اک دیا اور بجھا اور بڑھی تاریکی.....!
اس جہانِ فانی میں بے شمارلوگ آئے اورچلے گئے،زمانے کی گردش اپنی پُرفریب رفتارسے چلتی رہی اورآنے جانے والوں کانظارہ کرتی رہی،چلے جانے والوں کاذکربھی ان کے وجودکی طرح مٹی میں مل گیا لیکن اللہ ہی کی مخلوقات میں سے کچھ رفیع الصفات،باکمال ہستیاں ایسی بھی گزری ہیں جنکے وجودِمسعودسے تولوگ محروم ہوگئے لیکن نہ صرف یہ کہ ان کانام باقی رہتاہے بلکہ وہ اپنے عظیم الشان علمی اورعملی کارناموں کی وجہ سے جوانہوں نے زمانے کے شدائدکوسہتے ہوئے اورانتھک محنت کے ذریعے عرق ریزی وجانفشانی سے سرانجام دیئے ہوتے ہیں،ہمیشہ کے لئے باقی رہ کرتاریخ کاحصہ بن جاتے ہیں اوربعدمیں آنے والوں کے لئے نشانِ منزل ثابت ہوتے ہیں،اوران کی حیاتِ مستعاردوسروں کے لئے مشعلِ راہ ہواکرتی ہے۔
مت سہل جانوپھرتاہے فلک برسوں
تب خاک کے پردوں سے نکلتاہے انسان
انہی برگزیدہ وستودہ صفات ہستیوں میں سے ایک ہستی حافظ صلاح الدین یوسف مرحوم کی ہے، جو آج ہم سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جدا ہو گئے۔ آپ درجنوں کتابوں کے مصنف، ادیب، صحافی، محقق اور شارع تھے۔منکسرالمزاج،متواضع صفت، خالص علمی ذوق ومصروفیات کی حامل اس ہستی کی جدائی کا صدمہ چھوٹا نہیں ہے۔
آپ کی شخصیت وکمالات،اوصاف ومحاسن،علمی تبحر پر لکھنے والے لکھیں گے اور اپنی عقیدت کا اظہار کریں گے۔ میں نے ان کی ذات میں دونمایاں شخصی صفات کا مشاہد ہ کیا۔ ایک تواضع وعاجزی کااوردوسرامحبت وشفقت کا۔آپ کی حیاتِ مبارکہ میں جب کوئی آپ کی شخصیت کاتصورذہن میں لے آتا اورپھرجب آپ کواپنی آنکھوں سے دیکھتاکہ چال چلن میں اتباع نبوی ﷺ کی جھلک اوررفتارپیغمبری کاعکس،لہجہ محبت آمیز،گفتگومیں نرمی،ہرایک سے خندہ پیشانی سے ملنا، تومتاثر ہوئے بغیرنہ رہتا۔
گوشہ گمنامی میں رہنے والے متواضع اوردرویش صفت لوگوں کواللہ تعالیٰ بامِ عروج تک پہنچاتے ہیں اورشہرت سے نوازکرہردل عزیزبنالیتے ہیں۔ایک دفعہ میں اُن کے گھر دھرم پورہ حاضر ہوا،احسن البیان میں سورۃ النور کے حاشیہ کی نشاندہی کی جو آیت اور ترجمہ کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتی تھی، اسے پروف ریڈنگ کی غلطی کہا جاسکتا ہے۔ نشاندہی پر میر ا شکریہ اداکیا اور اگلے ایڈیشنز میں اس کی اصلاح کی یقین دہانی کرائی۔اپنی سادگی وبے نفسی میں وہ حقیقت میں سلف کی تصویرتھے،آپ کی سادہ پوشی اوردرویشی سے یہ اندازہ لگانامشکل تھا کہ آپ وفاقی شرعی عدالت کے مشیر،درجنوں کتابوں کے مصنف اور شہرہ آفاق ، تفسیر احسن البیا ن کے مفسر ہیں۔ حافظ صاحب مرحوم کے کسی قریبی ساتھی نے ان کی سادگی ودرویشی کا ایک دلچسپ واقعہ سنایا مجھے راوی کا نام یا دنہیں کہ حکومت نے سیکیورٹی کے پیش نظر ایک پولیس اہلکار آپ کی حفاظت پر مامور کردیا۔ حافظ صاحب کے پاس گاڑی تھی نہ کوئی اسلحہ ،بس ایک سواری تھی وہ بھی سائیکل۔جب آپ سائیکل چلاتے تو گارڈ پیچھے بیٹھ جاتا ،آپ تھک جاتے توگارڈ سائیکل چلاتا۔ایسا عجیب منظر شاید ہی کسی نے دیکھا ہو۔
یہ ان کا نمایاں امتیازہے کہ علم وفضل کے سمندرسینے میں جذب کرلینے کے باوجودان کی تواضع،فنائیت اورللہیت انتہاء کوپہنچی ہوئی تھی اوروہ شہرت ونام ونمودسے کوسوں دورتھے۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطعہ نظر ہے،ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔