علی گڑھ سے کشمیر تک بھارت سے آزادی کے نعرے
ایک ٹی وی چینل کی ایک خاتون اینکر ایک وڈیو دکھا کر ناظرین سے بڑے غصے میں مخاطب ہے، ہم آپ کوایک ایسی ویڈیو دکھانے جا رہے ہیں۔۔۔جسے دیکھنے کے بعد آپ سوچ میں پڑجائیں گے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی بھارت میں ہی ہے یا پاکستان میں جہاں بھارت سے آزادی کے نعرے لگ رہے ہیں۔۔۔ میں چاہوں گی کہ آپ ایک بار غور سے سنیں ان دیش دروہی (ملک دشمن) نعروں کو۔۔۔ ان لوگوں کو بھارت سے آزادی چاہئے، ان دیش دروہی لوگوں سے کوئی یہ پوچھے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں جو بجلی آتی ہے، وہ بھارت سے آتی ہے یا پاکستان سے؟۔۔۔ جو پانی یہ لوگ پیتے ہیں۔۔۔ وہ پاکستان سے آتا ہے یا بھارت سے؟۔۔۔ جن لوگوں کوآزادی چاہیے۔۔۔ وہ پاکستان جاسکتے ہیں۔۔۔آپ سن سکتے ہیں کہ اس طرح کا شیڈیم(منظر) دیش میں چل رہا ہے۔۔۔ اس طرح سے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں آزادی کے نعرے لگ رہے ہیں‘‘۔
(پوری ویڈیو میں ہزاروں لوگ جن میں خواتین کی بڑی تعداد بھی شامل ہے، بڑے جوش وخروش سے بھارت سے آزادی کے کورس نما نعرے لگا رہے ہیں)
قارئین کرام! یہ ویڈیو کسی پاکستانی چینل کی نہیں ہے(کیونکہ ہمارے چینل تو الا ما شاء اللہ بھارت کے خلاف ایسی کوئی چیز نشر کرنے کاسوچ بھی نہیں سکتے)اور نہ یہ خاتون اینکر کوئی پاکستانی ہے،بلکہ یہ بھارتی خاتون اینکر ہے جوچیخ چیخ کراپنے ہم وطن بھارتیوں کوبتارہی ہے کہ دیکھئے کیاحال ہوگیا ہے ہمارے دیش کا جس دیش سے لوگ بجلی لیتے ہیں اورجس کاپانی پیتے ہیں،اسی دیش کے ہزاروں لوگ سرعام ایک بہت بڑے جلوس میں بھارت سے آزادی کے فلک شگاف نعرے بھارت کے اندر کھڑے ہوکر لگارہے ہیں۔
یہ جلوس کوئی چھوٹاموٹا بھی نہیں تھا جیسے چند افراد اکٹھے ہوگئے اور کسی کے خلاف نعرے لگاکر بھاگ گئے،بلکہ میڈیا کے مطابق یہ 40ہزار افراد کاجلوس تھا،جس میں طلبہ کے ساتھ ساتھ طالبات کی بڑی تعدادبھی شامل تھی اور یہ سب ایک کورس کے اندازمیں، آزادی۔۔۔ آزادی۔۔۔آزادی ’’بھارت سے آزادی‘‘ بھگوا سے آزادی اور ہندوتوا سے آزادی کے پرجوش نعرے لگارہے تھے ۔۔۔بالکل انداز ایساتھا،جیسے کشمیرمیں ہوتاہے۔مظاہرین اس بات پرمشتعل تھے کہ یونیورسٹی کے میوزیم نماطلبہ ہال میں سے متعصب ہندؤوں، بی جے پی اورمودی حکومت کے ایما پر قائداعظمؒ کی تصویرکیوں ہٹائی گئی۔ یوں ان مظاہرین میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ معتدل ہندؤوں نے بھی بڑی تعدادمیں حصہ لیا۔
ان متعصب ہندؤوں کو سوچناچاہئے تھاکہ پاکستان نے توکبھی اپنے کسی میوزیم سے گاندھی کی تصویرنہیں ہٹائی،ہمیشہ اعلیٰ ظرفی اور رواداری کامظاہرہ کیا، لیکن جب انسان کے دماغ میں تعصب کا زہرسرایت کرجائے تو اسے کوئی جائز سے جائز بات بھی سمجھ نہیں آتی، پھر اس کانتیجہ ہوتاہے کہ خود اپنی قوم بھی ایسے متعصب لوگوں کے خلاف ہوجاتی ہے۔ بھارت کا یہی حال زعفرانی ہندو انتہاپسندوں اوربھگواپرستوں کے ہاتھوں پوری دنیاکے سامنے ہے ۔
یہ وڈیو دیکھ کریوں لگتاہے جیسے بھارت کشمیر بن گیاہو، ویسے بھارتی یونیورسٹیوں میں بھارت سے آزادی کے نعرے صرف علی گڑھ یونیورسٹی میں نہیں لگے،اس سے صرف دوسال پہلے فروری 2016ء میں بھارت کی سب سے بڑی یونیورسٹی جواہرلال یونیورسٹی اور بھارت کی دیگر 40 یونیورسٹیوں میں بھی ایسے ہی مناظرپیدا ہوچکے تھے،اْس وقت یہ لوگ افضل گورو کی ناحق پھانسی کے خلاف سراپا احتجاج تھے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ان مظاہرین کی قیادت بھی کوئی مسلمان نہیں، بلکہ طلبہ یونین کاایک ہندو صدرکنہیا کمار کررہاتھا۔کئی مسلمان طالب علموں سمیت اسے بھی گرفتار کرلیا گیا، یہاں تک کہ بھارتی ٹی وی چینل کی دھمکی پرعمل کرتے ہوئے علی گڑھ یونیورسٹی کی بجلی اور پانی بھی بند کردیا گیا۔
ان متعصبانہ اقدامات کے نتیجے میں یہ مظاہرے دہلی سے نکل کر پورے بھارت کی 40 یونیورسٹیوں تک پھیل گئے اور ہرطرف چھین کے لیں گے آزادی۔۔۔ہرفرد مانگے۔۔۔ آزادی۔۔۔ کشمیر کی آزادی تک۔۔۔جنگ رہے گی۔۔۔ جنگ رہے گی‘‘۔۔۔بھارت کی بربادی تک جنگ رہے گی،جنگ رہے گی،پاکستان زندہ باد، پاکستان پائندہ بادکے فلک شگاف نعرے لگائے جانے لگے۔
جب طلبہ یونین کے صدر کنہیاکمار کو گرفتار کیا گیاتوبھارت کی26یونیورسٹیوں کے طلبہ اور اساتذہ نے کلاسوں کابائیکاٹ کردیا اور منظم مظاہرے شروع کر دئیے۔مرکزی وزیر داخلہ راجناتھ نے ان مظاہرین کے پیچھے جماعت الدعوۃکے امیرپروفیسرحافظ محمدسعید کے ٹویٹ کوموردِ الزام ٹھہرایا، حالانکہ اگلے روز خود بھارتی میڈیا نے ہی اس ٹویٹ کوجعلی قرار دے کر وزیرداخلہ کے غبارے سے ہوانکال دی تھی۔
بعدازاں عدالت میں پیشی کے موقع پرکنہیاکمار پربی جے پی کے غنڈوں نے وکلا کے روپ میں حملہ کیا اور تشددکیا تواس سے طلبہ تنظیمیں مزید سیخ پا ہوگئیں۔کلکتہ یونیورسٹی کے بھی ہزاروں طلبہ نے اس پرزبردست احتجاج کیا اور ڈی سی کلکتہ کے دفترتک مارچ کیا،اس دوران کلکتہ کی فضابھی ’’ہم چھین کے لیں گے، آزادی‘‘ کے نعروں سے گونج اٹھی۔اس موقع پر افضل گورو اورپاکستان کی حمایت میں بھی نعرے لگے، جبکہ اسی روزنئی دہلی کی ٹیچرز ایسوسی ایشن نے بھی طلبہ کی حمایت میں جلوس نکالا۔۔۔بھارتی دارالحکومت میں ان مظاہرین نے جواہرلال یونیورسٹی کے وائس چانسلر سے ملاقات کی اورانسانی ہاتھوں کی زنجیر بناکر کنہیاکمار سے اظہارِیکجہتی کیا،جبکہ تامل ناڈو، مغربی بنگال اور کیرالہ کے علاوہ دیگر ریاستوں میں بھی ہزاروں طلبہ سڑکوں پرنکل آئے۔ہر افضل مانگے آزادی۔۔۔گیلانی مانگے آزادی۔۔۔ہم چھین کے لیں گے آزادی۔۔۔ جبکہ آر ایس ایس ،بی جے پی مردہ باد۔۔۔مودی سرکارسے جان چھڑاؤ کے نعرے زبان زد عام رہے ۔
چنددنوں بعدبھارت کی دیگر شورش زدہ ریاستیں بھی پاکستان زندہ باد کے نعروں سے گونجنے لگیں، حتی کہ امریکہ کی برکلے یونیورسٹی میں بھی پاکستان زندہ باد کے نعرے پہنچ گئے، دوسری طرف منی پور اور ناگالینڈ میں ’’ریڈیکل‘‘ نامی ایک گروپ نے راتوں رات آزادی کے پوسٹر چھاپ کردونوں ریاستوں کے درودیوار پرچسپاں کردئیے۔
غرض وہ بھارت جوآئے دن جاوبیجا پاکستان میں مداخلت کرتارہتاہے اور یہاں کلبھوشن جیسے دہشت گردوں کوبھیج کراپنے مذموم عزائم پورے کرنا چاہتا ہے، بلوچستان اورملک کے دوسرے حصوں میں دھماکے اور قتل وغارت کراکے آگ لگاناچاہتاہے،پاکستان میں خانہ جنگی کراناچاہتاہے،اسے یہ سب کرتوت کرنے سے پہلے ہزار بار سوچنا چاہیے کہ خود بھارت کے اندر ان فسطائی اورظالمانہ پالیسیوں کے خلاف کس قدر نفرت اور بے چینی ہے۔
اس وقت بھارت کے اندر کم وبیش 200 کے قریب علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں۔ کشمیر،خالصتان، میزورام، جھاڑکھنڈ،آسام، ناگالینڈ، منی پور۔۔۔ غرض بھارت میں علیحدگی کی تحریکوں کی ایک طویل فہرست ہے، جن کی تعداد دنیاکے کسی بھی ملک میں چلنے والی علیحدگی پسندوں کی تحریکوں کی تعداد سے کئی گنا زیادہ ہے۔
مودی کوچاہئے کہ وہ پاکستان پرانگلیاں اٹھانے سے پہلے اورکشمیری وبھارتی عوام پرظلم ڈھانے سے پہلے نوشتہ دیوار ایک بار ضرور پڑھ لے،اب بھی وہ اپنے مظالم اوربرہمنی چا نکیائی ہتھکنڈوں سے بازنہ آیاتویادر رہے ، پھر بھارت کے اتنے ٹکڑے ہوں گے کہ انہیں کوئی گن بھی نہیں سکے گا۔ ان شاء اللہ۔