فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔۔۔ قسط نمبر118
یہی وجہ ہے کہ ابتدائی عمر ہی میں ہمارے مشاہدے نے ہمیں ایک پختہ زہن شخص سے بھی دانا بینا بنادیا۔ مگر ایسا بھی نہیں تھا کہ ظفر نے ہمیں راہب بنادیا تھا۔ وہ خود بھی رومانی مہمات میں مصروف رہتا تھا اور ہمیں تمام تفصیلات سے آگاہ رکھتا تھا۔ اس کے تجربات پر مبنی ایک مکمل ناول تحریر کی جاسکتی ہے۔ وہ ہمارا مشیر تھا ’’ظفر۔ وہ مالی کی لڑکی ہے نا۔ وہ کہہ رہی تھی کہ میاں جی۔ مجھے پڑھا دیا کرو‘‘۔
’’ہرگز نہیں۔ اس کے قریب بھی نہ جانا‘‘۔
’’مگر وہ تو چھوٹی ہے‘‘۔
’’چھوٹی نہیں، کھوٹی ہے۔ آپ نہیں جانتے وہ بڑی حرّ افہ ہے‘‘۔
’’ظفر برابر والی کوٹھی میں جو انگریز کیپٹن رہتے ہیں نا۔ اس کی لڑکی ڈولی کہتی ہے کہ تمہیں ہارس رائیڈنگ سکھادوں گی‘‘۔
’’وہ آپ کو کہاں ملی تھی؟‘‘ ظفر کے کان کھڑے ہوگئے۔
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔۔۔ قسط نمبر117 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’بھئی ہم کوٹھی کی پچھلی دیوار کے نزدیک امرودوں کے درختوں پر چڑھتے رہتے ہیں نا۔ وہ گھوڑے پر سوار وہیں سے تو گزرتی ہے۔ کہتی ہے میرے اصطبل میں دو بہت اچھی نسل کے گھوڑے ہیں کسی دن دیکھنے آجاؤ اور میرے ساتھ چائے پیو‘‘۔
’’میاں کہیں ایسا نہ کر بیٹھنا‘‘۔ ظفر نے پریشان ہوکر کہا۔ ’’وہ عمر میں آپ سے دو سال مگر تجربے میں بیس سال زیادہ ہے۔ ان میموں کا کوئی بھروسہ نہیں ہوتا۔ بس درختوں پر ہی سے ان سے بات کرنا ٹھیک ہے۔ کہیں نزدیک نہ چلے جانا۔ پھر کہیں کے نہ رہو گے‘‘۔
اس طرح ہر لڑکی کے معاملے میں ہم ظفر کو بتاتے اور وہ ہمیں دور رہنے کا مشورہ دیتے۔
ایک دن ہم نے کہا ’’ظفر۔تم خود تو باز نہیںآتے اور ہمیں نصیحت کرتے رہتے ہو‘‘۔
کہنے لگا ’’میاں اسی لئے تو نصیحت کرتا ہوں۔ مجھے کسی نے نصیحت نہیں کی تھی، اس لئے سولہ سال کی عمر میںیہ مزہ پڑ گیا اور پھر ایسا پڑا کہ گھر بار چھوڑا۔ تعلیم چھوڑی شہر چھوڑا، اب دیکھئے نا بیرا بن کر زندگی بسر کر رہا ہوں‘‘۔
’’مگر عشق تو ہر روز کرتے ہو‘‘۔
’’یہ کوئی تعریف کی بات تو نہیں ہے۔میاں یہ تو پہلے عادت بنی، پھر بیماری بن گئی۔ اسی چسکے نے زندگی برباد کردی‘‘۔
ظفر معمولی پڑھا لکھا تھا۔ تیس سال کی عمر کا ہوگا، چھوٹا قد، گندمی رنگ مگر تیکھے نقش اور گھونگریالے بال جو اس زمانے میں رومانٹک سمجھے جاتے تھے۔ ہر وقت بنا ٹھنا رہتا تھا۔ باتونی اتنا کہ ایک منٹ میں ہر ایک کو شیشے میں اتار لیتا تھا۔ وہ کئی سال سے ہمارے گھر میں بیرا تھا۔ اس کے کسی رشتے دار کا کبھی پتا نشان معلوم نہ ہوا۔ رومانی رشتے البتہ بے شمار تھے۔
ایک دن ظفر کو بازار جانا تھا۔ وہ ہمیں اسکول سے لینے آیا تو وہیں سے ہم دونوں بازار چلے گئے۔ اس کے پاس بھی سائیکل تھی اور ہم بھی سائیکل سوار تھے۔ اس زمانے میں ہم سائیکل بھی بڑی با وقار سواری تھی۔ ہر ایک کو نصیب نہیں ہوتی تھی۔ خوشحال لوگ بھی اپنے بیٹے سے یہی کہتے تھے کہ بیٹا میٹرک پاس کرکے کالج میں جاؤ گے تو تمہیں سائیکل لے دیں گے۔ اور بیٹا اس پر خوشی سے پھولا نہ سماتا تھا۔
ہمارے اسکول کے عقب میں تاڑی خانہ تھا جہاں نشے باز اکٹھے ہوتے تھے۔ ہم جب بھی اس کے سامنے سے گزرتے عجیب سی بدبو اور بہکے بہکے لوگ ہمارا استقبال کرتے تھے انمیں زیادہ تعداد نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کی تھی جنہیں ’’پلّے دار‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ پلّے دار نشہ کرنے کے باوجود بڑے سچے مسلمان تھے۔ کبھی ہندو مسلم فساد ہوتے تو یہ ہندوؤں کو ناکوں چنے چبوا دیتے تھے۔ محنت مزدوری کرکے پیٹ پالتے تھے مگر پیٹ سے پہلے انہیں ’’تاڑی‘‘ کا خیال آتا تھا۔
۔۔۔۔۔
مس ۵۶ء میں شمیم آرا بھی کام کر رہی تھیں مگر اس روز وہ سیٹ پر موجود نہیں تھیں۔ وہ ’’کنواری بیوہ‘‘ کی ہیروئن تھیں جو ہم نے نہیں دیکھی تھی۔ ان سے اس وقت تک ملاقات بھی نہیں ہوئی تھی۔ البتہ فلمی پرچوں میں ان کی تصویریں دیکھی تھیں۔ کراچی میں ان سے ’’نگار‘‘ ویکلی کے ایڈیٹر الیاس رشیدی صاحب کے توسط سے ملاقات ہوئی تو انہیں دیکھ کر بہت مایوسی ہوئی۔ سانولے رنگ کی ایک دبلی پتلی نازک سی لڑکی نہایت سادہ لباس پہنے ہوئے، شرمیلی اتنی کہ نگاہ ملا کر بات تک نہیں کرتی تھیں۔ آواز باریک اور بہت دھیمی، ہنسی ان کے پاس نہیں پھٹکتی تھی۔ بہت ہوا تو آہستہ سے مسکرادیں اور بس۔ ہنسنا یا قہقہہ لگانا تو جیسے ان کے لغت ہی میں نہیں تھا۔ بے حد کم آمیز اور کم گو۔ پہلی ملاقات میں انہوں نے برائے نام ہی گفتگو کی۔ سرجھکائے، نگاہیں نیچی کئے بیٹھی رہیں۔ جب تک کوئی سوال نہ کیا جائے وہ لب کشائی نہیں کرتی تھیں اور اس کے بعد بھی بہت مختصر سا فقرہ ادا کرکے چپ ہوجاتی تھیں۔ ان کی نانی اماں میر محفل تھیں۔ بڑی خود اعتماد اور رکھ رکھاؤ والی خاتون تھیں۔ گفتگو کرنے کا ڈھنگ جانتی تھیں۔ ہر ایک کا مرتبہ اور حیثیت پہچانتی تھیں اور اس کے مطابق برتاؤ کرتی تھیں۔ شمیم آرا سے پوچھے جانے والے بہت سے سوالات کا جواب بھی نانی اماں ہی دیتی رہیں۔
سچ پوچھئے تو شمیم آرا سے پہلی ملاقات نے ہمیں بہت مایوس کیا۔ انہیں دیکھ کر کوئی کہہ نہیں سکتا تھا کہ وہ فلم ایکٹریس ہیں۔ وہ تو عام گھریلو لڑکیوں سے بھی زیادہ سادہ، خاموش اور شرمیلی تھیں۔ الیاس بھائی نے ان کے بارے میں یہ معلومات فراہم کیں وہ اپنی نانی کے حکم اور اجازت کے بغیر کچھ نہیں کرتیں۔ یہاں تک کہ کھانے پینے اور پہننے اوڑھنے میں بھی نانی اماں ہی کا حکم چلتا تھا۔ بعد میں جب ان کے گھر میں آمد و رفت ہوئی تو ان باتوں کی تصدیق بھی ہوگئی۔ شمیم آراکی کوئی ذاتی رائے نہیں تھی۔ وہ شلوار قمیص پہنیں یا ساری باندھیں، نیلا رنگ استعمال کریں یا پیلا، بالوں کا جوڑا باندھیں یا چوٹی گوندھیں۔ سینڈل پہنیں یا چپل استعمال کریں۔ یہ سب فیصلے نانی اماں ہی کرتی تھیں۔ فلم سازوں سے ملاقات بھی وہی طے کرتی تھیں۔ ان کو شوٹنگ کیلئے تاریخیں بھی وہی دیتی تھیں اور ہر شوٹنگ پر شمیم آرا کے ہمراہ نگراں کے طور پر بھی جاتی تھیں۔ وہ شمیم کو ہر وقت اپنی نظروں میں رکھتی تھیں اور شمیم آرا کو بھی اس کا پورا احساس تھا۔ یہی وجہ ہے کہ کافی عرصے تک شمیم کی اپنی شخصیت پر نانی اماں کی ذات کا پردہ پڑا رہا۔ انہوں نے صحیح معنوں میں اس وقت خود اعتمادی کی پہلی منزل پر قدم رکھا تھا جب اپنی ذاتی فلم ’’صاعقہ‘‘ بنائی تھی۔
شمیم کو فلم سازی اور ہدایت کاری کا بہت شوق تھا مگر نانی اماں اس کے حق میں نہیں تھیں۔ جب انہوں نے فلم ساز بننے کا ارادہ کیا تو نانی نے شدید مخالفت کی۔ سمجھایا بجھایا مگر شمیم آرا نے شاید زندگی میں پہلی بار ضد کی تھی اور وہ اس پر قائم رہیں۔
نانی اماں انہیں فلم ساز بننے کے نقصانات سے آگاہ کرتی رہیں مگر بے سود۔ انہوں نے قریبی ملنے والوں سے درخواست کی کہ شمیم کو سمجھائیں کہ یہ حماقت نہ کریں۔
’’آفاقی صاحب کچھ آپ ہی اسے سمجھائیے۔ اب تک ہمارا ہاتھ لینے والا رہا ہے۔ دینے والا نہیں رہا۔ اس میں بہت بکھیڑے ہیں،نہ بابا۔ فلم پروڈیوسر بننا تو ایسے ہے جیسے ٹی بی لگا لو‘‘۔
مگر شمیم آرا نے جو فیصلہ کیا تھا اس پر قائم رہیں ’’صاعقہ‘‘ کی بے مثال کامیابی نے انہیں ایک نئی خود اعتمادی سے سرشار کردیا۔ اس کے بعد ان کی خوداعتمادی کا سفر شروع ہوا۔ یہاں تک کہ وہ اپنے پیروں پر کھڑی ہوگئیں اور نانی اماں کی حیثیت انگلستان کے بادشاہ یا ملکہ جیسی ہوکر رہ گئی۔ یعنی محض انگوٹھا لگانے والی رسمی بادشاہت، ہر قسم کے اختیارات سے محروم۔
شمیم آرا کے گھر دو تین با رجانے کا اتفاق ہوا۔ الیاس رشیدی صاحب ان کے مشیر خاص اور پرموٹر تھے۔ سچ تو یہ ہے کہ الیاس صاحب ہی نے شمیم آرا کو آگے بڑھایا۔ پبلسٹی دی۔ اچھے فلم سازوں سے ملایا اور ہر معاملے میں ان کی مدد کی۔ شمیم آرا اور ان کی نانی اماں بھی ہمیشہ الیاس صاحب کی معترف رہیں اور آج بھی شمیم آرا ان کا نام بے حد عزت و احترام سے لیتی ہیں۔
ہم نے محسوس کیا کہ نانی اماں کو یہ احساس ہوچکا ہے کہ اگر فلموں میں کام کرنا ہے تو شمیم آرا کو کراچی سے لاہور منتقل ہونا پڑے گا۔ ان ہی دنوں الیاس صاحب کے توسط سے شمیم آرا کو انور کمال پاشا جیسے فلمساز اور ہدایتکار کی فلم ’’انار کلی‘‘ میں کام کرنے کا موقع مل گیا اور یہ خاندان مستقل طور پر کراچی سے لاہور منتقل ہوگیا۔ کراچی میں شمیم آرا کے گھر پر جانے اور کھانا کھانے کا اتفاق ہوتا رہا۔ الیاس رشیدی صاحب، ابراہیم جلیس اور طفیل احمد جمالی بھی ہمراہ ہوتے تھے۔ وہاں خوب گپ بازی ہوتی۔ لطیفے سنائے جاتے، قہقہے لگتے مگر شمیم آرا ایک ہلکی سی مسکراہٹ تک ہی محدود رہتی تھیں۔ الیاس صاحب نے ہمیں بتایا کہ یہ لوگ عنقریب لاہور جانے والے ہیں۔ تم وہاں ان کا خیال رکھنا۔ جب رات گئے ہم شمیم آرا کے گھر سے واپس لوٹے تو ہم نے بڑے خلوص سے الیاس صاحب سے کہا ’’الیاس بھائی۔ یہ لوگ لاہور جاکر کیا کریں گے؟‘‘
’’ارے میاں وہ فلموں میں کام کریں گی اور کیا؟‘‘
ہم نے کہا ’’ہمیں تو کامیابی کے امکانات نظر نہیں آتے۔ بلاوجہ اپنا وقت اور پیسہ ہی ضائع کریں گے یہ لوگ‘‘۔
’’کیوں! ارے بھئی پاشا صاحب نے اسے ’’انارکلی‘‘ میں کاسٹ کرلیا ہے‘‘۔
’’تو پھر کیا ہوا؟‘‘ ہم نے کہا ’’وہاں مقابلہ بہت سخت ہے۔ یہ شمیم آرا کے بس کی بات نہیں ہے‘‘۔
الیاس صاحب سوچنے لگے۔ پھر بولے ’’آفاقی۔ اس لڑکی کو دیوانگی کی حد تک کام کرنے کا شوق ہے۔ سمجھدار بھی ہے‘‘۔
’’مگر ہیروئن والی شخصیت نہیں ہے۔ اتنی دبلی پتلی اور مختصر۔ بات تک تو کرنی نہیں آتی۔ اتنی خاموش اور شرمیلی لڑکی بھلا خاک ہیروئن بنے گی‘‘۔
مگر الیاس صاحب کو پورا یقین تھا کہ شمیم آرا فلموں میں ضرور کامیاب ہوگی اور شاید ان سے زیادہ پریقین خود شمیم آرا تھیں۔ بعد میں شمیم آرا نے اپنی لگن اور محنت سے فلمی دنیا کی سب سے اونچی چوٹی پر قدم رکھ کر اپنی صلاحیتوں کا ثبوت فراہم کردیا۔ ان کی چھپی ہوئی صلاحیتیں ایک ایک کرکے سامنے آنے لگیں۔ پہلے انہوں نے اداکاری کا میدان مارا۔ پھر فلم سازی کے میدان کو فتح کیا اور پھر ہدایتکار بنیں تو ایسی کہ مثال قائم کردی۔ کسی شاعر نے سچ کہا ہے:
کوشش کرے انسان تو کیا کر نہیں سکتا
پاکستانی فلمی صنعت کے ابتدائی دور میں جن نوجوانوں نے اپنی ہنرمندی اور صلاحیتوں کی وجہ سے نام اور مقام پیدا کیا ان میں ایک نام خلیل قیصر کا بھی ہے۔بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے ہاں ماضی سے رابطہ اور تعلق رکھنے کی روایات ختم ہوتی جا رہی ہیں۔ بالکل ابتدائی زمانے کی تو بات ہی کیا ہے، درمیانی عہد کے لوگوں کی یادیں بھی دھندلا سی گئی ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جو لوگ کسی شعبے میں ممتاز خدمات ادا کرگئے ہیں۔ آنے والی نسلوں کو ان کے کاموں اور کارناموں کے حوالے سے متعارف کرایا جائے لیکن یہاں تو وہ آپا دھاپی اور افرا تفری مچی ہوئی ہے کہ ہر ایک کو اپنی پڑی ہے۔ دوسروں کی طرف دیکھنے کی کسی کو فرصت ہے نہ توفیق۔ قومیں اپنی تاریخ کو بہت سنبھال کر رکھتی ہیں اور ان پر فخر کرتی ہیں۔ وہ اپنے قابلِ ذکر فرزندوں کو بھی فراموش نہیں کرتیں۔ مگر ہمارا یہ حال ہے کہ تاریخ واریخ تو پرانی باتیں ہیں بس ہمیں تو آج ہی سے سروکار ہے اور رہے قابلِ ذکر لوگ تو انہیں یاد کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ آج کیا ہو رہا ہے یہی ہمارے لئے کافی ہے۔ گزشتہ کل کیا ہوچکا اور آنے والے کل کیا ہونے والا ہے اس کی پروا کس کو ہے؟(جاری ہے)
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔۔۔ قسط نمبر119 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
(علی سفیان آفاقی ایک لیجنڈ صحافی اور کہانی نویس کی حیثیت میں منفرد شہرہ اور مقام رکھتے تھے ۔انہوں نے فلم پروڈیوسر کی حیثیت سے بھی ساٹھ سے زائد مقبول ترین فلمیں بنائیں اور کئی نئے چہروں کو ہیرو اور ہیروئن بنا کر انہیں صف اوّل میں لاکھڑا کیا۔ پاکستان کی فلمی صنعت میں ان کا احترام محض انکی قابلیت کا مرہون منت نہ تھا بلکہ وہ شرافت اور کردار کا نمونہ تھے۔انہیں اپنے عہد کے نامور ادباء اور صحافیوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا اور بہت سے قلمکار انکی تربیت سے اعلا مقام تک پہنچے ۔علی سفیان آفاقی غیر معمولی طور انتھک اور خوش مزاج انسان تھے ۔انکا حافظہ بلا کا تھا۔انہوں نے متعدد ممالک کے سفرنامے لکھ کر رپوتاژ کی انوکھی طرح ڈالی ۔آفاقی صاحب نے اپنی زندگی میں سرگزشت ڈائجسٹ میں کم و بیش پندرہ سال تک فلمی الف لیلہ کے عنوان سے عہد ساز شخصیات کی زندگی کے بھیدوں کو آشکار کیا تھا ۔اس اعتبار سے یہ دنیا کی طویل ترین ہڈ بیتی اور جگ بیتی ہے ۔اس داستان کی خوبی یہ ہے کہ اس میں کہانی سے کہانیاں جنم لیتیں اور ہمارے سامنے اُس دور کی تصویرکشی کرتی ہیں۔ روزنامہ پاکستان آن لائن انکے قلمی اثاثے کو یہاں محفوظ کرنے کی سعادت حاصل کررہا ہے)