کیا جج ارشد ملک کے نواز شریف کیخلاف فیصلے بھی کالعدم ہو گئے؟ سینئر قانون دان نے سب کچھ واضح کر دیا
لاہور (ڈیلی پاکستان آن لائن) معروف سینئر قانون دان سلمان اکرم راجہ نے کہا ہے کہ کسی جج کو عہدے سے سبکدوش کرنے سے اس کے فیصلے اس وقت تک کالعدم نہیں ہوتے جب تک کوئی بڑی عدالت انہیں کالعدم قرار نہ دے البتہ نواز شریف کی بریت کی درخواست میں اب اس معاملے کو دیکھا جائے گا۔
نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ کسی جج کو عہدے سے سبکدوش کرنے سے اس کے فیصلے کالعدم نہیں ہوتے البتہ اس معاملے کو اب نواز شریف کی بریت کی درخواست میں دیکھا جائے گا اور اگر عدالت نے سمجھا کہ جج ارشد ملک کے سامنے ہونے والی کارروائی شفافیت کے اس معیار پر پوری نہیں اترتی جو عدلیہ کی ضرورت ہے تو اس فیصلے کو کالعدم قرار دیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ہائیکورٹ نے جج ارشد ملک کو عہدے سے حتمی طور پر ہٹانے کا فیصلہ کر لیا ہے اور وزارت قانون سے کہا ہے کہ ان کی سبدوشی کا حکم جاری کیا جائے کیونکہ احتساب عدالت کے ججوں کی تعینانی وفاقی حکومت صدر مملکت کے ذریعے کرتی ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ مطمئن ہے کہ اب تک جو باتیں سامنے آئی ہیں یعنی ارشد ملک کی پریس ریلیز، ان کا خط اور دیگر چیزیں، تو ان باتوں کے ہوتے ہوئے یہ جواز موجود ہے کہ انہیں عہدے سے ہٹا دیا جائے جہاں تک ان کے فیصلے کی بات ہے تو وہ ختم نہیں ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان فیصلوں کیخلاف اپیل ہائیکورٹ کے سامنے ہے جس میں اب تمام معاملات کو دیکھا جائے گا اور میاں نواز شریف کی بریت کی درخواست میں ان باتوں کو بنیاد بنایا جا سکتا ہے، مزید گواہوں کو بلایا جا سکتا ہے، لہٰذا ایک کارروائی ہو گی جس میں ان معاملات کو شہادت کے طور پر پیش کیا جائے گا اور اس بنیاد پر اسلام آباد ہائیکورٹ اگر فیصلہ کرتی ہے کہ ارشد ملک کی کارروائی اور ان کا فیصلہ کالعدم ہے، تو پھر یہ ایک عدالتی فیصلہ ہو گا، البتہ کسی جج کے سبکدوش ہونے سے عدالت کا فیصلہ ختم نہیں ہو جاتا جب تک بڑی عدالت اس فیصلے کو کالعدم قرار نہ دے۔