ہمارے سوا چونتیس کروڑ روپے سے ارسلان نے جواءہارا ، خاتون کے ساتھ ہوٹل میں ٹھہرا،خاندان کو لندن دکھایا: ملک ریاض نے سپریم کورٹ میں بیان ریکارڈ اور ثبوت جمع کرادیا

ہمارے سوا چونتیس کروڑ روپے سے ارسلان نے جواءہارا ، خاتون کے ساتھ ہوٹل میں ...
ہمارے سوا چونتیس کروڑ روپے سے ارسلان نے جواءہارا ، خاتون کے ساتھ ہوٹل میں ٹھہرا،خاندان کو لندن دکھایا: ملک ریاض نے سپریم کورٹ میں بیان ریکارڈ اور ثبوت جمع کرادیا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اسلام آباد ( مانیٹرنگ ڈیسک ) چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے بیٹے ارسلان افتخار کی مبینہ کرپشن کے معاملے کی تحقیقات کرنے والے سپریم کورٹ کے بنچ کے روبرو اس سکینڈل کے اہم کردار اور بحریہ ٹاﺅن کے بانی ملک ریاض حسین نے اپنا بیان اور دستاویزی ثبوت جمع کرادیے ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ ارسلان افتخار کے دوروں پر پر چونتیس کروڑ پچیس لاکھ اور ایک سو پچیس روپے خرچ کئے گئے جن میں سےءارسلان افتخار کے جوئے میں ہارے ہوئے پیسے اور خاتون کے ساتھ ایک ہوٹل کے اخراجات بھی شامل ہیں۔ عدالت میں ایف بی آر کی جانب سے بحریہ ٹاﺅن کا مالیاتی ریکارڈبھی پیش کیا گیا جبکہ ریاض ملک نے اپنے وکیل کے ذریعے اس معاملے کی سماعت کیلئے لارجر بنچ تشکیل دینے یا کسی ادارے سے انکوائری کرانے کی استدعا کی تاہم عدالت نے اس ضمن میں فیصلہ جمعرات تک ملتوی کردیا ہے ۔ملک ریاض کے دستاویزی ثبوت میں کہا گیاہے کہ ارسلان افتخار کے دوروں پر چونتیس کروڑ پچیس لاکھ اور ایک سو پچیس روپے خرچ ہوئے ،ارسلان افتخار نے ایک خاتون اور احمد خلیل کےساتھ پچیس جولائی 2010 ءکو لندن سے مونٹی کارلو کا سفرکیا جبکہ مونٹی کارلو دنیا بھر میں جوئے خانوں کے وجہ سے شہرت رکھتا ہے۔مونٹی کارلو میں قیام وطعام، شاپنگ اور گاڑیوں پر اٹھاسی لاکھ ساٹھ ہزار روپے اور وہاں ان کے کے چار رات کے قیام کے 8120 یورو ،ٹکٹوں اور مونٹی کارلو ٹور کے لئے 22 لاکھ 84 ہزار روپے ،فلیٹ اور گاڑی کی مد میں میں 65 لاکھ 75 ہزار روپے ادا کئے گئے۔دستاویزات کے مطابق 2011ءمیں لندن کے دورے پر ہوٹل کے اخراجات پر چھ لاکھ 92 ہزار روپے کے اخراجات آئے ، لندن ہی کے دوسرے دورے پر انسٹھ لاکھ سینتالیس ہزار روپے خر چہ آیا۔ان کے خاندان کے لئے اپارٹمنٹ کا کرایہ پچیس لاکھ چودہ ہزار روپے ادا کیا۔ہوٹل ،کیش اور گاڑی کے کرائے کی مد میں چونتیس لاکھ تینتیس ہزار روپے ادا کئے اوربتیس کروڑ ستر لاکھ روپے ڈاکٹر ارسلان کو نقد دیئے گئے ۔دستاویزی بیان کے مطابق ارسلان نے لندن سے مونٹی کارلو کے لئے برٹش ائر ویز پرڈاکٹر ارسلان چودھری نے ٹکٹ نمبر 3794299546 کے ذریعے سفر کیا جبکہ ان کی ساتھی خاتون نے ٹکٹ نمبر3794299545 اور احمد خلیل نے ٹکٹ نمبر 3794299544 پر سفر کیا جن کی کل مالیت 1011 برطانوی پاونڈ ہے جو سلمان احمد کے ویزا کارڈ کے ذریعے ادا کی گئی گئی۔ اس مقصد کیلئے انتیس جون 2010ءکو تین ہزار پاو¿نڈ کا چیک نمبر 000015 جاری کیا گیا جبکہ2350 پاو¿نڈز کاایک اور چیک نمبر000016 بھی 6 جولائی 2010ءکو جاری کیا گیا ۔ریاض ملک کے بیان میں یہ کہاگیا ہے کہ ڈاکٹرارسلان 31سیسکس سکوائرلندن کوخط کتابت کے لئے استعمال کرتا رہا جو 1997ءسے ان کی بیٹی کی ملکیت ہے۔ دوران سماعت بحریہ ٹاﺅن کے سربراہ ملک ریاض نے سپریم کورٹ میں اپنا بیان ریکارڈکرادیا جبکہ عدالت کو بتایاگیاکہ صحافیوںکے لیے کوئی ضابطہ اخلاق موجود نہیں ۔جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہاکہ اگر ادارے پر لگنے والے الزامات دور نہ کرسکے تو ہمارے یہاں بیٹھنے کا کوئی فائدہ نہیں ، معاملے کی تہہ تک پہنچناچاہتے ہیں ،تحقیقات کے لیے تمام ریکارڈ طلب کیا۔جسٹس خلجی عارف نے زاہد بخاری کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ معذرت کے ساتھ کہتاہوں ،آپ انصاف تلاش کرنے نہیں بلکہ خریدنے آئے ہیں ۔دوسری طرف ارسلان افتخار نے کسی بھی فورم پرتحقیقات کرانے پر رضامندی کا اظہارکردیاجبکہ ایف بی آر نے ملک ریاض کے حوالے سے اپنا ریکارڈ جمع کرادیاہے۔ڈاکٹر ارسلان افتخار کے وکیل سردار اسحا ق خان کو مخاطب کرتے ہوئے جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہاکہ عدلیہ کی آبیاری لوگوں نے خون پسینے سے کی ہے ۔جسٹس جواد ایس خواجہ اور جسٹس خلجی عارف پر مشتمل د ورکنی بنچ ارسلان کرپشن کیس کی سماعت کررہاہے جہاں ملک ریاض کے وکیل زاہدبخاری نے بتایاکہ اُن کے موکل کابیان جمع کرادیاگیاہے جو عدالت نے پڑھنے کی ہدایت کردی تاکہ سب لوگ سن سکیں ۔ملک ریاض نے بیان میں کہاکہ ازخود نوٹس قانونی نہیں کیونکہ کسی کا بنیادی حق متاثر نہیں ہوا،چیف جسٹس کے جانے کے بعد تین رکنی بنچ ضروری تھا۔اُنہوں نے کہاکہ سپریم کورٹ تحقیقاتی ادارہ نہیں ، ایف آئی اے ،نیب اور پولیس جیسے تحقیقاتی ادارے موجود ہیں اور ارسلان افتخار کیس میں امتیازی سلوک روارکھاگیاہے ۔جسٹس جواد ایس خواجہ نے اپنے ریمارکس میں کہاکہ حکم کی تعمیل تو نہیں ہوئی ،عدالت کی تعمیل ہوتو بہت سے مسائل حل ہوجائیں ۔ کل پوچھاتھاکہ کونساقانون لاگوہوتاہے ۔ملک ریاض نے کہاکہ یہ ڈیل ارسلان اور اُن کے درمیان ڈیل تھی اور اِس سے چیف جسٹس یا دیگر ججوں سے کوئی تعلق نہیں اور اُن پر ارسلان الزامات لگاتارہا۔جسٹس جواد ایس خواجہ نے استفسار کیاکہ ایسے کونسے الزامات ہیں جو ارسلان نے اُن پر لگائے ہیں ، ہم معاملے کی تہہ تک پہنچناچاہتے ہیں۔ملک ریاض کے وکیل زاہد بخاری نے کہاکہ ارسلان افتخار چیف جسٹس اور عدلیہ کی تضحیق کا باعث بنا،ارسلان افتخار ملک ریاض کے داماد کو بلیک میل کرکے پیسے بٹورتارہا۔اُنہوں نے کہاکہ احمد خلیل نے سلمان کا ارسلان سے تعارف کرایا اوراُس سے رقم لے کر مقدمات میں ریلیف کی یقین دہانی کراتارہاجس پر عدالت نے کہاکہ بیان سے لگتاہے کہ رقم ملک ریاض نے دی ،اِس میں درستی کرالیں ۔ عدالت نے استفسارکیایقین دہانی ملک ریاض کو کرائی گئی یا سلمان کو ؟ جس پر زاہدبخاری نے کہاکہ احمد خلیل اور سلمان کو یقین دہانی کرائی گئی ۔جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہاکہ آپ کہتے ہیں یقین دہانی سلمان اور احمد خلیل کو کرائی لیکن دھوکاملک ریاض کو ہوا، بیان میں لکھاہے کہ یہ دھوکہ دہی نیب کے زمرے میں آتاہے ۔عدالت نے کہاکہ دھوکہ اور یقین دہانی کی کنفیوژن کو دورکرائیں ، جسٹس جواد ایس خواجہ کاکہناتھاکہ ایف بی آر سے ملک ریاض کی مالی حیثیت کا اندازہ کرنے کے لیے ریکارڈ منگوایاگیا ،پروگرام نشرکرواکر عدلیہ کی آزاد ی پر اثرانداز ہونے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ملک ریاض نے ارسلان افتخار کے تین بیرونی دوروں میں34کروڑ 25لاکھ اور125روپے خرچ کیے، ارسلان 25جولائی کولندن آئے جہاں سے اُنہوں نے احمد خلیل اور ایک نامعلوم خاتون کے ہمراہ فرانس کے مہنگے ترین سیاحتی مقام مونٹی کارلوکا دورہ کیا۔اُنہوں نے کہاکہ ارسلان افتخار کو 32کروڑ 70لاکھ کی رقم کیش کی صورت میں دی گئی،یہ تمام رقم سلمان نے اپنے اکاﺅنٹ سے اداکی ہے جس پر عدالت نے استفسارکیاکہ کیا سلمان کو کوئی کیس عدالت میں زیرالتوءہے ؟ زاہدبخاری نے بتایاکہ سلمان کاکوئی کیس نہیں۔ملک ریاض نے کہاکہ وہ جو کہہ رہے ہیں دستاویزات سے ثابت کردیں گے ۔زاہدبخاری نے کہاکہ اُنہیں عدالت سے کوئی فیور نہیں چاہیے،کبھی نہیں کہاکہ چیف جسٹس نے اُن کا کوئی کام کیا لیکن دونوں فریقین سے جواب آجانے کے بعد اب لارجر بنچ تشکیل دیاجائے ۔جسٹس جواد ایس خواجہ کاکہناتھاکہ ارسلان افتخار کی طرح ملک ریاض بھی انصاف کی توقع رکھیں ۔عدالت نے صحافیوں کے ضابطہ اخلا ق کا جائزہ لینے کے لیے خوشنود علی خان اورغلام یوسف زئی کو طلب کرکے استفسار کیاکہ صحافیوں کا کوئی ضابطہ اخلاق ہے تو خوشنودعلی خان نے بتایاکہ میڈیا کے لیے کوئی تحریری ضابطہ اخلاق موجود نہیں ، جسٹس جواد ایس خواجہ نے استفسارکیاکہ میڈیا کو کوئی شکایت آئے تو کیسے حل کرتے ہیں ؟ایف بی آر نے مئی تک کے ملک ریاض کے انکم ٹیکس ریٹرن کی تفصیلات پیش کردیں جن کا جائزہ لیاگیا۔بعدازاں عدالت نے ارسلان افتخار کے وکیل سرداراسحاق کو روسٹرم پر طلب کرتے ہوئے کہاکہ اِس ادارے کی آبیاری لوگوں نے خون پسینے سے کی ہے ۔سرداراسحا ق خان نے کہاکہ کسی بھی تفتیشی ادارے سے تحقیق کرالیں ،اُنہیں کوئی اعتراض نہیں ۔زاہدحسین بخاری نے ایک موقع پر کہاکہ لگتاہے کہ عدالت نے ذہن بنالیاہے جس پر جسٹس خلجی عارف نے زاہد بخاری کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ معذرت کے ساتھ کہتاہوں ،آپ کے کہاتھاکہ انصاف تلاش کرنے آئے ہیں لیکن آپ خریدتے ہیں ،تب تک ذہن نہیں بناتاجب تک فیصلے پر دستخط نہ کردوں ۔جسٹس جواد ایس خواجہ نے اپنے اختتامی ریمارکس میں کہاکہ اگر ادارے پر الزامات دور نہ کرسکے تو ہمارے یہاں بیٹھنے کا کوئی فائدہ نہیں اور بعدازاں مزید سماعت 14جون جمعرات تک کے لیے ملتوی کردی۔سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے اطراف میں سیکیورٹی کے سخت ترین انتظامات کیے گئے تھے۔