کشمیر کا انتخابی محاذ، الزامات کا اکھاڑہ 

کشمیر کا انتخابی محاذ، الزامات کا اکھاڑہ 
کشمیر کا انتخابی محاذ، الزامات کا اکھاڑہ 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 بلاول بھٹو زرداری تو آزاد کشمیر انتخابات کی مہم چھوڑ کر امریکہ چلے گئے ہیں۔ انہوں نے بڑی دھواں دھار تقریروں کے ساتھ الیکشن مہم چلائی۔ اس دوران وہ حکومت اور مسلم لیگ (ن) دونوں کو ہدف تنقید بناتے رہے، شاید یہ انتخابی مہم کی ضرورت تھی اب مریم نواز وہاں موجود ہیں اور اپنے امیدواروں کے حق میں جلسے پہ جلسہ کر رہی ہیں۔ ان کے جلسوں میں عوام بھی آ رہے ہیں اور ان میں جوش و جذبہ بھی برقرار ہے۔ ساتھ ہی وہ یہ دھمکی بھی دے رہی ہیں کہ اگر الیکشن نتائج چرانے کی کوشش کی گئی تو اس کے بڑے بھیانک نتائج برآمد ہوں گے۔ اب اس کا فیصلہ کیسے ہوگا۔ نتائج چرائے گئے ہیں یا حقیقی ہیں۔ اگر معیار یہ ہے ہارے تو نتائج چوری ہوئے جیتے تو نتائج حقیقی تھے، تو پھر پاکستان یا آزاد کشمیر کہیں بھی انتخابات ہوں وہ قابل قبول نہیں ہو سکتے۔ انہوں نے کشمیریوں سے یہ بھی کہا ہے وہ نوازشریف کو ووٹ بھی ڈالیں اور اپنے ووٹ کی حفاظت بھی کریں۔ مجیب الرحمن شامی صاحب نے اپنے پروگرام میں بڑی اچھی بات کی تھی انہوں نے کہا تھا پاکستان اور آزاد کشمیر کے انتخابات میں فرق کو ملحوظ خاطر رکھا جائے۔ پاکستان میں انتخابی مہم آپ جیسے چاہیں چلائیں مگر آزاد کشمیر میں مہم چلاتے ہوئے شائستگی اور متانت کو برقرار رکھیں، وہ الزامات نہ لگائیں جو عام طور پر پاکستان میں ایک دوسرے پر لگائے جاتے ہیں۔ انہوں نے خاص طور پر بلاول بھٹو زرداری کو یہ مشورہ دیا تھا وہ اپنے لب و لہجے کو شستہ رکھیں اور الزاماتی نہ بنائیں۔


میں شامی صاحب کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے یہ کہنا چاہوں گا آزاد کشمیر ایک خود مختار علاقہ ہے، اس کی اپنی اسمبلی ہے، وزیر اعظم اور صدر ہے، اسے پاکستان کے کسی صوبے کی طرح نہیں چلایا جا سکتا۔ پھر جب ہمارے سیاسی رہنما یہ الزام لگاتے ہیں آزاد کشمیر انتخابات میں حکومت پاکستان مداخلت کر رہی ہے، دھاندلی کرانا چاہتی ہے تو ایسا کہہ کر ہم دنیا کو کیا پیغام دے رہے ہوتے ہیں۔ ہم تو بھارت پر یہ الزام لگاتے ہیں وہ مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کے حق رائے دہی کو سلب کرتا ہے۔ ان کی حقیقی رائے کو کچل دیتا ہے اور کٹھ پتلی حکومت ان پر مسلط کر دیتا ہے۔ آزاد کشمیر میں تو ایسا نہیں ہوتا۔ اس وقت بھی آزاد کشمیرکے وزیر اعظم فاروق حیدر ہیں جن کا تعلق مسلم لیگ (ن) سے ہے۔ اس سے پہلے متعدد بار پیپلزپارٹی کی بھی وہاں حکومت رہی اور ان دنوں بھی رہی جب پاکستان میں اس کی حکومت نہیں تھی۔ جب بلاول بھٹو زرداری اور مریم نواز یہ مہم چلاتی ہیں کہ حکومت پاکستان آزاد کشمیر کے انتخابات میں مداخلت کر رہی ہے، اس کے نتائج چرانا چاہتی ہے تو اس کا دنیا میں کیا تاثر جاتا ہے۔ انڈین میڈیا ایسے بیانات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے، وہ یہ تاثر دینے کی کوشش کرتا ہے، مقبوضہ کشمیر میں تو حالات اتنے خراب نہیں جتنے اس آزاد کشمیر میں جس پر پاکستان کا قبضہ ہے۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے پاکستانی سیاستدان کم از کم آزاد کشمیر کو بخش دیں، ایشوز پر انتخابی مہم چلائیں الزامات پر اپنی سیاسی مہم کی بنیاد نہ رکھیں۔


الزامات کا ذکر آیا ہے تو یہ بھی ایک رواج بن گیا ہے، ایک دوسرے پر کشمیر کی سودے بازی کا الزام لگاؤ، بلاول بھٹو زرداری اور مریم نواز دونوں ہی وزیر اعظم عمران خان پر کشمیر بیچنے کا الزام لگاتے ہیں اس الزام کے ثبوت میں کوئی دلیل ہے اور نہ جواز، مگر اس کے باوجود روزانہ کی بنیاد پر اسی الزام کی ٹیپ چلائی جاتی ہے۔ اب یہ بات بذاتِ خود ہمارے کشمیر کے بارے میں اصولی موقف کو نقصان پہنچاتی ہے۔ اس سے یہ تاثر جاتا ہے کہ پاکستان میں کشمیر صرف ایک سیاسی ایشو ہے۔ جسے سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر الزام کے لئے استعمال کرتی ہیں حقیقت اس کے برعکس یہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے ہر فورم پر کشمیر کے مسئلے کو اٹھایا ہے۔ گزشتہ دنوں انہوں نے پھر واضح کر دیا تھا جب تک انڈیا کشمیر کی متنازعہ پوزیشن بحال نہیں کرتا، اس سے کاروباری تعلقات قائم نہیں ہو سکتے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے دوران بھی عمران خان نے کشمیریوں کی بھرپور نمائندگی کی تھی۔

ایسی باتوں اور الزامات کا اس لئے فائدہ نہیں ہوتا کہ جوابی الزامات کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مثلاً مریم نواز کے الزامات پر تحریک انصاف کے ترجمان کہتے ہیں مودی کو غیر سرکاری طور پر گھر کس نے بلایا تھا، اس کی تقریب حلف برداری میں کون گیا تھا، ساڑھیوں اور آموں کے تحفے کس نے بھیجے تھے۔ الزام در الزام اور جواب در جواب سے کشمیر اور کشمیریوں کی کون سی خدمت ہو رہی ہے صرف کشمیریوں کو بے وقوف بنانے کے لئے یہ سارا کھیل کھیلا جاتا ہے۔ وگرنہ حقیقت یہ ہے کشمیر کے مسئلے پر کوئی مائی کا لعل یوٹرن نہیں لے سکتا، یہ پاکستانیوں کے دل کی آواز ہے اور کشمیر کی آزادی ان کا خواب ہے۔ اس معاملے میں حکومتوں کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں اس مسئلے کو سوائے عالمی فورم پر حل کرنے کے اور کوئی راستہ ہے ہی نہیں یعنی یہ نہیں ہو سکتا اس مسئلے کو طاقت یا عسکری انداز سے حل کیا جا سکے۔ اس سلسلے میں ہماری ایک تاریخ ہے اور اس تاریخ میں بہت تلخ واقعات بھی موجود ہیں۔


اس میں دو رائے نہیں کشمیریوں کو اپنی حکومت کے انتخاب کا آزادانہ حق ملنا چاہئے۔ جب ہم خود یہ مطالبہ کرتے ہیں مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کو حق خود ارادیت دیا جائے یا کم از کم مقبوضہ کشمیر کی حکومت منتخب کرنے کے لئے ان کی رائے کا احترام کیا جائے تو آزاد کشمیر میں یہ حق کیسے سلب کر سکتے ہیں۔ یہ فارمولا بالکل عجیب ہے پاکستان میں جس جماعت کی حکومت ہے، آزاد کشمیر میں بھی اسی جماعت کی حکومت ہونی چاہئے۔ کیوں ہونی چاہئے؟ اس کا جواب کسی کے پاس نہیں جب آزاد کشمیر کا علیحدہ الیکشن کمیشن ہے، علیحدہ اسمبلی ہے، علیحدہ حق رائے دہی کا شیڈول ہے تو پھر یہ فیصلہ کشمیر کے عوام پر چھوڑ دینا چاہئے۔ اسے ریاستی طاقت سے تبدیل کرنے کی کوشش کرنا آزاد کشمیر کے کاز کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے آزاد کشمیر میں انتخابات تو اتنے شفاف اور غیر جانبدارانہ ہونے چاہیں کہ دنیا ان کی مثالیں دے اور بھارت کو مجبور کرے وہ بھی مقبوضہ کشمیر میں آزادانہ انتخابات کرائے اور کٹھ پتلی حکومت مسلط نہ کرے۔ وقت کا تقاضا تو یہی ہے کشمیر کو پاکستانی سیاست کا اکھاڑا نہ بنایا جائے۔ اس کی انتخابی مہم صرف اس نکتے پر چلنی چاہئے مقبوضہ کشمیر کو آزاد کرائیں گے۔ یہ تاثر ہرگز نہ دیا جائے یہاں کوئی کشمیریوں کے حق میں ہے اور کوئی مخالف ہے۔ انتخابی مہم کا دوسرا نکتہ کشمیر میں تعمیر و ترقی کے منصوبوں میں تیزی اور وہاں صنعتی شعبے کو فروغ دینے سے متعلق ہونا چاہئے۔ دیکھا گیا ہے آزاد کشمیر میں معاشی اہداف کا ذکر نہیں کیا جاتا اور دائرہ صرف الزامات تک سکڑ کر رہ جاتا ہے جو بڑی بدقسمتی کی بات ہے۔

مزید :

رائے -کالم -