دستارِ مخدومی تنقید کی زد میں

دستارِ مخدومی تنقید کی زد میں
دستارِ مخدومی تنقید کی زد میں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


تحریک انصاف کی حکومت بنی تو ملتان میں جہانگیر ترین اور مخدوم شاہ محمود قریشی میں ٹھن گئی دونوں نے اپنے گروپ بنا کے خوب ایک دوسرے کی مخالفت کی، ٹانگیں کھینچی، اور تحریک انصاف کو نقصان پہنچایا۔ مخدوم شاہ محمود قریشی اس خطے میں اپنی بے تاج بادشاہتچاہتے تھے جس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ جہانگیر ترین تھے۔ جہانگیر ترین سپریم کورٹ کے فیصلے سے نا اہل ہوئے تو مخدوم شاہ محمود قریشی کی مراد بر آئی، مگر کپتان نے انہیں ہر فیصلہ سازی میں ساتھ رکھا تو شاہ جی کو لگا کہ رکاوٹ ابھی دور نہیں ہوئی، انہوں نے پریس کانفرنس کر کے خود اپنے کپتان پر عدم اعتماد کر دیا کہ جہانگیر ترین کو کابینہ اجلاسوں میں بٹھا کر اپوزیشن کو تنقید کا موقع دیا جا رہا ہے بات پھر بھی نہ بنی اور جہانگیر ترین کا غیر اعلانیہ سکہ چلتا رہا پھر کپتان کی مداخلت پر دونوں نے جھوٹی سچی صلح کر لی لیکن شاہ جی کے دل سے کانٹا نہ نکلا، نکلتا بھی کیسے وہ تو ملتان کی حد تک اپنی گدی نشینی کی طرح بغیر مداخلت کے چودھراہٹ چاہتے تھے پھر ان کے لئے غیبی امداد بن کر چینی سکینڈل آیا۔ جس کے بعد جہانگیر ترین پوری طرح تنقید کی زد میں آ گئے اور یہ پروپیگنڈہ کیا گیا کہ وہ اب عمران خان سے راہیں بھی جدا کر لیں گے۔ راہیں تو انہوں نے جدا نہیں کیں البتہ بیرون ملک چلے گئے اور اب کچھ پتہ نہیں کہ واپس کب آتے ہیں، گویا مخدوم شاہ محمود قریشی کے لئے میدان صاف ہو گیا لیکن وہ جو سیانے کہتے ہیں کہ اگر انسان کا حریف کوئی نہ ہو تو وہ خود اپنا حریف بن جاتا ہے۔ آج یہ صورت حال ہے کہ پورا ملتان شاہ محمود قریشی کا حریف بن چکا ہے، وجہ جنوبی پنجاب سکریٹریٹ ہے جس کا صدر مقام بہاولپور میں بنایا گیا ہے اور شاہ محمود قریشی اس کا بھرپور کریڈٹ لے رہے ہیں خود تحریک انصاف کے اندر سے ان کے خلاف شدید ردعمل سامنے آ رہا ہے اور کارکن و رہنما انہیں پارٹی کو نقصان پہنچانے کا ذمہ دار قرار دے رہے ہیں۔


یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ شاہ محمود قریشی اور ان کے بیٹے زین قریشی ایم این اے نے ملتان کو اپنی راجدھانی سمجھ رکھا ہے۔ یہاں تمام ٹرانسفر پوسٹنگ شاہ محمود قریشی کی مرضی سے ہوتی ہیں، جتنے بھی پارٹی عہدیدار بنائے گئے ہیں ان کا تعلق شاہ محمود قریشی گروپ سے ہے۔ زیادہ تر کا تعلق ان دو حلقوں سے ہے جہاں سے شاہ محمود قریشی اور ان کے بیٹے نے کامیابی حاصل کی ہے۔ اس قدر زیادہ گروپ بندی کے باوجود شاہ محمود قریشی کی گرفت بہت ڈھیلی ہے۔ جسے جنوبی پنجاب سکریٹریٹ کے معاملے نے اور زیادہ کمزور کر دیا ہے۔ ظاہر ہے جب سب کچھ شاہ محمود قریشی کی آشیر باد سے ہوگا، تو اُنہیں تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔ اصل طوفان اس وقت اٹھا جب ملتان سے تحریک انصاف کے ایم این اے احمد حسین ڈیہڑ نے شاہ محمود قریشی کے خلاف محاذ کھول دیا۔ انہیں تحریک انصاف کی احتساب کمیٹی نے شو کاز نوٹس جاری کر دیا ہے کہ انہوں نے شاہ محمود قریشی پر سنگین الزامات کیوں لگائے نوٹس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان کے الزامات کی وجہ سے پارٹی کو شدید نقصان پہنچا ہے جبکہ احمد حسین ڈیہڑ کا موقف یہ ہے کہ شاہ محمود قریشی نے پارٹی کو اپنی جاگیر کی طرح چلا کر شدید نقصان پہنچایا ہے۔ انہوں نے یہ کہہ کر ایک ہیجان برپا کر دیا کہ پنجاب میں سب سے زیادہ کرپشن ملتان میں ہو رہی ہے اور اس کے ذمہ دار شاہ محمود قریشی ہیں کیونکہ انہوں نے چن چن کر ایسے افسران تعینات کرائے ہیں جو ان کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں اور بدلے میں کرپشن کی گنگا بہاتے ہیں۔ اُدھر پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ ن کی طرف سے ایک قرارداد پیش کی گئی ہے جس میں یہ کہا گیا ہے کہ ایم این اے احمد حسین ڈیہڑنے میڈیا پر آ کر جو سنگین الزامات لگائے ہیں، ان پر ایوان میں بحث کی جائے یہ احمد حسین ڈیہڑ کوئی معمولی کردار نہیں ہیں ایک زمانے میں وہ سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے دست راست تھے۔ ان کے سارے انتخابی اخراجات مبینہ طور پر یہی اٹھاتے تھے۔ تحریک انصاف میں آئے تو براہ راست عمران خان تک رسائی حاصل کرلی۔ انتخابات میں انہیں ٹکٹ حاصل کرنے کے لئے طویل لڑائی لڑنی پڑی، بالآخر کامیاب ہو گئے اور الیکشن بھی جیت گئے۔ پلڑا جہانگیر ترین کے پلڑے میں ڈالا اور شاہ محمود قریشی سے دور ہو گئے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انہیں نظر انداز کیا جانے لگا۔ انتظامیہ کو منع کر دیا گیا کہ احمد حسین ڈیہڑ کی بات نہ سنی جائے، فنڈز کے معاملے میں بھی انہیں محروم رکھا جانے لگا۔ احمد حسین ڈیہڑ نے شاہ محمود قریشی کی مخالفت کا علم اٹھایا تو انہیں پہلی کامیابی اس وقت ملی جب شاہ محمود قریشی کے حمایت یافتہ رانا عبدالجبار جو صوبائی حلقے کے ٹکٹ ہولڈر بھی تھے، سپیشل برانچ کی رپورٹ پر راتوں رات عہدے سے برطرف کر دیا گیا۔ ن پر یہ الزام ثابت ہو گیا تھا کہ انہوں نے ایم ڈی اے کے چیئرمین کی حیثیت سے قبضے کرائے اور ہاؤسنگ کالونیوں کی غیر قانونی طور پر منظوری دی۔


رانا عبدالجبار کی برطرف شاہ محمود قریشی کے لئے ایک بہت بڑا دھچکا تھی۔ اگرچہ انہوں نے ایم ڈی اے کا نیا چیئرمین بھی اپنی مرضی کا لگوایا، جن کے باے میں پھر نئی کہانیاں زیر گردش ہیں اور خیال یہی کیا جا رہا ہے کہ احمد حسین ڈیہڑ اور ان کا گروپ ان کے پیچھے لگا ہوا ہے۔ ایسا پہلی بار دیکھا جا رہا ہے کہ شاہ محمود قریشی ملتان کے بے تاج بادشاہ بنے ہوئے ہیں ان کے حواریوں نے یہ تاثر قائم کر رکھا ہے کہ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار، ملتان کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتے انہوں نے یہ ضلع شاہ محمود قریشی کو سونپ رکھا ہے اور وہی اس کے سیاہ و سفید کا فیصلہ کرتے ہیں۔ یہ بات اس لئے درست لگتی ہے کہ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے آج تک ملتان کا کوئی تفصیلی دورہ نہیں کیا نہ ہی ملتان کے لئے کسی ترقیاتی منصوبے کا اعلان کیا ہے۔ ضلعی و ڈویژنل سطح پر تعینات تمام انتظامی افسران شاہ محمود قریشی کا دم بھرتے ہیں اور جب تک وہ این او سی نہ دیں کسی افسر کا تقرر ہو سکتا ہے اور نہ کوئی افسر یہاں سے جا سکتا ہے۔ شاہ جی کے معاملات شاید اسی طرح چلتے رہتے مگر درمیان میں آ گیا جنوبی پنجاب سکریٹریٹ کا معاملہ، احمد حسین ڈیہڑ کی آواز میں اتنا دم خم نہ ہوتا اگر یہ جنوبی پنجاب والا جھگڑا سامنے نہ آتا، جب سے وہ یہ مؤقف لے کر سامنے آئے ہیں کہ شاہ محمود قریشی نے ملتان کا سودا کر دیا ہے اور صرف اپنی وزارتِ خارجہ بچانے کے لئے عمران خان کے سامنے ملتان کا مقدمہ ڈٹ کر پیش نہیں کیا، اس وقت سے وہ ملتان کے ہیرو بن گئے ہیں ملتان کے اکثر ارکانِ اسمبلی مصلتحتاً اس موضوع پر بات نہیں کرتے اور اسے پارٹی کا فیصلہ سمجھ کر قبول کر چکے ہیں، کچھ شاہ محمود قریشی کا دباؤ بھی ہے کہ جنوبی پنجاب سکریٹریٹ کے قیام کو ان کا کارنامہ بنا کے پیش کیا جائے، حالانکہ اہل ملتان نے اسے اس لئے مسترد کر دیا ہے کہ اس کا صدر مقام ملتان جیسے مرکزی شہر کو چھوڑ کر مضافاتی شہر بہاولپور میں بنایا گیا ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور ان کے بیٹے زین قریشی کورونا بازیٹو ہونے کیو جہ سے آئسولیشن میں چلے گئے ہیں۔ ان شاء اللہ وہ جلد صحت یاب ہو کر جب آئسولیشن سے باہر آئیں گے تو انہیں اندازہ ہوگا کہ وہ دستارِ مخدومی کو کئی خطرات لاحق ہو چکے ہیں احمد حسین ڈیہڑ ان کے خلاف طوفانی بارش کا پہلا قطرہ ہیں، جبکہ یہاں تو شہر کا شہر انہیں کوس رہا ہے کہ انہوں نے اتنے بڑے منصب پر ہونے کے باوجود ملتان کے لئے آواز نہیں اٹھائی۔ ایک زمانے میں کہا جاتا تھا کہ جہانگیر ترین بہاولپور میں سکریٹریٹ بنوانا چاہتے ہیں اور شاہ محمود قریشی ملتن میں، اب تو جہانگیر ترین بھی میدان میں نہیں تھے، پھر شاہ جی اپنی دستار مخدومی کو داغ کیوں لگنے دیا۔

مزید :

رائے -کالم -