بہاولپور، ملتان اور اس کے بعد!
صدر آصف علی زرداری نے دو نئے صوبوںملتان اور بہاولپور کے قیام کے لئے کمیشن بنانے کے لئے سپیکر قومی اسمبلی کو ریفرنس بھجوا کر اچھا اقدام کیا ہے۔ اس اقدام کو ان دو نئے صوبوںکے قیام کی کوششوںکے ضمن میں پہلی سنجیدہ کوشش ، جس کا تعلق محض سیاسی نمبر بنانے سے نہیںہے، قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس تحریک کو اس علاقے اور دیگر صوبوںسے بھی سیاسی حمایت ملنے کا امکان ہے۔ در اصل صدرآصف علی زرداری کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ وہ جنوبی پنجاب میں نئے صوبے کی تخلیق کے معاملے کو قومی سطح پر اجاگر کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ اس طرح ملتان اور بہاولپور صوبوںکی تخلیق کی حامی قوتیں بڑی سیاسی جماعتوںکے تعاون سے اپنے دیرینہ خواب کی تعبیر پر بے حد پر جوش ہوں گی۔
یہ ایک جمہوری نظام میں مسابقت پر مبنی سیاسی تصور کا مثبت ردعمل ہے کہ دونوں بڑی سیاسی جماعتیں، پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) نے جنوبی پنجاب میں نئے صوبوںکی تخلیق کی حمایت شروع کردی ہے ،کیونکہ ان دونوں جماعتوںکو خطرہ تھا کہ اگر وہ اس مطالبے کی مخالفت کرتی ہیںتو انہیں اس علاقے سے عوامی حمایت نہیںملے گی۔ اس سلسلے میں پہلا اعلان صدر آصف علی زرداری کی طرف سے سامنے آیا جب اُنھوں نے دوٹوک الفاظ میں جنوبی پنجاب میں ایک نئے صوبے کے قیام کا وعدہ کیا۔ اس اعلان کو بہت سے سیاسی مبصرین نے ایک سیاسی چال قرار دیا تھا ،جس کا مقصد جنوبی پنجاب میں پی پی پی کی گرتی ہوئی مقبولیت کو سہارا دینا تھا۔ اس سے قطع نظر کہ اس اعلان کی اس وقت غرض و غایت کیا تھی؟ اس کی وجہ سے پی پی پی بہرحال سرائیکی آبادی کا دل جیتنے میں کامیاب ہوگئی، جس کو شکوہ تھا کہ اُس کو لاہور نے بہت دیر سے نظر انداز کیا ہوا ہے۔
یہ احساس کرتے ہوئے کہ آصف علی زرداری نے جنوبی پنجاب میں اپنی حمایت مضبوط بنالی ہے، پاکستان مسلم لیگ (ن)نے بہاولپور صوبے کی بحالی کے مطالبے کی حمایت کرنا شروع کر دی۔ اس کے ساتھ ہی اس نے یہ بھی عندیہ دیا کہ یہ جنوبی پنجاب میں ایک اور صوبے کے قیام کی بھی حمایت کرے گی، تاہم ابھی اس کو احساس تھا کہ ان اعلانات کے باوجود یہ ابھی بھی اس ضمن میں پی پی پی کی طرف سے کئے گئے اعلانات کے مقابلے میں حمایت حاصل نہیںکر پائی ہے،اس نے پنجاب اسمبلی میںقرارداد پیش کردی۔ جواب درآں غزل، قومی اسمبلی میں بھی جنوبی پنجاب میںنئے صوبے کے قیام کے لئے تحریک پیش کردی گئی۔
مسابقتی سیاست اور جمہوری رویوںکے مثبت اظہا ر کے ساتھ ساتھ یہ پیش رفت باہمی تعاون اور گفت وشنید سے معاملات طے کرنے کے لئے جمہوری قوتوںکی رسائی کی بھی غمازی کرتی ہے کہ انہوںنے ایک عوامی مطالبے پر اپنے پرانے نظریات کو قربان کردیا۔ ہماری سیاست کے اس نئے اور مستحسن رویے کی جھلک اٹھارہویں ترمیم کے اتفاق ِ رائے سے منظور ہونے سے بھی دیکھنے کو ملی ۔ اسی ترمیم سے ہمارے وفاق میں وہ لچک پیدا ہوئی، جس سے نئے صوبوںکے مطالبے کی بجاآوری اب ممکن نظر آرہی ہے۔ دراصل ملتان اور بہاولپور صوبوںکے قیام کی حمایت اٹھارہویں ترمیم پر ہونے والی اتفاق ِ رائے کا تسلسل ہی ہے۔
بہاولپور اور ملتان صوبوں کی حمایت میں یقینا بڑی سیاسی جماعتوں کے اپنے مفاد پر مبنی اقدامات شامل ہیں۔ اگر وہ ایسا نہ کرتیں تو نئے صوبوںکی تحریک کے لئے فی الحال اس خطے کی خاموش سیاسی قوتیں مل کر ایسی قوت بن جاتیں کہ یہاں مرکزی جماعتیں ا س کا مقابلہ نہ کرپاتیں۔ ایک اور مستحسن بات ان صوبوںکا تاریخی ناموں کے ساتھ قیام کی طرف جانا ہے۔ ان کے نام ”ملتان اوربہاولپور“ تاریخ، ثقافت، روایات اور اس خطے میںبسنے والوںکی شناخت کو ظاہر کرتے ہیں۔ ریاستوںاور صوبوںکے قیام میں ایسے ناموںکی ضرورت ہوتی ہے جو یہاں بسنے والی بڑی اکائیوںکی نمائندگی کریں اور ان پر چھوٹی اکائیوںکو بھی کوئی اعتراض نہ ہو۔
اس معاملے میں ایک بات قابل غور ہےنئے صوبوں کے قیام کا مطالبہ پنجا ب کی تقسیم پر ہی ختم نہیںہوجائے گا۔خیبر پختونخوا، بلوچستان اور سندھ ، جو فی الحال ”ناقابل ِ تقسیم “ ہونے کے دعویدار ہیں، سے بھی اقلیتی گروہوں کی طرف سے اس قسم کی آوازیں آئیںگی اور ان کو دبانا ناممکن ہوگا۔
مصنف، معروف کالم نگار، تجزیہ نگار اور ”LUMS“ کے ڈین ہیں۔