عیدالضحیٰ کی آمد، عوام، حفاظتی اقدامات اور قربانی؟

عیدالضحیٰ کی آمد، عوام، حفاظتی اقدامات اور قربانی؟
عیدالضحیٰ کی آمد، عوام، حفاظتی اقدامات اور قربانی؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


آج جب یہ سطور لکھنے بیٹھا ہوں تو دماغ میں خیالات کے ہجوم کی وجہ سے ایک کے بعد دوسری سوچ چلی آ رہی ہے اور ذہن خالی خالی محسوس ہوتا ہے،کس کس الم کا ذکر کروں، ہمارے چاروں طرف المیہ ہی المیہ ہے، کسی ایک پَل بھی تو چین نہیں، حالانک یہاں ہر انسان فطری طور پر سکون کا خواہشمند ہے ا ور پھر یہ انسان ہی اس سکون کو برباد کرنے کے در پے رہتا ہے، آج کے حالات پر غور کر لیں، ہونا تو یہ چاہئے کہ کورونا وبا کی وجہ سے جو بیت رہی اور معیشت کی زبوں حالی نے جو کر دکھایا ہے،اس کے پیش نظر پوری قوم ہم آہنگ ہوتی اور اتفاق سے ان مسائل کو حل کرتی،لیکن یہ خواہش بھی ان خواہشات کا ایک حصہ ہے، جن میں سے ہر ایک پر دم نکلتا ہے، کیا سوئے اتفاق ہے کہ میرا ذہن ان دِنوں ایک ہی گردان کرتا اور وہ یہ ہے کہ ہم مسلمانوں کو باہمی یگانگت کے ساتھ اجتماعی توبہ کا اہتمام اور اللہ سے بدی کی قوتوں کے خلاف مدد طلب کرنا چاہئے، کہ اللہ ہمارے گناہوں کو معاف کر دے اور ہم پر اپنا فضل و کرم کرے کہ ہم رسوائی سے بچ جائیں،لیکن کیا کِیا جائے یہ بھی تو میرے ذہن تک ہی رہ جاتی اور لب پر نہیں آتی۔ ایک آدھ مرتبہ سوشل میڈیا پر اس خواہش کا اظہار کیا تو جواب معقول ہونے کے باوجود تعداد بہت کم تھی، شاید ہم پر توبہ کے دروازے بند ہیں، یا پھر ہمارے دِلوں پر قفل لگ گئے کہ کچھ سمجھ نہیں آتا، ہم لہو و لعب میں تو پھنسے ہی ہوئے ہیں،لیکن وہ کون سا گناہ ہے جو ہم سے سر زد نہیں ہوتا، جھوٹ، غیبت، بہتان تراشی، بددیانتی، چوری،ڈاکے، منافع خوری اور حرام خوری تک ہماری جڑوں میں بیٹھی ہوئی ہے، ایسے میں توبہ کی کیا گنجائش باقی رہ جاتی ہے۔


یہ رہا اپنی جگہ،ذرا اس پر غور کر لیں کہ کورونا کی وبا اپنا آپ تسلیم کرا چکی، دُنیا بھر میں پانچ لاکھ سے زیادہ افراد جاں بحق ہو چکے،ہمارے مُلک میں متاثرہ افراد دو لاکھ سے زیادہ اور دُنیا میں چلے جانے والے پانچ لاکھ سے زیادہ ہو گئے۔ یہاں ایس او پیز نافذ ہیں، کہا جاتا ہے کہ ان پر عمل سے وبا میں کمی ہو گی اور اس کا پھیلاؤ رُکے گا، اب تو روزان مریضوں کی تعداد سامنے آنے کے باوجود کہا جا رہا ہے کہ وبا کی شدت میں کمی آ رہی ہے، جبکہ اسے وبا نہ ماننے والوں کی تعداد میں بھی کمی نہیں آئی۔کیا ستم ہے کہ لاکھوں روپے تشہیر پر خرچ ہونے اور حفاظتی اقدامات پر عمل کی درخواستوں اور اپیلوں کے باوجود عوامی سطح پر اکتریت کوئی توجہ نہیں دیتی، صبح نو سے رات سات بجے تک کاروبار کی اجازت ہے، اس کے لئے بھی درجہ بندی کر دی گئی ہے، ہوٹل اور ریستوران اسی وجہ سے بند ہیں، لیکن تھوڑا زمین پر اُتر کر دیکھ لیں تو کھانے پینے کی قریباً تمام دکانیں اور ریسٹورنٹ کھلے ہوئے ہیں، ان حضرات نے ”ٹیک اوے“ کے نام پر یہ کاروبار کھولا اور ریستوران سے ذرا دور یا اردگرد ”کھابہ گیروں“ کو کھانے کا موقع فراہم کر رہے ہیں۔ تاجر حضرات کسی ایس او پیز کی پرواہ نہیں کرتے اور یہی وتیرہ گاہکوں کا ہے، بازاروں میں کسی سماجی فاصلے کا کوئی دھیان نہیں رکھا جا رہا اور تاجر بھائی اوقات کار کی پابندی نہیں کرتے۔صورتِ حال یہ بھی ہے کہ علامہ اقبال ٹاؤن کی کریم بلاک مارکیٹ بھی لاک ڈاؤن کے دورا ن بند رہی،دکانوں کے باہر تھڑے لگا کر سستے کپڑوں کے دکاندار بھی گھروں پر رہنے کو مجبور ہوئے،جونہی اس لاک ڈاؤن میں نرمی ہوئی۔ یہ حضرات واپس اپنے اڈوں پر نہیں گئے اور انہوں نے وحدت روڈ اور کریم بلاک چوک سے جناح ہسپتال پُل نہر تک بننے والی دو رویہ سڑکوں کو مارکیٹ بنا لیا، اب یہ حصے لنڈا بازار بن چکے، اس پر طرہ یہ کہ مارکیٹ کو سات بج بند ہونا ہے،ان حضرات پر کوئی پابندی نہیں۔ یہ رات گیارہ بارہ بجے تک اپنا دھندا جاری رکھتے ہیں،درختوں کے ساتھ رسیاں باندھ کر پارچات لٹکائے جاتے ہیں، اکثر پک اَپ اور چھوٹی کاریں سڑکوں کے کنارے پارک کر کے ان کو دکان کی شکل دی گئی ہے۔یوں حفاظتی اقدامات اور سرکاری احکام کو ہوا میں اڑایا جا رہا ہے، یہی حال عام شہریوں کا ہے، جن کی واضح تعداد بیوی بچوں سمیت ماسک اور سینی ٹائزر کے بغیر بازاروں میں موجود ہوتی ہے۔


ذہنی رو اس طرف یوں پلٹی کہ وزیراعظم نے عوام سے عیدالضحیٰ سادگی سے ادا کرنے کی اپیل کی، انتظامیہ نے اس کے لئے نئے ایس ا وپیز بنائے، ان کے مطابق منڈیاں شہر کے باہر کھلی جگہ لگیں گی،بوڑھے اور بچے جانور کی خریداری کے لئے نہیں جا سکیں گے اور ذبیحہ گھروں پر نہیں، رفاعی انجمنوں اور فلاحی تنظیموں کے مراکز پر پوری حفاظت سے ہو گا، مانا کہ حکومت نے اپنا فرض ادا کیا ہے، لیکن اس پر عمل درآمد کا تو ابھی سے مذاق اڑایا جا رہا ہے،تعداد کم ہی سہی،شہر میں قربانی والے جانوروں کے ریوڑ ابھی سے پھر رہے ہیں، پوری انتظامیہ ان تمام خلاف ورزیوں کے حوالے سے ”ستو اور لسی“ پی کر سوئی ہوئی ہے، سب ملازم خود بھی کورونا سے بچاؤ کے لئے خودکو زیادہ وقت گھر تک محدود رکھتے ہیں اور ایمرجنسی کے سوا اور اعلیٰ حکام کی طلبی کے بغیر کہیں نظر نہیں آتے۔ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کی کارکردگی کا یہ عالم ہے کہ اب صفائی کی حالت ابتر ہے،حتیٰ کہ شکایت پر بھی عمل نہیں ہوتا یہ عیدالضحیٰ کے دِنوں میں کیا کریں گے؟


جہاں تک قربانی کا تعلق ہے تو دینی اکابرین اور حکومتی زعماء کی طرف سے اجتماعی قربانی کی تلقین کی جا رہی ہے،اس کا مطلب یہ کہ گائے کی قربانی زیادہ ہو گی اور بکرے نسبتاً کم ذبح ہو سکیں گے،اس سلسلے میں صاحب علم(دینی) حضرات کی وضاحت قابل ِ غور ہے،ان کے مطابق قربانی واجبات میں سے ہے، اور واجب بھی صاحب نصاب حضرات پر ہے،جسے مُلا ازم نے فرض کی حد تک قرار دے رکھا ہے۔اب اگر کسی سال مخصوص حالات میں ”واجب“ کی ادائیگی میں کمی آ جائے تو پُل صراط سے گزرنے کے لئے گذشتہ برسوں میں قربان کئے جانے والے بکرے ہی کافی ہوں گے، ویسے بھی اس(مُلا فلسفے) کے مطابق تو اس باریک ترین پُل سے گزرنے کے لئے بکرا لازم ہے۔یہ گائے، بھینس، بچھڑے، بیل اور اونٹ تو اپنا وزن نہیں سنبھال سکیں گے تو صاحب قربانی کو کیسے پار لے جائیں گے،مقصد یہ ہے کہ علماء حضرات ذرا اس طرف بھی توجہ دیں۔اگر22سے30 لاکھ افراد کا حج دس ہزار تک محدود ہو سکتا ہے تو قربانیوں کی تعداد کیوں کم نہیں ہو سکتی۔
بات یہیں ختم کرتے ہیں، رو ادھر بہک گئی، ورنہ مولانا فضل الرحمن اور اے پی سی پر لکھنا بھی اچھا موضوع ہے، خیر کوئی بات نہیں، یار زندہ تو یہ بھی باقی،انشاء اللہ موقع ملے گا۔

مزید :

رائے -کالم -