جس خطرناک کھیل کا آغازکیا گیاہے کیا مریم نواز اس کے سنگین اثرات کی متحمل ہوسکیں گی؟

احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی مبینہ ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد ملکی سیاست میں تہلکہ مچا ہوا ہے جبکہ ملک کے نظام عدل کے حوالے سے بھی انگلیاں اٹھائی جا رہی ہیں ،ایسے میں اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کو عہدے سے ہٹانے کے لئے وزارت قانون کو لکھے جانے والے خط کے بعد وزارت قانون نے بھی فوری طور پرارشد ملک کو کام کرنے سے روک دیا ہے۔ترجمان اسلام آباد ہائیکورٹ کا کہناتھا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ جج ارشد ملک کو واپس وزارت قانون بھیج رہی ہے،انکوائری ہائیکورٹ نے کرنی ہے یاوزارت نے؟فیصلہ وزارت قانون کریگا۔اس سے قبل پاکستان مسلم لیگ نواز کی نائب صدر اور جماعت کے قائد میاں نوازشریف کی صاحبزادی بیگم مریم نواز نے ہفتہ 6 جولائی کو ایک پریس کانفرنس میں یہ انکشاف کیا تھا کہ احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے ان کے والد سابق وزیر اعظم میاں محمد نوازشریف کے خلاف دباؤ میں آکر فیصلہ کیا جس پر اب وہ شرمندگی اور افسوس کا اظہار کرتے ہیں،وہ ضمیر کے قیدی بن گئے ہیں،انہیں اس فیصلےپرڈراؤنےخواب آتےہیں کہ ایک بےگناہ شخص کوسزادےکرناانصافی کا ارتکا ب کیا ہے۔اپنے اس دعوے کے ثبوت کے طور پر انہوں نے آڈیو ویڈیو بھی پریس کانفرنس میں پیش کی جس میں جج ارشد ملک کو مسلم لیگ ن کے ایک مفرور کارکن ناصر بٹ (جو میاں نوازشریف اور جج ارشد ملک کے قریبی ساتھیوں میں سے ہیں) کے درمیان ہونے والی گفتگو سنائی گئی۔اس ویڈیو اور آڈیو کے ذریعے جج ارشد ملک یہ اعتراف کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ انہوں نے نوازشریف کے کیس میں دباؤ میں آکر غلط فیصلہ دے دیا۔وہ ناصر بٹ سے یہ استدعا بھی کرتے ہیں کہ وہ میاں نوازشریف تک ان کے جذبات پہنچا دیں۔پریس کانفرنس میں مسلم لیگ ن کے صدر (یعنی مریم نواز کے چچا ) میاں شہبازشریف کے علاوہ دیگر لیگی رہنما خواجہ آصف، شاہد خاقان عباسی، احسن اقبال وغیرہ بھی موجود تھےتاہم پریس کانفرنس صرف مریم نواز ہی نے کنڈکٹ کی جبکہ دیگر رہنما ” شامل باجے “ کے طورپر شریک تھے۔پریس کانفرنس کے دوران مریم نواز نے تمام گفتگو پورے اعتماد کے ساتھ کی اور یہ ”دھمکی “ بھی دی کہ ان کے پاس اور بھی بہت کچھ ہے جو و ہ وقت آنے پر سامنے لائیں گی چنانچہ انہوں نے مطالبہ کیا کہ جج کے اس اعترافی بیان کے بعد میاں نوازشریف کو جیل میں ایک لمحہ کے لیے بھی قید نہیں رکھا جاسکتا اس لیے انہیں فی الفور رہا کیا جائے۔مریم نواز نے یہ بات بھی واضح طورپر کہی کہ وہ اپنے والد کو مصر کا مرسی نہیں بننے دیں گی (جن کی عدالتی حراست میں موت واقع ہوگئی تھی)اور ان کی رہائی کے لیے وہ ہر سطح، ہر حد تک جانے کے لیے تیار ہیں۔پریس کانفرنس میں لگائے جانے والے الزامات نے جج ارشد ملک کے ساتھ ساتھ اس نظام عدل اور متعلقہ ریاستی اداروں کو بھی کٹہرے میں لاکھڑاکیا ہے۔پورے ملک میں یہ ایشو ہر زبان پر آچکا اور یہ ایشو ٹاک آف دی ٹاؤن کا درجہ حاصل کرچکا ہےجس نے حکومت اور حکومت مخالفین میں بحث کا ایک نیا دروزاہ کھول دیاہے۔چنانچہ اب کالم بھی لکھے جارہے ہیں، ٹاک شوز بھی ہورہے ہیں اور تجزیہ کار تجزیے بھی کررہے ہیں۔ گویا ہر کوئی اپنی اپنی سوچ اورر فکر کے مطابق اس پر تبصرہ آرائی کررہا ہے۔حکومت نے اپنی طرف سے مذکورہ آڈیو ویڈیو کا فرانزک آڈٹ کروانے کا فیصلہ کیاہے۔دوسری طرف احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے بھی اس پریس کانفرنس کے جواب میں نہ صرف اپنا ایک تردیدی بیان جاری کرتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ کے نام درخواست میں اس آڈیو ویڈیو کو سیاق و سباق سے ہٹ کر غلط انداز میں پیش کرنے، اس کے ذریعے ان کی ساکھ ااور ادارے کی ساکھ کونقصان پہنچانے کی سازش کا نام دیا اور ان تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے اس واقعے کی فوری تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے بلکہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں جمع کروائے گئے بیان حلفی میں نواز شریف اور ان کے ساتھیوں پر سنگین ترین الزامات عائد کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کی جانب سے ڈرانے دھمکانے اور 16 سالہ پرانی ویڈیو لیک کر نے کے الزامات بھی لگائے ہیں۔ اپنے ابتدائی تردیدی بیان اور بعد ازاں آج اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کرائے گئے بیان حلفی میں جج ارشد ملک کا کہنا ہے کہ ’’فروری 2018 میں مہر جیلانی اور ناصر جنجوعہ سے ملاقات ہوئی اور یہ ملاقات بطو ر جج احتساب عدالت تعیناتی کے کچھ عرصہ کے بعد ہوئی تھی ،ناصر جنجوعہ نے مجھے بتایا کہ حکومتی با اثر شخصیات سے سفارش کر کے مجھے جج لگوایا ہے۔ناصر جنجوعہ نے اپنے ساتھ موجود شخص سے اس بات کی تصدیق بھی کروائی ۔میں نے ناصر جنجوعہ سے کہا کہ نام تجویز کرنے سے پہلے میرا موقف جاننا چاہیے تھا اور میں عہدے کا خواہشمند نہیں تھا کیونکہ میں سیشن جج تعینات تھا ۔ناصرجنجوعہ نے نوازشریف کی طرف سے رشوت کی آفرکی،بتایاگیا بریت پرنوازشریف منہ مانگے دام دینے کو تیار ہیں۔ ناصرجنجوعہ نے کہاکسی بھی نامزد شخص کوادائیگی کی جاسکتی ہے، میں نے جواب دیا زندگی کے 56 سال 6 مرلہ گھرمیں گزارے،دونوں ریفرنسز کا فیصلہ حلف کے مطابق کروں گا، کسی چیز کی ضرورت نہیں، ناصرجنجوعہ نے کہاان کے پاس 10 کروڑیورو فوری موجودہیں، ناصرجنجوعہ کے مطابق 2 کروڑیوروکارمیں رکھے ہیں ، ناصر جنجوعہ نے کہامستقبل محفوظ بنانے کاسنہری موقع ہے، میں نے پیشکش ٹھکرادی اور میرٹ پر فیصلہ کرنے کوترجیح دی۔ارشد ملک کا اپنے بیان حلفی میں کہناتھا کہ اگست 2018 میں فلیگ شپ، ایچ ایم ای ریفرنسز میری عدالت میں منتقل کیے گئے،ٹرائل کے دوران نوازشریف کے ساتھیوں نے رشوت کی پیشکش کی ، تعاون نہ کرنے پر سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی دی گئیں،مجھ پر بالواسطہ یا بلاواسطہ کوئی دباؤ تھا نہ ہی کوئی لالچ تھی اور میں نے فیصلے خدا کو حاضر ناظر جان کر شواہد کی بنیاد پر کیے،مجھ سے متعلق جاری ہونے والی ویڈیو زجعلی ہیں اور اس میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کی جائے ۔جج ارشد ملک کا بیان حلفی میں کہنا تھا کہنوازشریف کو بری کرنے کیلئے مجھے دھمکیاں بھی دی گئیں،مجھ سے رابطے اور ملنے کی کوشش کی جاتی رہی اور سماعت کے دوران ان کا لہجہ دھمکی آمیز ہو گیا ، 16 سال پہلے ملتان کی ایک ویڈیومجھے دکھائی گئی، ویڈیوکے بعدکہاگیاخبردار کرتے ہیں ،تعاون کریں،مجھے رائیونڈبھی لےجایاگیااور وہاں پر نوازشریف سے ملاقات کرائی گئی، نوازشریف نے کہاجو یہ لوگ کہہ رہے ہیں اس پرتعاون کریں،ہم آپ کومالامال کردیں گے،نوازشریف کے حلقوں کی طرف سے اپنے حق میں فیصلہ حاصل کرنے کے لیے انہیں سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی دی گئیں اور لالچ بھی دیا گیا تھالیکن انہوں نے اپنی جان ومال کو خدا کے سپرد کردیاہے۔ میرے خیال میں نہ تو مریم نواز کے الزامات ایسے ہیں کہ جنہیں محض حکومت مخالف نکتہ نظر سمجھتے ہوئے یوں ہی نظر انداز کردیا جائے اورنہ ہی معزز جج صاحب کی وضاحت یا تردیدی بیان شافی و کافی قراردیاجاسکتاہے۔معاملے کی غیر جانبدارانہ انکوائری او ر آڈیو وڈیوز کا فرانزک آڈٹ کر کے ہی اس حقیقت سے پردہ اٹھایا جاسکے گا کہ آیا جج صاحب نے واقعی دباؤ میں آکر ایک بے گناہ کو گناہ گار قراردے دیا یا مریم نواز نے اپنے والد محترم کو بچانے کے لیے یہ ساری سازش تیار کی؟اس کے ساتھ خفیہ ہاتھوں کے کردار کو بھی طشت ازبام کرنا ہوگا جن کے بارے میں ویڈیو میں کہا گیا ہے جج صاحب کو فیصلہ پراثر انداز ہونے کے لیے بلیک میل کیا گیا تھا۔سو موجودہ کیس ہماری سیاسی، عدالتی اور عسکری تاریخ کااہم ترین کیس قرار دیاجاسکتا ہے جس سے ملک کی آئندہ سیاست کے خدو خال واضح ہوسکیں گے۔ایسے وقت میں کہ جب میاں نوازشریف کو احتساب عدالت کی طرف سے سنائی جانے والی سزا کو ایک سال ہونے کوہے مریم نواز کی طرف سے اچانک فیصلے کے خلاف آڈیو ویڈیو کے ذریعے اسے غیر منصفانہ قراردینا اور پھر اس کی آڑ میں ریاستی اداروں کو ہدف تنقید بنانا خالی از علت نہیں ہے۔اگرچہ اس دوران مسلم لیگ ن کے قریبی حلقوں اور شریف خاندان کی طرف سے خصوصیت کے ساتھ مذکورہ سزا وں کے خلاف احتجاج کی آوازیں اٹھتی رہیں جن میں زور اس بات پر دیا جاتا رہا کہ ”نواز شریف نے کوئی کرپشن نہیں کی،اِنہیں محض انتقامی سیاست کا نشانہ بنایا گیا ہے۔نیز اِنہیں عوامی خدمت کی سزا دی گئی ہے“۔دوسری طرف عدالتی حلقوں کا یہ اصرار رہا ہے کہ نوازشریف اپنے دفاع میں کو ئی دستاویزی شہادت پیش نہیں کرسکے اس لیے ان پر لگائے جانے والے چارجز کودستیاب شواہد کی بنیادپر پرکھنے کے بعد ہی انہیں سزا سنائی گئی ہے۔یوں جہاں عوام الناس اور سیاسی و علمی حلقوں میں یہ بحث چل نکلی ہے وہاں سرکاری طورپر بھی اس واقعہ کی تحقیقات کی جانب پیش رفت شروع کردی گئی ہے جس کے بعد دودھ کادودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔ ان الزامات کی حقیقت کیا ہے یا دعووں میں کس حد تک صداقت پائی جاتی ہے؟یہ محض الزام تراشی ہے یا جج اور عدلیہ کے خلاف کوئی سوچی سمجھی سازش ہے؟ان سب کے بارے میں حتمی فیصلہ تو اعلیٰ عدلیہ کے ذریعے ہی سامنے آسکے گا،جس کا پوری قوم کو شدت سے انتظار ہےلیکن اس تمام صورت حال سے قطع نظر اگر اس معاملے کامعروضی حالات میں نفسیاتی سطح پر تجزیہ کیا جائے تو بہت سی چیزیں سامنے آسکتی ہیں۔سنجیدہ فکر سیاسی اور عوامی حلقوں میں البتہ اس ضمن میں یہ سوچ بھی پائی جاتی ہے کہ شریف فیملی کو موجودہ حالات میں قانونی طورپر کہیں سے ریلیف ملنے کا کوئی امکان نہیں ہے،وہ احتسابی شکنجے میں بری طرح کسی جاچکی ہے،اس سے نکلنا قریب قریب محال دکھائی دیتا ہے ، جس کی وجہ سے ان کا سیاسی مستقبل بھی لامحالہ طورپر مخدوش ہوتا جارہاہے۔اس لیے شریف فیملی اس وقت شدید قسم کی فرسٹریشن اور جھنجلاہٹ کا شکار نظر آتی ہے جس کے منطقی نتیجہ کے طورپر مریم بی بی نے یہ راستہ اختیار کرنے کافیصلہ کیا ہے تاکہ وہ عوامی دباؤ اور ہمدردیاں سمیٹ کر سیاسی فائدہ حاصل کرسکیں۔ اس کی بڑی وجہ یہ حقیقت ہے کہ ان پر جو چارجز لگے ہیں ان کے دفاع میں اب ان کے پاس قانونی طورپر کہنے یا پیش کرنے کو اب کچھ نہیں ہے ۔تاحیا ت نا اہل قرار پانے کے بعد میاں نوازشریف تو سیاست سے باہر ہوچکے ہیں۔مریم بی بی کے خلاف بھی عدالت کی طرف سے کسی قسم کے ریلیف کا کوئی امکان نہیں ہے ۔ان کے لیے سیاسی میدان میں اخلاقی طورپر کھڑا رہنا مشکل ہوگیاہے چنانچہ اِن کے لیے اب اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں تھاکہ وہ اداروں کے خلاف بغاوت کے لیے اٹھ کھڑی ہوں۔وہ کشتی جلا کر آ ئی ہیں چنانچہ اس میں واپسی کی کوئی صورت نہیں ہے۔اُنہوں نے اپنے رویے اور اب تک کی سیاسی جدوجہد سے یہ ثابت کردیا ہے کہ ان کا مقصود ومنتہا صرف اورصرف شریف فیملی کو ریلیف دلانا ہے اور وہ یہ ہدف ہر قیمت اور ہرحالت پر حاصل کرنا چاہتیں ہیں۔خواہ اس کے لیے ملک خانہ جنگی کا شکار ہوتا ہے، انارکی پیدا ہوتی ہے یا ملکی استحکام کو نقصان پہنچنے کا کوئی احتمال ہو؟ شریف فیملی کے اس مائنڈ سیٹ کے بارے میں یہ کوئی مفروضہ بھی نہیں ہے،اس کے مظاہر کئی بار دیکھنے کو ملے۔خود مریم بی بی کو کئی بار یہ بات غیر مبہم انداز میں واضح کرنا پڑی کہ وہ اپنے والد کو بچانے کے لیے ہر قدم اٹھانے کو تیار ہوں ،سو وہ قانونی جنگ ہارنے کے بعد اب عوامی میدان میں کود پڑی ہیں،وہ اب عوام الناس کی بیساکھیوں کا سہارا لینا چاہتی ہیں چونکہ اسی میں ان کی بقاء کا راز مضمر ہے اس لیے وہ اس آپشن کو چاہتے یا ناچاہتے ہوئے بھی استعمال کرنے پر خود کو مجبور پاتی ہیں۔گویا وہ تخت یا تختہ کی صورت پیدا کرکے ملک کے موجودہ نظام کی بساط لپیٹنے کے در پہ ہیں۔یہ الگ بات کہ جو کھیل وہ کھیلنے جارہی ہیں اس کے خطرناک اور سنگین اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔یہ بات اطمینان کا باعث ہے کہ آج اس ملک کے عوام میں شعور بیدار ہوچکا ہے وہ مسلم لیگ ن کے گزشتہ ادوار میں تلخ حالات سے دوچار رہنے کا تجربہ کرچکے ہیں۔وہ ان کے جذبہ حب الوطنی اور عوام دوستی کی حقیقت کو جان چکے ہیں اس لیے اب شائد وہ اس جماعت کا اس طرح ساتھ نہ دیں جس طرح کا اس کی قیادت گمان ظاہر کررہی ہے۔عوام الناس کے علاوہ ملک کی دیگر سیاسی جماعتیں بھی اس وقت کم از کم اس ایشو پر اس کے ساتھ کھڑی دکھائی نہیں دیتیں۔زیادہ سے زیادہ پیپلزپارٹی، جے یوآئی اور دیگر اپوزیشن جماعتیں اس کا ساتھ دے سکتی ہیں۔حتیٰ کہ خود اسی جماعت کے بعض اہم رہنمابھی اس ایشوپرخاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں اور وہ ” دیکھو اور انتظار کرو“ کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔سوال مگر یہ ہے کہ جس خطرناک کھیل کا آغاز مریم نواز کی طرف سے کردیا گیاہے کیا وہ اس کے مضر اور سنگین اثرات کی متحمل بھی ہوسکیں گی؟ آنے والے چند ماہ اس حوالے سے بہت اہم ہوسکتے ہیں ۔بہرحال یہ ریاست اور اس کے اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس ایشو سے کس طرح عہدہ براٗ ہوتے ہیں اور پھر دیکھا جاسکتا ہے کہ ملک کی سیاست کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے ؟۔
(شہباز انور خان کا شہرِ لاہورکے سینئر ترین صحافیوں میں شمار ہوتا ہے ،علم و ادب سے گہرا شغف رکھنے والے شہباز انور خان تین دہائیوں سے بھی زائد عرصہ سے اہم قومی اخبارات میں رپورٹنگ کی ذمہ داریاں سرانجام دیتے آ رہے ہیں،فیڈ بیک کے لئے اُن کے موبائل نمبر 03208421657 پر رابطہ کیا جا سکتا ہے)
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں