پاکستان پر امریکی ڈرون حملے (1)
امریکی صدر اوباما نے 22مئی 2013ءکو واشنگٹن میں نیشنل ڈیفنس یونی ورسٹی میں اپنی صدارت کے دوسرے دور کا اہم ترین خطاب کیا ہے جس میں دہشت گردی کے خلاف امریکا کی جنگی پالیسی، خصوصیت سے ڈرون حملوں کے بارے میں اپنے آیندہ لائحہ عمل کے خطوطِ کار بیان کیے ہیں۔ اس تقریر کا ایک خاص پس منظر ہے جسے سامنے رکھنا ضروری ہے۔
نائن الیون کے بعد امریکی صدر جارج بش نے کانگریس سے ایک مبہم قانون کے تحت افغانستان میں ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘کے لیے ہرذریعے کو استعمال کرنے کی اجازت حاصل کرلی تھی۔ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھی صرف افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف اقدام کے لیے چھتری فراہم کی تھی مگر امریکا کی سیاسی اور عسکری قیادت نے اس مبہم اختیار (authorization) کو دنیا بھر میں خصوصیت سے عراق، پاکستان، یمن اور صومالیہ میں ہرطرح کے بے دریغ فوجی اقدامات کے لیے استعمال کیا۔ اپنی صدارت سے پہلے اوباما نے ایک سینیٹر کی حیثیت سے بش کے ان اقدامات کو چیلنج کیا تھا اور 2007ءمیں اپنی انتخابی مہم کے ابتدائی مرحلے میں صاف الفاظ میں اعلان کیا تھا:
دستور کے تحت صدر کو یہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ وہ ایسی صورتِ حال میں جس میں قوم کو درپیش کوئی فوری یا حقیقی خطرہ روکنا پیش نظر نہ ہو، یک طرفہ طور پر فوجی حملے کا اختیار دے۔ تاریخ نے ہم کو بارہا دکھایا ہے کہ فوجی حملہ اسی وقت سب سے زیادہ کامیاب ہوتا ہے جب اس کا اختیار مقننہ نے دیا ہو اور وہ اس کی حمایت کرتی ہو۔
صدربش نے اپنے صدارتی اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے پوری دنیا میں فوجی کارروائیوں کی چھوٹ دی اور اپنے ماضی کے سارے دعوو¿ں کے باوجود صدر اوباما نے بھی اس جارحانہ پالیسی کو جاری رکھا بلکہ جہاں تک ڈرون حملوں کا تعلق ہے، ان میں چند در چند اضافہ کردیا۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے، بش کے دور میں ک±ل 45 ڈرون حملے ہوئے، جب کہ اوباما کی صدارت کے پہلے ہی سال یہ تعداد53 ہوگئی اور اب تک 320حملے ہوچکے ہیں جن میں3ہزار سے زائد افراد جاں بحق کیے جاچکے ہیں۔ پاکستان سینیٹ کی دفاعی ا±مور کی کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق ان میں ’عسکریت پسندوں‘ کی تعداد 565 تھی، جب کہ عام معصوم شہریوں کی تعداد2342تھی جن میں سے متعین طور پر خواتین اور بچوں کی تعداد 646 تھی۔ اوباما کے دور میں ڈرون حملوں کا دائرہ دوسرے ممالک تک بھی وسیع کردیا گیا اور یمن اور صومالیہ میں بھی بے دریغ ڈرون حملے کیے جارہے ہیں۔
ویسے تو دہشت گردی کے خلاف امریکا کی 12سالہ جنگ میں لاکھوں افراد ہلاک کیے جاچکے ہیں لیکن ڈرون حملوں کے باب میں کئی سال سے امریکا اور خود مغربی دنیا میں تنقید اور احتساب کی مو¿ثر آوازیں ا±ٹھائی جارہی ہیں جن کا اب کچھ نتیجہ بھی نکلنے لگا ہے۔ اس میں اہم نکات یہ ہیں:
۱۔ امریکی صدر اور انتظامیہ کو امریکی دستور کے تحت اس نوعیت کے حملوں کی اجازت نہیں تھی اور انتظامیہ نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا ہے۔
۲۔ امریکی دستور اور فوجی قانون کے تحت ایک قانونی جنگ میں بھی فوجی قوت کے استعمال کا اختیار صدر اور پینٹاگان کو ہے۔ سی آئی اے ایک جاسوسی اور تجزیہ کرنے والا ادارہ ہے۔ فوجی اقدام کا اسے اختیار نہیں۔ حالیہ ڈرون حملے امریکی فوج نہیں، سی آئی اے کررہی ہے جو امریکا کے دستور اور جنگی قانون کی خلاف ورزی ہے۔ نیز اس طرح انتظامیہ کے ان اقدامات کے باب میں کانگریس کی نگرانی اور اس کے سامنے جواب دہی سے بچ نکلنے کے چور دروازے بنے ہوئے ہیں۔
۳۔ ڈرون حملوں کے پورے عمل کو کانگریس اور عوام سے مخفی رکھا گیا ہے۔ حکومت نے بھی مجبوراً اب اس کی ذمہ داری قبول کی ہے، اور یہ عوام سے دھوکا ہی نہیں،امریکی دستور اور جمہوری اصولوں کی صریح خلاف ورزی بھی ہے۔
۴۔ ایک ایسے ملک پر ڈرون حملے، جس سے امریکا برسرِ جنگ نہیں بلکہ جسے دوست ملک قرار دیتا ہے، اقوامِ متحدہ کے چارٹر، بین الاقوامی قانون، جنیوا کنونشن اور معروف سفارتی آداب کی صریح خلاف ورزی ہے۔
۵۔ ڈرون حملوں میں محض مبہم اطلاعات یا اندازوں کی روشنی میں ٹارگٹ کلنگ کی جارہی ہے جو ہر قانون کی خلاف ورزی اور نہ صرف جنگی جرم ہے بلکہ کچھ صورتوں میں نسل کشی (genocide) کے زمرے میں آتی ہے۔ امریکی انتظامیہ کا یہ خودساختہ اصول کہ مخدوش علاقے میں جو بھی مرد اسلحہ ا±ٹھانے کی عمر میں ہو، وہ متحارب (combatant) شمار کیا جاسکتا ہے اور اسے ڈرون حملوں کا نشانہ بنایا جاسکتا ہے، ہرقانون اور ضابطے کے منافی ہے اور انسانیت کے قتل کی کھلی چھٹی دینے کے مترادف ہے جو بالکل ناقابلِ قبول ہے۔ اس پر عمل انسانیت کے خلاف جرم ہے۔
۶۔ڈرون حملوں کے نتیجے میں نہ صرف حملوں کا نشانہ بننے والے علاقوں میں بلکہ متعلقہ ممالک اور پوری دنیا میں امریکا کے خلاف جذبات فروغ پارہے ہیں جو نفرت کے طوفان کی شکل اختیار کر رہے ہیں۔ اس طرح معروف ’دہشت گرد‘ تو کم مارے جارہے ہیں، نئے دہشت گردوں کی فوج ظفرموج تیار ہورہی ہے اور اس طرح امریکا اپنے جنگی مقاصد میں ناکام ہو رہا ہے اور ایک نہ ختم ہونے والی اور روز بروز وسعت اختیار کرنے والی جنگ کی آگ میں پھنستا چلا جا رہا ہے۔پیور ریسرچ سنٹر واشنگٹن کے ایک سروے کے مطابق پاکستان میں ڈرون حملوں کی آبادی کے 98 فی صد نے مخالفت کی ہے اور اس کی وجہ سے امریکا دشمنی کے جذبات کو فروغ حاصل ہوا ہے۔
صرف پاکستان ہی میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں ردعمل کی یہی کیفیت ہے۔ PEWہی کے ایک سروے کے مطابق ان ممالک میں جو امریکا کے دوست ہیں اور اس جنگ میں امریکا کے ساتھ ہیں، وہاں ڈرون حملوں کے خلاف عوامی ردعمل سخت منفی ہے۔ یونان کی آبادی میں 90 فی صد، مصر میں 89فی صد، ا±ردن میں85 فی صد، ترکی میں 81 فی صد، اسپین اور برازیل میں 76 فی صد، جاپان میں75 فی صد اور میکسیکو میں73 فی صد ڈرون حملوں کی مخالفت اور مذمت کرتے ہیں۔ امریکا میں 26 فی صد مرد اور 49 فی صد خواتین اس کے خلاف راے کا اظہار کررہی ہیں۔
یہ ہے وہ پس منظر جس میں امریکا کی کانگریس میں بھی اس پالیسی کو چیلنج کیا گیا ہے۔ کانگریس کی کمیٹیاں اس کا جائزہ لے رہی ہیں اور علمی، اور عوامی سطح پر بھی اسے تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس پس منظر میں اوباما نے پالیسی پر جزوی نظرثانی کی بات کی ہے، یعنی تعداد میں کمی، اہداف کا زیادہ احتیاط سے تعین، اعلیٰ ترین سطح پر فیصلے کا عندیہ، کسی عمومی نگرانی کے نظام کے امکانات کا جائزہ اور چھے ماہ کے بعد سی آئی اے سے لے کر پینٹاگان کی طرف ان اختیارات کے تبادلے کی کوشش۔ لیکن اس اعتراف کے باوجود صدراوباما نے کہا:
جیسے جیسے ہماری لڑائی ایک نئے مرحلے میں داخل ہورہی ہے، امریکا کا خود اپنے دفاع کا جائز دعویٰ بحث کا آخری نکتہ نہیں ہوسکتا۔ کسی فوجی تدبیرکے قانونی یا مو¿ثر ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ دانش مندانہ بھی ہے اور ہرحال میں اخلاقی بھی۔ وہ انسانی ترقی جس نے ہم کو یہ ٹکنالوجی دی ہے کہ ہم نصف دنیا د±ور جاکر حملہ کریں، اس نظم و ضبط کا تقاضا بھی کرتی ہے کہ ہم طاقت کے استعمال کو قابو میں رکھیں یا پھر اس کے غلط استعمال کا اندیشہ مول لیں۔
اوباما صاحب نے صاف لفظوں میں اصرار کیا ہے کہ پاکستان پر حملے جاری رہیں گے۔ یہ اعلان ایک ایسے وقت آیا ہے جب 11مئی 2013 کے انتخابات میں عوام نے ان جماعتوں کو عبرت ناک شکست دی ہے جو امریکا کی اس جنگ میں اس کے معاون تھے اور پاکستان کی حاکمیت، آزادی اور سالمیت پر ان حملوں میں تعاون کر رہے تھے، یعنی ملوث تھے، یا کم از کم قوم کے مزاحمت کے مطالبے کے باوجود خاموش تماشائی بنے ہوئے تھے۔ جن جماعتوں کو کامیابی حاصل ہوئی ہے انھوں نے اپنی انتخابی مہم میں ڈرون حملوں کو ر±کوانے اور امریکا کی دہشت گردی کے نام پر اس جنگ میں سے پاکستان کو نکالنے کا وعدہ کیا ہے۔(جاری ہے) ٭