کہ اس مبارزت کو اب زیادہ دیر تک وہ محدود نہیں رکھنا چاہتے۔انسانی تاریخ کے تجربات گواہ ہیں کہ احتساب کے کوڑے کے ذریعے سیاست کے بہتے دھارے کو کسی مخصوص رخ پر ڈالنے کی کوشش باغیانہ سوچوں کو جنم دیکر مزاحمتی کردار پیدا کرتی رہی،اکثر ایسا بھی ہوا کہ طاقت کے بل بوتے پر سرکشی کے رجحانات کچل دیئے گئے، لیکن بسا اوقات تقدیر،جو بظاہر غیر مربوط واقعات کی مدد سے کرداروں کو آگے بڑھا کے انکی مرضی کے بغیر،انہیں ان دیکھی تباہی سے دوچار کر دیتی ہے،بنگال میں مکتی باہنی کی مزاحمت جو مملکت کی تقسیم پر منتج ہوئی اور ایم آر ڈی کی تحریک جو طاقت کے ذریعے کچل دی گئی انہی دو متضاد رجحانات کی عکاس ہیں۔حیرت انگیز امر یہ ہے کہ پون صدی کی کشمکش سے ابھی تک یہ واضح نہیں ہو سکا کہ سیاسی عمل کو ریگولیٹ کرنے والی طاقتیں اچھے سیاستدان تخلیق کرنا چاہتی ہیں یا انہیں ہتھیلی پر رینگنے والے کیڑے درکار ہیں حالانکہ فطرت انسانی میں یہ دونوں کام محال ہیں،البتہ ایسی ہر کوشش جوابی جدلیات کوجنم دینے کا وسیلہ ضرور بنی اور بالآخر معاشرے میں کچھ ایسے مزاحمتی کردار پیدا کر گئی جو زندگی کے جمود کو توڑنے کی کوشش کرتے رہے،دور مت جائے ظفراللہ جمالی جیسے بے نوا اور محمد خان جونیجو جیسے نرم خُو وزیراعظم بھی اختیارات پر تصرف کی خاطر مزاحمت پر اتر آئے تھے۔بلاشبہ طاقت کی حرکیات اور معاشرتی تنّوع کو قانونی تادیب کے ذریعے مینیج کرنا ممکن نہیں کیونکہ اس نظم و ضبط کا بیشتر حصہ،جو انسانیت پر حاوی ہے،قانون کا رہین منت نہیں، بلکہ ان کا سرچشمہ زندگی کے اجتماعی اصول اور فطرت انسانی ہے،اسلئے چار ہزار سال پر محیط انسانی تہذیبوں کے عروج و زوال کی داستانوں میں بہت سے اسباق پنہاں ہیں،انسانی فطرت سے ٹکرانے والی ہر کاوش پلٹ کے اپنے محرک کو ہی نقصان پہنچاتی رہی ۔یہ سچ ہے کہ ہمارے سماج نے اجتماعی حیات کے دھارے کا رخ موڑنے والے سرفروشوں کو کبھی دیکھا نہیں ، لیکن موجودہ جدلیات ایسی ہی آرزوں کی آبیاری کر کے تسلیم و رضا کے حامل معاشرہ میں بہت جلد مزاحمتی کرداروں کو مقبول بنا دے گی،شاید یہی وجہ ہو جو پہلی بار انتہائی پرسکون سمجھے جانے والے صوبہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایک ایسے لیڈرکو مزاحمتی جدو جہد سے بے پناہ مقبولیت ملی،ماضی میں جن کے دامن پر سیاسی آزادیوں کے حصول کی جدوجہد کرنے والی قوتوں کی راہ روکنے کے داغ موجود تھے،بالکل ایسے جیسے عمران خان کو اب نواز لیگ کی سرکشی کو پاباجولاں بنانے کی خاطر توانائی فراہم کی گئی۔
ہو سکتا ہے کل عمران بھی اپنی افتاد طبع کے ہاتھوں مجبور ہو کے فطری خود اختیاری کے لئے مزاحمت کی یہی راہ چن لے جس کا انتخاب آج نوازشریف کو کرنا پڑا۔

نوازشریف جسے نیب کے غیر حکیمانہ کارروائیوں نے سول بیوروکریسی کے نیک نام بیوروکریٹ کی گوشمالی کے ذریعے سسٹم کے اندر سے حمایت بہم پہنچائی،اب ان کمزور مقدمات کی زنجیروں میں جکڑے نہیں جا سکیں گے،جو لوگ ریاست کو اس مساعی پر اکساتے ہیں یا تو وہ سماج کی حرکیات کو سمجھتے نہیں یا پھر خود امیدوں کے بھوکے ہیں۔

ہاں البتہ خود نوازشریف کی شخصیت میں طاقتور مقتدرہ کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت ہے نہ وہ ایسی ذہنی لچک کے حامل ہیں جسمیں وہ خود کو طاقت کے مراکز سے ہم آہنگ رکھ سکیں،اسی لئے انکی ہر مساعی صدائے بازگشت کی طرح پلٹ کے خود انہی کو نقصان پہنچاتی رہی۔

دوسری طرف وہ مخصوص سوچ جو پیپلز پارٹی اور نواز لیگ سے وابستہ طاقتور امیدواروں کو توڑ کے سیاست کے افسانے میں نئے رنگ بھرنے کی کوشش میں سرگراں ہے،وہ بھی دراصل اپنے اعلانیہ مقاصد یعنی صادق و امین قیادت اور گڈگورننس کے منشور سے انحراف کر کے انہی فرسودہ جماعتوں کے آلودہ مواد سے ایک نئی دنیا تعمیر کرنے کے خواب بیچنا چاہتی ہے،جنہیں وہ دھتکارنے کی ترغیب دیتی رہیں،چنانچہ سب کچھ جانتے ہوئے وہ دو متضاد راستوں کا انتخاب کر کے خود اپنے بیانیہ کو کمزور کر رہی ہے۔

بیشک، اس زمین کا کوئی معاشرہ زندگی کے بہتے دھارے کو روک کے ایسے پختہ کار سیاستدان تیا ر نہیں کر سکتا،جو سیاسی نظام کو چلانے کے علاوہ انہیں کامل رہنمائی فراہم کر سکیں،ایسے عبقری تخلیق نہیں ہوتے، بلکہ یہ ہمیشہ فطرت کی دین ہوتے ہیں،اسی لئے دنیا میں تبدیلیاں اچانک آتی ہیں۔اقبالؒ نے شاید اسی تناظر میں کہا ہو گا،
’’تیری مشاطگی کی کیا ضرورت حُسنِ معنی کو،
کہ فطرت خود بخود کرتی ہے لالے کی حنا بندی‘‘
یونانی فلاسفر افلاطون نے البتہ پچاس سال تک فلاسفر کنگ کے تصور کی وکالت کرکے عالی دماغ حکمرانوں کی تخلیق کے تخیّل میں ’’جمہوریہ‘‘جیسی لازوال کتاب لکھ ڈالی، لیکن آخر میں انہوں نے خود ہی سوال کیا،جس یوٹوپیا کو عقل انسانی تلاش کرتی ہے اس خواب کی تعبیر آخر ملتی کیوں نہیں؟۔افلاطون کے شاگرد رشید ارسطو نے اس سوال کاجواب یوں دیا کہ’’سیاسیات انسان تخلیق نہیں کرتی، بلکہ جیسے ہیں انہی سے کام لیتی ہے‘‘ ۔۔۔تاہم پچھلے ڈھائی ہزار سال سے انہی دونوں تصورات کے حق اور مخالفت میں لاکھوں دلائل پر مشتمل ہزاروں کتابیں لکھی گئیں اور یہی تخیّلات کئی پرشکوہ تحریکیں اٹھانے کے محرک بنے۔

عہد جدید میں جماعت اسلامی کے بانی سید ابوالاعلی مودودی نے بھی سیرت و کردار کی تعمیر کے ذریعے پختہ کار انسانوں پر مشتمل ایسی جماعت کی بنیاد رکھی،جو اسّی سال تک رجال کار کی تیاری میں سرگرداں رہنے کے باوجود آخر کار تاریخ کے جزدانوں میں جا سوئی،انیس سو اکتالیس میں سید مودودی نے اسلامی معاشرہ برپا کرنے کی خاطر صالحین کی جس جماعت کی اساس رکھی، چھیالیس سال بعد،سن انیس سو ستاسی میں،ان کے جانشین قاضی حسین احمد نے ان کے معیارات کو ترک کر کے سیاست میں اسی راہ کا انتخاب کر لیا جسے سیکولر،جمہوری اور سوشلسٹ جماعتیں اپنائے ہوئے تھیں۔

انہوں نے رکنیت کی کڑی شرائط منسوخ کر کے،دور ہٹو جاگیردارو پاکستان ہمارا ہے،دور ہٹو سرمایا دارو پاکستان ہمارا ہے، کے فرسودہ نعرے ایجاد کر کے اس عظیم گروہ انسانی اور ہمارے سماج کے چنّے ہوئے انسانی مواد کو انبّوہی سیاست کی جدلیات میں جھونک دیا۔

بلاشبہ جماعت اسلامی کی نظریاتی اساس مضبوط اور اٹھان پُرجلا ل تھی، لیکن وہ سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی اور معاشرے کے ہمہ جہت ذہنی ارتقاء کا ساتھ نہ دے سکی،سن انیس سو اکہتر کے انتخابات کی شکست اور بنگال میں عوامی خواہشات کے برعکس ریاستی اداروں کے ساتھ صف بندی کے نتائج نے مولانا مودودی کو اندر سے توڑ ڈالا،جماعت کی امارت سے الگ ہوتے وقت سیّد مودودی کے الوداعی خطاب میں اسی کرب کی جھلک ملتی ہے۔بہرحال،جب تک ہم یہ فیصلہ نہیں کر لیتے کہ کامل رہنمائی کے لئے ہمیں سیاست کے رجال کار تیارکرنا ہیں یا پھر جس قسم کا انسانی مواد ہمیں میسر ہے، اسی پر گزارا کریں گے ،اس وقت تک ہمارا معاشرہ ذہنی اضطراب اور سیاسی بحرانوں کی دلدل سے باہر نہیں نکل پائے گا۔

مزید :

رائے -کالم -