رنج کی جب گفتگو ہونے لگی
دوسرا مصرع ہے: ’آپ سے تم، تم سے تُو ہونے لگی‘۔ پورا شعر سُن کر کچھ لوگوں کا دھیان اُستاد داغ دہلوی کی طرف جائے گا اور کچھ کا گلوکار غلام علی کی طرف۔ خود مجھے عمر میں دس سال جونئیر ایک دوست پچھلے ہفتے فون پہ ’آپ‘ کی بجائے ’تم‘ کہہ گئے تو عجیب حقارت کا احساس ہوا۔ سبب یہ کہ ایک مدت سے ہر چھوٹے بڑے کو باعزت لہجے میں مخاطب کرنے کی عادت ہے، جس پر ایک مرتبہ چودھری حلیم آف مراڑہ، تحصیل ظفر وال نے ڈانٹا تھا کہ تم کمی کمینوں کی طرح ہر وقت ’جی جی‘ کیوں کرتے رہتے ہو۔ دوسرے یہ کہ وبائی مرض کے دنوں میں جو انسان مالی کمزوری کا شکار بھی ہو، وہ اپنے بارے میں زیادہ حساس ہو جاتا ہے۔ کون کرسی سے اُٹھ کر مِلا تھا، کِس نے بیٹھے بیٹھے ڈھیلا سا ہاتھ آگے کیا، کِس دفتر میں چیزوں والی چائے ملی اور کہاں سوکھی۔ میری طرح اگر آپ بھی مشکوک سماجی رتبہ رکھتے ہیں تو سمجھ گئے ہوں گے کہ ماضی سے جُڑے ہوئے اِن سوالوں میں کیا کیا نزاکتیں چھپی ہوئی ہیں۔
’جی جی‘ کرنے کی عادت کب پڑی اور کیوں؟ زندگی کی ہسٹری شیٹ کھولوں تو بچپن میں اپنی بے تکلف بات چیت کا انداز وہی سمجھ لیں جو شہری آبادی کے متوسط گھرانوں میں ہوا کرتا ہے۔ دوسروں کی تعظیم کے لئے واحد کی جگہ جمع کا صیغہ بھی استعمال کر لیتے، جسے ’جمعِ تکریمی‘ کہتے ہیں، مگر اِس کا دائرہ والدین، اساتذہ اور دیگر بزرگوں تک ہی تھا۔ یہ عادت رہی اسکول کی حد تک۔ کالج میں قدم رکھنے کی دیر تھی کہ طرزِ تخاطب میں یکایک ابا ٹائپ رویہ اپنانے کو جی چاہنے لگا۔ پیدائشی لیڈرانہ مزاج رکھنے والے شوکت نواز کی تو مستقل ہدایت تھی کہ ”مجھے دوسروں کے سامنے شوکت نہ کہنا، سردار صاحب کہنا“۔ رفتہ رفتہ حسن اختر، محمد اکرم اور جاوید ایتھلیٹ بھی راجہ صاحب، قریشی صاحب اور خاں صاحب کے طور پہ جانے گئے۔ صیغہ واحد غائب میں انہیں کچھ بھی کہہ لو لیکن منہ پہ نام کے ساتھ ’صاحب‘ ضرور کہا جاتا۔
یوں آپ جناب کی اِس عادت کے پیچھے بڑوں جیسی تمکنت کی خواہش تو تھی ہی، خود میرے دل میں اسٹوڈنٹس یونین کے الیکشن کے لئے ووٹ پکے کرنے کا جذبہ بھی عود کر آیا۔ چنانچہ ہم مکتبوں سے شفقت صاحب، وحید صاحب اور منصور صاحب کہہ کر مخاطب ہو رہا ہوں اور ساتھ ہی ذرا سا جھُک کر دو نوں ہاتھوں سے مصافحہ کیا جا رہا ہے۔ یہ ساری حرکتیں ایک ساتھ شروع ہوئیں۔ جواب میں لوگ مجھ پر کسی نفسیاتی کامپلیکس کا لیبل چپکا سکتے ہیں اور یہ بھی پوچھ سکتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمان کے سے ڈبل دست پنجہ کے زور پر تم سینٹ میں کیوں نہ جا پہنچے۔ اب کسی کو کیا بتاؤں کہ میرے لیے مناسب سیاسی پارٹی فقط مسلم لیگ (ق) ہو سکتی تھی کیونکہ ہم نے کالج کا الیکشن ایک ہی بار جیتا اور یہ جیت اُس خفیہ ڈیل کی بدولت ممکن ہوئی جس کی رُو سے ہم نے اپنے ہی پیدائشی سردار سے دغابازی کی تھی۔
حقائق کی تہہ تک پہنچنے کے لئے اپنی عوامی مقبولیت کی خواہش کو کچھ اور کھرچنا پڑے گا تاکہ پتا چلے کہ نو عمری میں یہ لسانی رویہ کیا مادری زبان پنجابی کے عطا کردہ پیرایوں سے پھوٹا یا اُن کے خلاف ردِ عمل کے طور پہ۔ زبان و ادب کے استاد اور ایم اے او کالج لاہور کے پرنسپل طاہر یوسف بخاری بتایا کرتے ہیں کہ وسطی پنجاب کی روزمرہ میں صیغہءِ تکریمی کی روایت زیادہ پرانی نہیں۔ منفرد محقق شریف صابر سے ’ہیر وارث شاہ‘ سبقاً سبقاً پڑھنے والے طاہر بخاری کی بات کو اِس لئے وزن دینا پڑے گا کہ وہ ہمارے شہر و دیہات کی مکالماتی زبان میں آنے والی تبدیلیوں پہ مسلسل نظر رکھے ہوئے ہیں۔ مجھے بھی وہ زمانہ یاد ہے جب ہم دادی کی والدہ کو بے بے کہہ کر بلاتے اور ’تونہہ‘ کا صیغہ استعمال کرتے۔ ایک روز ’تُسیں‘ کہہ دیا تو بے بے سے سننا پڑا تھا کہ ”ایہہ بال شہری بولی بولدے نیں“۔
طاہر بخاری کی ریسرچ کو آگے بڑھانا چاہوں تو اِس میں ایک ہلکا سا رسک ہے۔ رسک اِن معنوں میں کہ کہیں کوئی ہتھ چھُٹ لاہوری دانشور میرے خوش دلانہ مشاہدے کو ملک کے سب سے بڑے صوبے کی توہین سمجھ کر مخالفانہ دھرنے کا اعلان نہ کر دے۔ در اصل پنجابی میں جمع تکریمی کا سوال کئی اور معاملوں سے بھی منسلک ہے۔ جیسے یہی کہ ہم کسی خاتون کو عزت دینے کی خاطر جب واحد کو جمع میں بدلتے ہیں تو ساتھ ہی زبان کی حد تک خاتون کی صنف بھی تبدیل کر دی جاتی ہے۔ یارِ عزیز آفاق حسین قاضی گواہ ہیں کہ گورنمنٹ کالج لاہور میں ہم دونوں صبحدم اپنی اپنی کلاس پڑھانے سے پہلے پروفیسرز روم کی راہداری میں جب پولیٹکل سائینس کی سینئر استاد پروین شوکت علی کو دیکھتے تو منہ سے ’سلام علیکم ڈاکٹر صاحب‘ ہی نکلتا۔ جواب میں وہ کہتیں ’سلام علیکم پروفیسر صاحب‘ اور ہم خوش ہو جاتے۔
مرد و خواتین کی برابری کے لحاظ سے تو شاید تخاطب کا یہ پیرایہ قابل ِ قبول ہی ہو۔ پر یہ کیسی برابری ہے جو نسائیت کو زائل کر دے۔ وسطی پنجاب میں کالج یونیورسٹی، اسپتال یا سرکاری دفتر کا چکر لگا ئیں یا کسی گھر کی دیوار سے کان لگا کر باتیں سنیں، ہر جگہ یہی تاثر ملے گا کہ عزت دینے کی خاطر جمع کا صیغہ محض مردوں کے لئے ہے۔ اگر گرائمر کی مدد سے عورت کی عزت کرنا چاہتے ہو تو پہلے اسے مرد کا درجہ دو۔ اسی لئے ابھی تک خواتین کے عہدے کے ساتھ صاحب کا لاحقہ ہی سننے کو ملا۔ جیسے ”ڈاکٹر صاحب آگئے نیں۔ پرنسپل صاحب چھٹی تے نیں۔ امی جی پنڈی تو آئے سن۔ آپا جی کل چلے جان گے“۔ کہیں کہیں ایسے خدا ترس مرد بھی دیکھے جو جمع تکریمی بناتے ہوئے مونث مذکر کا خیال رکھتے ہیں: ”ڈائرکٹر جنرل صاحبہ اج ڈیوٹی تے پہنچ جان گئیاں‘‘۔ نمونہء کلام ہے تو صحیح مگر ہماری پنجابی میں اوپرا اوپرا سا لگتا ہے۔
تو کیا لوگوں کی عزت کرنے یا نہ کرنے کا ساختیاتی مسئلہ فقط پنجابی زبان سے وابستہ ہے؟ ذرا سا زاویہ بدل کر دیکھیں تو اردو میں بھی ادب آداب کے پیرائے آپ کو ایک الگ مزا دیں گے۔ گلوکار غلام علی کی گائی ہوئی غزل پھر ذہن میں گنگنائیے، جس میں ’رنج کی گفتگو‘ کے مرحلے گنوائے گئے ہیں، یعنی آپ سے تم، تم سے تُو ہونے لگی۔ اگر مجھ جیسا کوئی پنجابی ڈھگا گھر بیٹھے فرض کر لے کہ تکلف سے تپاک تک کے اردو سفر میں یہ مراحل آسانی سے طے ہو جاتے ہیں تو مَیں آجکل کے ماڈرن بچوں کی طرح کہوں گا: ”اونہہ، آپ کی سوچ ہے‘‘۔ وجہ یہ کہ نوعمری میں واہ کینٹ میں رہتے ہوئے والد کے رامپوری، مراد آبادی اور شاہجہانپوری دوستوں سے گِلوری منہ میں سیٹ کرکے پان کی پِیک خارج کئے بغیر مکالمہ جاری رکھنے کا طریقہ سیکھ لیا تھا۔ ساتھ ہی چند ایک تہذیبی حربے اَور بھی سیکھے۔
ایک تو یہی کہ سلام کے بدلے ’وعلیکم السلام‘ کہنا چاہیے اور اِس میں حفظ ِ مراتب کا کوئی تنازعہ نہیں اٹھتا۔ اِس کے برعکس اگر آداب کہا جائے تو جواب دیتے ہوئے مکتوب الیہ کی سینیارٹی ڈسٹرب ہو جانے کا ڈر ہوا کرتا ہے۔ اسی لئے اپنے برابر والوں کو جواب میں بھی آداب ہی کہیں گے، لیکن اپنے سے چھوٹوں کے لئے ’جیتے رہو‘ بلکہ ’جیتی رہو‘ کیونکہ بڑوں کو سلام کرنے میں لڑکیاں پیش پیش ہوتی ہیں۔ یہاں پہنچ کر یہ نہ سمجھئے کہ مسئلہ حل ہو گیا ہے۔ پتا تو جب چلے گا کہ ایک لاہوری دوست کے بقول ”جدوں میں شیشے نوں آئینہ کہواں گا‘‘۔ یہ اگلا نکتہ بہت منفرد ہے مگر خاصا غور طلب بھی۔ مراد یہ ہے کہ ’تم‘ کے مقابلے میں ’آپ‘ محض احترام کا صیغہ نہیں، تکلف کا اشارہ بھی ہے۔ جیسے کسی کے ساتھ فاصلہ رکھا جا رہا ہو اور وہ بھی شعوری کوشش سے۔
اگر یہ نکتہ آپ کی سمجھ میں نہ آئے تو اِس کا کوئی خاص مطلب نہیں۔ سوائے اِس کے کہ آپ نے پینتیس برس پہلے بی بی سی اردو سروس میں کام نہیں کیا۔ لیکن خوب یاد ہے کہ لندن پہنچتے ہی سینئر رفقا میں سے محمد غیور، سارہ نقوی اور راشد اشرف نے مجھے اُسی اپنائیت سے ’تم‘ کہا جیسے کوئی اپنے بچوں سے کہتا ہے۔ آغوش ِ محبت تو اطہر علی، رضا علی عابدی، آصف جیلانی اور 1942 میں گیارھویں سکھ رجمنٹ میں کمیشن پانے والے یاور عباس نے بھی وا کئے رکھی۔ فرق اتنا ہے کہ یہ چاروں بزرگ ہر چھوٹے بڑے کو زیاد ہ تر ’آپ‘ کہہ کر بلایا کرتے تھے۔ یوں زبان کی بنیاد پر یہ طے کرنا ممکن نہ رہا کہ ہماری بے تکلفی کا گراف اوپر جا رہا ہے یا نیچے۔ ٹف ٹائم پروگرام سیربین والے وقار بھائی مرحوم نے دیا جو شروع کے دو سال مجھے ’شاہد ملک صاحب‘ کہہ کر میری توہین کرتے رہے۔ جب انہوں نے ایک سہ پہر پہلی بار ’تم‘ کہا تو کیا آنند ملا ہے، اِسے وقار زدگان ہی سمجھ سکتے ہیں۔
اب آپ مجھ سے پوچھیں گے کہ آخر تم کہنا کیا چاہتے ہو۔ مَیں وہ واقعہ دُہرا دوں گا جب غالب اکیڈمی کراچی والے مرزا ظفر الحسن نے جیل سے ایلس فیض کے نام لکھے گئے فیض احمد فیض کے خطوط مرتب کرنے کا بیڑہ اٹھایا، جن کا سرنامہ ہے ’صلیبیں میرے دریچے میں‘۔ یہ خط انگریزی زبان میں تھے، لیکن فیض نے کہا کہ یہ اردو میں شائع ہوں گے، کیونکہ ”ہماری انگریزی ذرا آرائشی قسم کی ہوتی ہے‘‘۔ اپنا مسئلہ بیان کرتے ہوئے مَیں خود کو فیض سے کچھ دُور اور مشتاق احمد یوسفی کے قریب تر پاتا ہوں، یعنی انگریزی ہی نہیں، میری اردو بھی ذرا سجاوٹی سی ہے۔ اس لیے کچھ باتیں رُک رُک کر کہتا ہوں اور باقی کہتے کہتے رُک جاتا ہوں۔ یہ ہے سیکنڈ لینگویج کا مسئلہ کہ آپ بہتر سے بہتر لسانی طرزِ عمل اختیار کرنے کی خواہش کرتے ہیں اور کسی کے ساتھ زیادہ فری ہو کر یہ کہہ ہی نہیں کہہ سکتے کہ
رنگ کی جب گفتگو ہونے لگی
آپ سے تم، تم سے تُو ہونے لگی