پشاور میں نانبائیوں کی ہڑتال

پشاور میں نانبائیوں کی ہڑتال
 پشاور میں نانبائیوں کی ہڑتال

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پشاور میں نانبائی حضرات کی تنظیم نے ہڑتال کر دی اور روٹی نان والے تمام تندور بند ہو گئے ہیں،اس کے باعث پشاور کے شہری بہت زیادہ پریشان ہو گئے کہ اس شہر میں رواج کے مطابق زیادہ تر گھرانے تنوروں سے ہی روٹی حاصل کرتے اور گھروں میں کھاتے ہیں۔دوسری طرف فلور ملز ایسوسی ایشن نے80کلو آٹے کی بوری کے نرخ 550روپے بڑھا دیئے۔یوں قریباً سات روپے فی کلو کا اضافہ ہو گیا،پنجاب میں بھی نانبائی روٹی اور نان کے نرخوں میں اضافہ کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں،ان کے مطابق یہ اضافہ5روپے فی نان/روٹی ہو سکتا ہے،مطلب یہ کہ روٹی 15روپے اور نان17 روپے کا بکے گا، فلور ملز ایسوسی ایشن والوں کا موقف ہے کہ حکومت(ایف بی آر) نے 17فیصد سیلز ٹیکس عائد کر دیا، یوں آٹے اور میدے کے نرخوں میں اضافہ مجبوری بن گئی ہے۔


دوسری طرف مجموعی طور پر پورے ملک میں بے چینی ہے، ہر طبقہ احتجاج پر ہے، آل پاکستان انجمن تاجران نے13جولائی(ہفتہ) کے لئے ملک بھر میں تاجر ہڑتال کا اعلان کیا اور کئی حوالوں سے مجبور کرنے کے باوجود یہ فیصلہ واپس نہیں لیا، ٹیکسٹائل سیکٹر کے تمام شعبے بھی مضطرب اور اکثر شعبے بند پڑے ہیں،اس صورتِ حال سے مزدور پیشہ حضرات فاقوں پر پہنچ گئے اور ان کے گھروں کے چولہے بھی ٹھنڈے ہو گئے ہیں،کراچی میں وزیراعظم عمران خان سے گورنر ہاؤس میں تاجروں کی ملاقات ہوئی۔

ٹی وی ویڈیو ہی میں ان تاجر حضرات میں سے زیادہ تر لوگوں کی باڈی لینگوئج (بدن بولی) کچھ اور ہی سنا رہی تھی اور اس پر یہ ہوا کہ تاجروں نے جب مطالبہ کیا کہ خرید و فروخت کے لئے شناختی کارڈ کی پابندی سے کاروبار متاثر ہوں گے اور وقت کا بھی ضیاع ہو گا۔ وزیراعظم نے یہ مطالبہ منظور کرنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ 40ہزار سے زیادہ سامان خریدنے والے کا شناختی کارڈ لازم ہے کہ ٹیکس دینا سب کا فرض ہے اور اگر ٹیکس نہ دیا گیا تو کاروبارِ مملکت کیسے چلے گا۔


وزیراعظم عمران خان کے ساتھ وہ تمام معیشی منیجرز موجود تھے، جو تھوڑا عرصہ قبل آئی ایم ایف کے ملازم تھے اور وہاں سے یکایک بھیج یا بُلا کر گورنر سٹیٹ بنک اور مشیر خزانہ لگا دیئے گئے۔ مشیر خزانہ کی اہمیت اور اختیار کا اندازہ اس امر سے لگا لیں کہ وزیراعظم نے حماد اظہر کی کارکردگی سے خوش ہو کر ان کو ریونیو کا وزیر بنا دیا،حفیظ شیخ کے ماتھے پر بَل پڑے اور یہ فیصلہ چوبیس گھنٹے کے اندر اندر تبدیل ہو گیا اور یہ تبدیلی بھی ایسی کہ حماد اظہر کو ریونیو سے ہی الگ کر دیا گیا، وہ پہلے وزیر مملکت برائے ریونیو تھے، اب وہ اقتصادی امور کے وزیر ہیں۔

حماد اظہر کی پذیرائی ان کی بجٹ پیش کرنے اور اعداد و شمار کے ساتھ تنقید کا جواب دینے پر ہوئی، لیکن یہاں کارکردگی میرٹ نہیں اب تو یہ آئی ایم ایف ہے کہ جس کے کہنے پر ڈالر کو بھی بے لگام چھوڑ دیا گیا جو نخرے دکھا رہا اور اب تک بڑھتا چلا جاتا ہے۔گزشتہ روز ڈالر روپے کے مقابلے میں 158.5 روپے کا تھا اور آج اس میں مزید اضافہ متوقع ہے۔


یہ بات ایک سے زیادہ بار ہو چکی کہ عوام کا نام لینے اور دودھ کی نہریں بہا دینے کے دعوے اور وعدے کرنے والے تحریک انصاف کے چیئرمین سے ادنیٰ کارکن تک مہنگائی اوربے روزگاری پر بات نہیں کرتے،جبکہ کپتان وزیراعظم لوگوں کو صبر کی تلقین کرتے رہتے ہیں۔وہ نیا پاکستان بنا رہے ہیں اور ان کے مطابق یہ نیا پاکستان صرف اسی صورت میں بنے گا جب ان کے بقول مجرم پھانسی لگ جائیں گے اور وہ سب مجرم ہیں جن کا وہ نام لیتے ہیں، سب ”چور“ اور ”ڈاکو“ ہیں، یہ سب کہتے وقت وہ یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ سچ یا غلط، یہ قانون ہے کہ جب تک کسی کے خلاف جرم ثابت نہ ہو جائے اُس وقت تک وہ مجرم نہیں ملزم ہوتا ہے، اپنی اس بات کو ثابت کرنے کے لئے عدالتوں کا احترام اور فیصلے کا انتظار کرنا چاہئے اور جب وہ بِلاامتیاز احتساب کی بات کرتے ہیں تو پھر بلاشبہ لوگوں کی انگلیاں خود ان کی جماعت میں موجود اربوں روپے کی خوردبرد کے ملزموں کی طرف بھی اُٹھ جاتی ہیں،جو نیب کے مقدمات میں بھی ضمانتوں پر ہیں اور پھر معتمد خاص تو عدالت عالیہ میں اقرار کر کے بھی سرگرم عمل ہیں۔


ہمارے نزدیک ملک میں معاشی استحکام کے نام پر لائے جانے والے ایک سے زیادہ سونامی اور سیاسی محاذ آرائی ملک میں غیر یقینی صورتِ حال کا باعث ہے اور انارکی کا پہلا باب لکھا جا رہا ہے اس میں اضافہ ہی ہو گا کمی ممکن نہیں کہ محاذ آرائی تیز ہو رہی ہے۔

مسلم لیگ(ن) مہم شروع کر چکی تو پیپلز پارٹی بھی عوامی رائے ہموار کر رہی ہے۔اگر اس صورتِ حال کو قومی نقطہ نظر سے سنبھالا نہ گیا تو یقینا حالات نہیں سدھریں گے اور انارکی سے جرائم بھی زیادہ ہوں گے،جو بتدریج بڑھتے چلے جاتے ہیں، جب پیٹ بھر کر کھانا نہیں ملے گا تو یقینا مرنے مارنے کی بات ہو گی،محترم شبر زیدی سے گذارش ہے کہ مزدور کی سرکاری تنخواہ ساڑھے17ہزار ہے، جو کسی کارکن کو ملتی اور اکثریت کو بالکل نہیں ملتی۔ بہرحال یہ اپنی جگہ وہ تو45ہزار روپے ماہوار والے کے گھر کا بجٹ بنا دیں، جس کے دو بچے پرائمری میں پڑھ رہے ہوں یا پھر کل تک کے نچلے درمیانہ درجہ کے کسی ایسے گھرانے کا حال دریافت کر لیں، جس میں دو تنخواہیں مل کر75 ہزار روپے آمدنی ہو اور وہ اے سی چلانے کی جسارت کر لے۔

مزید :

رائے -کالم -