افغانستان، طالبان اور پاکستان:بنیادی مسائل  (آخری قسط)

افغانستان، طالبان اور پاکستان:بنیادی مسائل  (آخری قسط)
افغانستان، طالبان اور پاکستان:بنیادی مسائل  (آخری قسط)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


کسی کے پاس بھی اس مسئلے کا کوئی حتمی جواب نہیں تھا کہ ”طالبان کو کس طرح مذاکرات کی میز پر لایا جائے؟“ افغان وفود کا یہ کہنا تھا کہ ”طالبان وقت گزار رہے ہیں اور دوحہ مذاکرات میں وہ زیادہ سنجیدہ دکھائی نہیں دیتے، اور اس میں کوئی خاص پیش رفت نہیں ہورہی“۔ ہمارا بھی یہی خیال ہے کہ مذاکرات میں پیش رفت نہیں ہورہی، نہ اشرف غنی حکومت چھوڑنے کے لئے تیار ہیں اور نہ طالبان ہی کوئی ایسی رعایت دینے کے لئے تیار ہیں،جو ان کی تحریک اور نظریے سے مطابقت نہ رکھتی ہو۔ وہ بڑے واضح الفاظ میں کہتے ہیں کہ انہیں ’امارت اسلامیہ افغانستان‘ بنانی ہے۔ افغان وفود یا غیرطالبان قوتیں،جو اس وقت کابل میں انتظامِ حکومت کا حصہ ہیں یا ان کے ہمدرد ہیں،  وہ بہرحال الزام طالبان ہی کو دے رہے ہیں کہ ”طالبان غیرسنجیدہ ہیں“۔


ایک اہم سیشن میں خواتین کا کردار زیربحث آیا کہ ’امارت اسلامیہ افغانستان‘ اگر بن جاتی ہے تو ”اس میں خواتین کا کیا کردار ہوگا؟“کچھ افغان وفود نے بتایا کہ ”اگر امارت اسلامیہ بن جاتی ہے تو طالبان کا کہنا ہے کہ وہ اسلام اور افغان تہذیبی روایات کے مطابق خواتین کی تعلیم کے حق میں بھی ہیں، اور ان کے کام کرنے کے حق میں بھی ہیں اور ان کو بااختیار بنانے کے حق میں بھی ہیں“۔ افغان وفود میں شامل خواتین کا یہ کہنا تھا کہ ”جہاں تک اسلام کی بات ہے وہ تو سمجھ میں آتی ہے، لیکن بہت سی مقامی روایات ایسی ہیں، جو اسلام سے مطابقت نہیں رکھتیں بلکہ اس سے متصادم ہیں، تو ان کا کیا معاملہ ہوگا؟ اور طالبان ان روایات پر اصرار کر رہے ہیں“۔ وہ طالبان وفود جو دوحہ مذاکرات میں شریک ہیں ان کا کہنا تھا کہ اسلامی روایات کی بات تو ٹھیک ہے، لیکن خواتین سے متعلق افغان تہذیبی روایات پر طالبان کو زیادہ اصرار نہیں کرنا چاہئے“۔
دیکھتے ہیں کہ یہ بات کہاں جاکر رْکتی ہے۔ یہ تو اسی وقت ہوگا جب طالبان واقعی عبوری نظامِ حکومت سے اتفاق کرلیں اور تب ہی یہ مذاکرات کامیاب ہوسکتے ہیں۔ اگر ان کی حکمت عملی یہی ہے کہ  وہ وقت گزار رہے ہیں اور ان کی امریکہ کے ساتھ کوئی معاملہ فہمی بھی ہوگئی ہے تو پھر یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہے گا، جیساکہ چل رہا ہے۔
افغان تجارتی معاملات کا مسئلہ


ایک مسئلہ یہ بھی زیربحث آیا کہ افغانستان کی معیشت کو کیسے خود انحصاری کے قابل (sustainable) بنایا جائے؟ کیونکہ ابھی تک افغان معیشت کا زیادہ تر انحصار بیرونی امداد پر ہی ہے۔ زیادہ تر لوگوں کا خیال تھا کہ اس میں پاکستان کو آگے بڑھ کر کردارادا کرنا چاہئے۔اس ضمن میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ ”پاکستان، افغانستان کو واہگہ بارڈر سے بھارت کے ساتھ تجارت کرنے کی اجازت دے“۔ افغانستان، پاکستان تجارتی معاہدہ اس سال فروری میں ختم ہوگیا ہے۔ اس کو تین ماہ کے لئے توسیع دی گئی تھی اور وہ میعاد بھی ختم ہوگئی ہے۔ اب اسے مزید چھے ماہ کے لئے توسیع دی گئی ہے۔
افغان حکومت اس بات پر اصرار کر رہی ہے کہ ”اس معاہدے میں ڈبلیو ٹی او کی شرائط بھی شامل کی جائیں تاکہ بھارت سے واہگہ کے ذریعے تجارت کھل سکے“۔ اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ افغانستان، واہگہ کے ذریعے بھارت برآمدات کرسکتا ہے، لیکن بھارت اپنی برآمدات واہگہ کے ذریعے افغانستان نہیں کرسکتا۔میں نے اپنا موقف وہاں یہ رکھا کہ ”افغانستان کو اچھی طرح یہ بات معلوم ہے کہ ہمارے بھارت کے ساتھ کیا معاملات ہیں۔ آپ کیوں اس بات پر اصرار کر رہے ہیں کہ بھارت واہگہ کے ذریعے برآمدات کر سکے؟آپ اپنی برآمدات بڑھایئے۔ ٹرکوں کے ذریعے آپ اپنا سامانِ تجارت پاکستان سے بھی منگوا سکتے ہیں۔ ہماری اپنی تجارت بھارت سے بند ہے، تو ہم آپ کو کیسے اجازت دے سکتے ہیں؟ کراچی کی بندرگاہ کھلی ہے،اسے بھارت استعمال کر سکتا ہے۔ افغانستان کو سوچنا چاہئے کہ وہ پاکستان سے کسی ایسی چیز کے لئے اصرار نہ کرے، جو اس کے لئے ممکن نہ ہو“۔


پھر یہ بھی کہا: ”اسی طرح وسطی ایشیا کے ساتھ ہماری تجارت جو کہ افغانستان کے ذریعے ہوتی ہے، اسے واہگہ بارڈر سے تجارت سے منسلک کر دیا ہے۔ اس کی بھی کوئی تْک نہیں ہے۔ افغانستان کے وسطی ایشیا کے تعلقات میں کوئی جنگی یا جارحانہ صورتِ حال نہیں ہے،جبکہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات کی صورتِ حال بالکل مختلف ہے۔ لہٰذا، ان دونوں مختلف صورتِ حال کو ایک دوسرے سے منسلک کرنا مناسب نہیں ہے“۔ لہٰذا میں نے افغان وفود کو کہا کہ ”وہ ایسا نہ کریں۔ اس طرح پاکستان کو تشویش ہوگی کہ یہ سب کچھ بھارت کے ایما پر کیا جارہا ہے، حالانکہ ہم نے آپ کو بھارت بذریعہ واہگہ برآمدات کی اجازت دی ہوئی ہے اور اس میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے“۔ لیکن ان کا اصرار تھا کہ ”بھارت سے بذریعہ واہگہ تجارت کی اجازت بھی ہونی چاہئے“۔
یاد رہے کہ ہم نے پہلے بھی موٹر وہیکل معاہدے اور ریلوے معاہدے نہیں ہونے دیئے تھے کہ اس میں ہماری سلامتی کے معاملات (سیکیورٹی کنسرن) ہیں۔ یہ صرف تجارت کا مسئلہ نہیں،بلکہ اس میں پاکستان اور بھارت کے درمیان بہت سے اصولی اور قانونی مسائل ہیں۔
افغانستان تجارتی لحاظ سے ہمارے لئے ایک بڑا اہم ملک ہے۔ کچھ عرصہ قبل تک افغانستان سے ہماری تجارت تقریباً چار سے پانچ ارب ڈالر سالانہ تک تھی،جو اَب گھٹ کر ایک ارب ڈالر رہ گئی ہے، اور جس میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔


کانفرنس میں سیاحت کی بات بھی ہوئی اور ہیلتھ ٹورازم (یعنی صحت اور علاج معالجے)کی بات بھی ہوئی۔ پاکستان افغان شہریوں کو ہر ماہ تقریباً دو لاکھ ویزے جاری کرتا ہے۔ سال بھر ٹریفک بھی جاری رہتی ہے۔ چار مقامات پر بارڈر کراسنگ ہوتی ہے: چمن، تورخم، انگوراڈہ اور سپن بولدک۔ یہ چیزیں بہتر ہوسکتی ہیں لیکن افغانستان کو سوچنا چاہئے کہ ان چیزوں پر دباؤ نہ ڈالے جو پاکستان کے لئے ممکن نہیں ہے۔
مراد یہ ہے کہ افغانستان کے حوالے سے امن وامان، سیاسی استحکام، بین الاقوامی تعلقات کی ذمہ داریاں، بھارتی مداخلت کے امکانات کا خاتمہ اورتجارتی پیش رفت جیسے معاملات ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔ ہمیں ہرمسئلے پر خود بہت سوچ سمجھ کر، ٹھنڈے دل و دماغ اور بصیرت کے ساتھ فیصلے کرنے ہیں۔جلدبازی سے اور کسی کے دباؤ میں آکر کئے گئے فیصلے ہمیں مشکلات کی طرف لے جا سکتے ہیں۔
(بشکریہ-: عالمی ترجمان القرآن،لاہور)

مزید :

رائے -کالم -