مرنے والے متوجہ ہوں!

مرنے والے متوجہ ہوں!
مرنے والے متوجہ ہوں!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


خواتین و حضرات ہمارے ملک کی عدالتیں انصاف فراہم کرنے کے علاوہ معاشرتی و معاشی ترقی کے کاموں میں بھی حصہ دار ہیں، بالخصوص غریبوں کی حمایت اور داد رسی کے لئے اقدامات کر رہی ہیں،جو عام طور پر حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اس کار خیر کے لئے ہم پاکستان کی عدالتوں کے ممنون ہیں۔ حال ہی میں لاہور ہائی کورٹ نے قبرستانوں میں مفت تدفین کا حکم دیا ہے اور اس سلسلے میں پیسے وصول کرنے پر پابندی لگا دی ہے۔مزید براں پنجاب حکومت کو قانون میں ترامیم کا حکم دیا ہے۔ اس نیک کام کے پس منظر میں  عدالت کا جو جذبہ کارفرما ہے وہ قابل تحسین ہے۔ عدالت کا کہنا ہے کہ شہری تمام زندگی حکومت کو مختلف اشیاء، خریدنے پر ٹیکس ادا کرتے ہیں، مرتے وقت بھی اس سے قبر اور دیگر اشیاء کے نام پر پیسے لئے جاتے ہیں۔ قابل احترام عدالت نے ان اخراجات کی ذمہ داری حکومت کو دی ہے۔ مزید کہا گیا ہے کہ انتظامیہ قبرستان تک تدفین کے لئے مفت ٹرانسپورٹ فراہم کرے۔ انتظامیہ قبرستان کی دیکھ بھال بھی کرے اور وہاں درخت لگائے۔ عدالت نے مزید حکم دیا ہے کہ پنجاب کے چار بڑے شہروں میں ماڈل قبرستان قائم کئے جائیں۔ لاہور ہائیکورٹ کے ان اقدامات کے پیش نظر ہمیں یہ کہنے کا حوصلہ بھی ملا ہے کہ معرز عدالت بجلی کے بلوں میں پاکستان ٹیلی ویژن کو ادا کیا جانے والا ”خراج“ بھی کالعدم قرار دے، بالخصوص مساجد سے یہ ٹیکس لینا تو یک جنبش قلم بند کرادے۔ہمیں اس بات کی بے حد مسرت ہے کہ ہماری تدفین بھی اعزازی طور پر ہوجائے گی اور ہمارے بچوں کو یہ ہزاروں روپے کا خرچہ نہیں کرنا پڑے گا۔ ہم سستے میں چھوٹ جائیں گے اور بے فکری سے سپرد خاک ہوسکیں گے،وگرنہ یہی فکر دامن گیر ہوتی :
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے


یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ ہمارے ہاں لوگ انفرادی طور پر اور حکومتیں، ادارے وغیرہ ایسے فیصلوں کو جو ان کے مفادات سے متصادم ہوں، فوری طور پر اعلیٰ عدالت میں چیلنج کردیتے ہیں۔ ہمیں یہ فکر بھی دامن گیر ہو رہی ہے کہ کہیں لاہور ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو قبرستان انتظامیہ، حکومت اور گورکن اعلیٰ عدالت میں چیلنج نہ کردیں، لہٰذا ان حالات میں بہتر لگتا ہے کہ فوراً مرجایا جائے،بلکہ ہم ایسے تمام خواتین و حضرات کو بھی مشورہ دیں گے کہ اگر وہ پچیس سے پچاس ہزار تک کی بچت چاہتے ہیں اور دیگر مراعات بھی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اس رعایت سے فوری فائدہ اٹھائیں۔وہ جو احمد ندیم قاسمی نے کہا ہے:
تیرا پیمان وفا راہ کی دیوار بنا
ورنہ سوچا تھا کہ جب چاہوں گا مرجاؤں گا


خواتین و حضرات ہم عدالت کے اس بات پر بھی شکر گذار ہیں کہ اس نے ہم ایسے غریبوں کے لئے موت آسان کردی ہے، ورنہ زندگی تو بہت مشکل اور مہنگی ہوئی جاتی ہے۔ اس پر ظلم یہ کہ بعد از مرگ بھی جان نہیں چھوٹتی اور قلوں، چالیسویں اور برسی تک اخراجات چلتے رہتے ہیں۔ وہ جو کسی شاعر نے کہا ہے:
ایک دن سب کو چکانا ہے عناصر کا حساب
زندگی چھوڑ بھی دے، موت کہاں چھوڑتی ہے


جہاں تک ماڈل قبرستان قائم کرنے والی بات ہے، تو گزشتہ حکومت نے جون 2017ء میں کاہنہ میں پہلا ماڈل قبرستان بنانے کا اعلان کیا تھا۔ اس مقصد کے لئے ”شہر خموشاں اتھارٹی“ بھی قائم کی گئی۔ میت کو غسل دینے کا مفت انتظام اور قبر کھودنے کے لئے جدید مشینری کے استعمال کا بھی اعلان کیا۔ میت کو سرد خانے میں رکھنے کا اہتمام  بھی کیا گیا۔ یہ قبرستان 89 کینال پر قائم کیا جانے والا  اور اس میں 8 ہزار سے زیادہ قبروں کی گنجائش ہے۔ بعدازاں نجانے اس منصوبے کا کیا بنا۔ بعض لوگوں نے تو اتنی مفت سہولتوں کو دیکھتے ہوئے اپنے آپ کو مرنے کے لئے رضا کارانہ طور پر پیش کرنے کا بھی قصد کرلیا تھا۔اس سلسلے میں اخبارات میں خوب خوب اشتہار بازی بھی کی گئی۔ البتہ ”پہلے آیئے پہلے پائیے“ کا سلوگن استعمال نہیں کیا۔


ہمارے ہاں قبر پکی کرنے اور اس پر کتبہ لگانے کا بھی رواج ہے۔حکومت کی خواہش تھی کہ اس کا انتظام بھی قبرستان انتظامیہ کرے، تاہم خدشہ تھا کہ پکی قبر سے دربار اور دربار سے عرس تک بات جا پہنچے گی۔ لوگ اپنے پیاروں کی قبروں کے کتبوں پر اشعار کی بھرمار کر دیتے تھے اور اپنی پسند کے پرسوز اشعار لکھواتے تھے۔ جیسا کہ قتیل شفائی نے اپنے ایک شعر میں کیا ہے:
لکھنا میرے مزار کے کتبے پہ یہ حروف
مرحوم زندگی کی حراست میں مرگیا


موجودہ دور میں زندگی کی حراست کسی پولیس حراست سے کم نہیں۔ مہنگائی اور بلوں کی بلند ہوتی شرح نے آج کے انسان کو بلبلا کر رکھ دیا ہے اور لگتا ہے کہ یہ غم انسان کے ساتھ ہی جائے گا۔ جیتے جی تو ان مسائل کا حل نظر نہیں آتا۔ بقول احسان دانش:
رہتا نہیں انسان تو مٹ جاتا ہے غم بھی
سو جائیں گے اک روز زمیں اوڑھ کے ہم بھی

مزید :

رائے -کالم -