”کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے“
سپریم کورٹ کے حکم پر پانامہ کیس کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے وزیراعظم میاں نواز شریف کے صاحبزادے حسین نواز کی تصویر افشاءکرنے کے حوالے سے اپنی تفصیلی سربمہر رپورٹ عدالت عظمیٰ میں گزشہ روز جمع کروادی۔ اگرچہ اس رپورٹ کے مندرجات کا علم نہیں ہوسکا تاہم میڈیا سے منسلک افراد اس پر اپنے ذرائع سے معلومات لے کر رائے زنی کررہے ہیں۔ بتایا جارہا ہے کہ رپورٹ میں اس قسم کی تفصیلات درج ہیں کہ حسین نواز کی تصویر کیسے لیک ہوئی، کس نے کی اور سوشل میڈیا تک کیسے پہنچی۔ عدالت عظمیٰ کے فاضل بنچ نے یہ رپورٹ منظر عام پر لانے کی پابندی تو عائد نہیں کی تاہم اتنے ریمارکس ضرور دیئے کے اٹارنی جنرل کو اعتراض نہ ہو تو وہ یہ رپورٹ پبلک کرسکتے ہیں۔ عدالت نے یہ استفسار بھی کیا کہ اٹارنی جنرل رپورٹ کا جائزہ لیں اور اس حوالے سے معاونت کریں کہ جس شخص نے تصویر لیک کی اس کے خلاف کیا کارروائی عمل میں لائی جاسکتی ہے۔ جے آئی ٹی کی طرف سے پیش کردہ رپورٹ نامکمل معلوم ہوتی ہے اور اس میں کئی سقم موجود ہیں۔ یہ رپورٹ کئی سوالیہ نشان بھی چھوڑ گئی ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اس شخص کا نام رپورٹ میں موجود ہی نہیں جو تصویر بنانے اور اسے سوشل میڈیا تک پہنچانے کا ذمہ دار ہے۔ یہ تو درج ہے کہ یہ تصویر 28 مئی کو دوران تحقیقات جوڈیشل اکیڈمی کے احاطے میں ہی اتاری گئی اور 5 مئی کو سوشل میڈیا، الیکٹرونک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کی زینت بنی لیکن اس امر کا کہیں تذکرہ نہیں کہ تصویر کس نے بنائی، کس مقصد کے تحت پبلک کی گئی اور پس پردہ محرکات کیا ہیں؟ رپورٹ میں صرف یہ بتایا گیا ہے کہ تصویر بنانے اور لیک کرنے کے ذمہ دار شخص کے خلاف 24 گھنٹے کے اندر کارروائی عمل میں لائی گئی اور اسے تفویض کردہ عہدے سے ہٹا کر واپس اصل محکمے میں بھیج دیا گیا۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ اس شخص کا نام کیا ہے اور اس کا تعلق کس ادارے سے ہے وہ جے آئی ٹی یا جائے تحقیقات (جوڈیشل اکیڈمی) میں کس منصب پر تعینات تھا اور اسے سزا دی جانے کے بعد کون سے محکمے میں واپس بھیجا گیا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ اس شخص کا نام کسی خاص مقصد کے تحت صیغہ راز میں رکھا جارہا ہے ۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ سپریم کورٹ میں اس حوالے سے ابتدائی رپورٹ تصویر لیک ہونے کے اگلے ہی روز پیش کردی گئی تھی لیکن کسی بھی ادارے کی طرف سے یہ سوال نہ اٹھایا جانا کہ ذمہ دار کون ہے ذہن میں کئی سوالات جنم دے رہا ہے۔ اس سارے معاملہ میں ایک اہم امر یہ بھی ہے کہ جے آئی ٹی میں پانامہ کیس کی تحقیقات پر تصویر لیکیج کی دبیز تہہ چھائی جارہی ہے اور حسین نواز کی تصویر تحقیقات پر غالب ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم اصل ایشو سے توجہ ہٹا کر سائیڈ ٹریک پر نکل پڑیں۔ ویسے تو جے آئی ٹی نے جو رپورٹ جمع کروائی ہے اور اس کے جو مندرجات لیک ہوکر میڈیا تک پہنچے ہیں ان کے مطابق مشترکہ ٹیم نے تصویر لیک کرنے کے حوالے سے سامنے آنے والے مختلف الزامات مسترد کردیئے اور اس حوالے سے کسی قسم کی بظاہر ذمہ داری بھی نہیں لی۔ اس سارے معاملے کے بعد حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ایک مرتبہ پھر سخت محاذ آرائی شروع ہوگئی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف ایک مرتبہ پھر دونوں آمنے سامنے ہیں۔ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے ایک مرتبہ پھر وزیراعظم سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہے اور اپنے پرانے مطالبے میں یہ اضافہ بھی کردیا ہے کہ وزیراعظم جے آئی ٹی میں پیشی یعنی جمعرات سے پہلے استعفیٰ دے دیں۔ اس ساری صورتحال کا نتیجہ کیا نکلتا ہے یہ تو وزیراعظم کی پیشی کے بعد ہی سامنے آئے گا۔ یہ خیال بھی ظاہر کیا جارہا ہے کہ عید کے فوری بعد پاکستان تحریک انصاف، پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ق)، پاکستان عوامی تحریک سمیت دیگر سیاسی جماعتیں حکومت مخالف تحریک کا شد و مد سے آغاز کرسکتی ہیں، عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری کی وطن واپسی سے اس ممکنہ تحریک کو تقویت ملتی ہے۔