جماعتی وفاداریاں بدلنے کی ریت قیام پاکستان سے پہلے بھی موجود تھی
تجزیہ:۔ قدرت اللہ چودھری
آغا شورش کاشمیری نے اپنی کتاب ’’بوئے گل، نالہ دل دودِ چراغ محفل‘‘ میں سیاسی تاریخ کا ایک واقعہ بڑے دلچسپ پیرائے میں بیان کیا ہے، ممتاز اہل حدیث عالم دین اور مرکزی جمعیت اہل حدیث کے بانی صدر مولانا داؤد غزنوی کانگرس کے ٹکٹ پر پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے، بعد میں وہ کانگرس چھوڑ کر مسلم لیگ میں آ گئے، وہ صوبائی کانگرس کے سیکرٹری فنانس بھی تھے پنڈت نہرو کو مولانا داؤد غزنوی کے کانگرس چھوڑنے کا بڑا رنج تھا ان کی مجلس احرار اسلام کے صدر سید عطا اللہ شاہ بخاری سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے شکوہ کیا کہ مولانا غزنوی نے کانگرس چھوڑ دی لیکن جاتے ہوئے مالیات کا حساب بھی نہیں دیا سید عطا اللہ شاہ بخاری کو اللہ تعالیٰ نے خطابت کے جوہر کے ساتھ حِسِّ مزاح سے فراخ دلی سے نواز رکھا تھا، انہوں نے شگفتہ جواب دیا‘‘ پنڈت جی! محمود غزنوی نے کوئی حساب دیا تھا کہ داؤد غزنوی سے حساب کی امید رکھی جائے‘‘ اس واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کی رکنیت چھوڑنے اور جماعتیں تبدیل کرنے کی ریت برصغیر میں قیام پاکستان سے بھی پرانی ہے۔ اس لئے اگر لوگ آج جماعتیں بدل رہے ہیں اور ایک جماعت چھوڑ کر کسی دوسری جماعت میں جا رہے ہیں تو اس میں حیرت کا کوئی مقام نہیں، جو جاگیردار سیاستدان قیام پاکستان کی مخالفت میں پیش پیش تھے جب انہوں نے اندازہ لگا لیا کہ اب پاکستان کا قیام کوئی نہیں روک سکتا تو وہ جوق در جوق مسلم لیگ کا حصہ بننے لگے یہی وجہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد سیاستدان کم و بیش دس سال تک جو کھیل کھیلتے رہے اس میں جماعتیں تبدیل کرنا بھی معمول کی بات تھی، راتوں رات وفا داریاں بدل جاتیں اور نتیجے کے طور پر وزارت کا چہرہ بھی بدل جاتا، مغربی پاکستان اسمبلی میں ایک بار تو یہ بھی ہوا کہ اسمبلی میں پوری کی پوری مسلم لیگ نے اپنا نام بدل کر ’’ری پبلکن پارٹی‘‘ رکھ لیا، اس لئے آج اگر انتخاب سے پہلے پارٹی بدلنے والے یکایک متحرک ہو گئے ہیں اور تھوک کے حساب سے سیاسی وفاداریاں تبدیل کی جا رہی ہیں تو ان لوگوں کو کوئی حیرت نہیں جنہوں نے مسلم لیگ کے دور حکومت (1947ء تا 1958ء) کا مطالعہ کر رکھا ہے۔ سیاسی وفا داری اور وزارتیں بدلنے کا یہی کھیل تھا جس پر اس دور میں نہرو نے یہ پھبتی کسی تھی میں اتنی دھوتیاں نہیں بدلتا جتنی پاکستان میں وزارتیں بدل جاتی ہیں۔
قیام پاکستان کے بعد پہلے عام انتخابات جنرل یحییٰ خان نے 1970ء میں کرائے تھے، ون یونٹ ختم کر کے ’’ون مین ون ووٹ‘‘ کی بنیاد پر انتخابات ہوئے، مغربی پاکستان کے چار صوبوں سے 138ارکان اسمبلی منتخب ہوئے جبکہ مشرقی پاکستان سے 162ارکان منتخب ہوئے۔ لیکن ان انتخابات کے نتیجے میں جو اسمبلی بنی اسے اپنا ایک اجلاس منعقد کرنا بھی نصیب نہ ہوا، اس کے بعد ہماری تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے جب ملک دولخت ہوا۔یحییٰ خان کو امید تھی کہ انہیں صدر کے عہدے پر برقرار رکھا جائیگا اس کے لئے وہ مجیب الرحمٰن اور ذوالفقار علی بھٹو سے الگ الگ سودے بازی میں مصروف تھے، جب کھیل بگڑ گیا تو انہوں نے مشرقی پاکستان میں فوجی کارروائی شروع کر دی اور مجیب الرحمٰن کو گرفتار کر کے مغربی پاکستان لایا گیا وہ میانوالی جیل سمیت مختلف جیلوں میں قید رہے انہیں اس وقت رہائی ملی جب مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن چکا تھا اور مغربی پاکستان میں اقتدار ذوالفقار علی بھٹو سنبھال چکے تھے ۔
جس طرح پاکستان میں سیاسی وفا داریاں تبدیل کرنے کو برا نہیں سمجھا جاتا اسی طرح الیکشن کے حوالے سے الزام تراشیوں کی بھی ایک تاریخ ہے ہر الیکشن کے بعد ہارنے والے الزام لگاتے ہیں کہ انتخاب میں دھاندلی ہوئی ہے۔1977ء کے انتخابات میں یہ الزام اتنا بڑھا کہ بالآخر بھٹو کی حکومت کو بہا کر لے لیا گیا۔2013ء کے انتخابات تک ہر ہارنے والی جماعت نے کسی نہ کسی انداز میں انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگایا۔ عمران خان نے اس الزام میں دنیا کا طویل ترین دھرنا بھی دیا، تاہم ان کے مطالبے پر حکومت نے جوڈیشل کمیشن بنایا جس کا فیصلہ تھا کہ انتخابات میں کوئی منظم دھاندلی نہیں ہوئی تھی لیکن اس کے باوجود الزام لگانے والے آج تک اپنا یہ الزام کسی نہ کسی انداز میں دہراتے چلے جا رہے ہیں جس طرح ہر الیکشن سے پہلے سیاسی وفاداریاں بدلی جاتی ہیں اور آج کی اصطلاح میں ’’الیکٹ ایبلز‘‘ اپنی جماعت چھوڑ کر دوسری جماعت میں شامل ہو جاتے ہیں اسی طرح ہر انتخاب پر دھاندلی کے الزام کا فیشن بھی پرانا نہیں ہوا،اس لئے اہم سوال یہ ہے کہ کیا 2018ء کے انتخابات اس الزام سے بچ جائیں گے؟ ہمارا نہیں خیال کہ ایسا ہو گا جو پارٹی بھی ہارے گی وہ یہ ضرور کہے گی کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے حالانکہ پہلے انتخابات سے لے کر اب تک الیکشن کے حوالے سے بہت سے ایسے اقدامات ہو چکے ہیں کہ جعلی ووٹ بھگتانا ممکن نہیں رہا، انتخابی فہرستوں میں ووٹر کا کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ نمبر درج ہوتا ہے، ووٹر کی تصویر بھی لگائی جاتی ہے ایک سے زیادہ جگہ پر ووٹ کا اندراج ممکن نہیں رہا کیونکہ کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ کے ذریعے فوراً پتہ چل جاتا ہے کہ اس نام کا ووٹ کہاں کہاں درج ہے یہ اور اس طرح کے بہت سے اقدامات ہیں جو پہلے انتخابات کے وقت وجود نہیں رکھتے تھے لیکن اب موجود ہیں شناختی کارڈ کے بغیر ووٹ نہیں ڈالا جا سکتا اور جعلی کارڈ کا تصور بھی بڑی حد تک ناممکن ہو چکا ہے اب کی بار تو بیلٹ پیپر کے لئے مہنگا کاغذ استعمال کیا جا رہا ہے تاہم یہ سوال اب بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا آنے والے الیکشن دھاندلی کے الزام سے محفوظ رہیں گے؟ بظاہر تو اس کا جواب نفی میں ہے جس طرح سیاسی جماعتیں تبدیل کرنے کو کوئی بری بات نہیں سمجھا جاتا اسی طرح بغیر کسی ثبوت کے یہ الزام لگانا بھی کوئی بری بات خیال نہیں کیا جاتا کہ انتخابات میں دھاندلی ہو گئی ہے لطف کی بات یہ ہے کہ اگر ایک جماعت کسی ایک صوبے میں الیکشن جیت لیتی ہے تو وہ صوبہ تو الزام سے بری ہے جبکہ دوسرے صوبے کا الیکشن دھاندلی زدہ ہے۔ 2013ء میں تحریک انصاف کو کے پی کے میں کوئی دھاندلی نظر نہیں آئی کیونکہ وہاں اس کی حکومت بن گئی البتہ مرکز میں اس کے نزدیک دھاندلی ہوئی یہی حال پیپلزپارٹی کا ہے جس نے سندھ میں حکومت بنائی لیکن باقی ملک کے انتخابات اس کے نزدیک ’’آر اوز‘‘ کے الیکشن تھے اس لئے ہمارے خیال میں جو جماعت بھی ہارے گی وہ دھاندلی کا الزام لگائے گی اور انتخابات کو متنازعہ بنانے کی کوشش کریگی۔
ریت