انتخابات تو ہونے ہی چاہئیں!

انتخابات تو ہونے ہی چاہئیں!
انتخابات تو ہونے ہی چاہئیں!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

خدا خدا کر کے منتخب حکومتوں کی آئینی مدت پوری ہوئی تو ایک نیا مسئلہ کھڑا ہو گیا ہے کہ انتخابات کچھ عرصے کے لئے ملتوی یا موخر کر دیئے جائیں۔ جواز یہ پیش کیا جاتا ہے کہ 25جولائی کو گرمی بہت زیادہ ہو گی، مون سون کی وجہ سے بارشوں کا موسم بھی ہو گا اور یہ کہ رمضان المبارک کے بعد سیاسی جماعتو ں کے پاس انتخابی مہم چلانے کے لئے وقت بہت تھوڑا بچے گا۔

بندہ پوچھے، جب حکومتوں کا وقت ختم ہو رہا تھا اور جب اگلے انتخابات کے لئے وقت کا تعین کیا جا رہا تھا تو اس وقت آپ کہاں تھے؟ اب جبکہ کاغذات نامزدگی بھی جمع ہوگئے ہیں اور سکروٹنی شروع ہونے والی ہے تو ایسے وقت میں انتخابات کا عمل موخر کرنے کا کیا ٹھوس، منطقی اور دِل کو لگنے والا جواز ہو سکتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ پی ٹی آئی سمیت کوئی سیاسی جماعت یا سیاسی رہنما الیکشن ملتوی یا موخر کرنے کے حق میں نہیں۔

نواز شریف سے لے کر عمران خان اور آصف علی زرداری سے لے کر ایم کیو ایم پاکستان تک سبھی اس بات پر متفق ہیں کہ الیکشن کے لئے جو تاریخ مقرر کی گئی ہے، وہ ٹھیک ہے اور الیکشن اس سے ایک دن بھی آگے نہیں ہونے چاہئیں۔

اب انتخابی مہم سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں نے چلانی ہے۔ اس کے لئے وقت کم ہے یا زیادہ، یہ بھی انہیں معلوم ہے اور اس بارے میں وہی فیصلہ کر سکتے ہیں۔ اب اگر انہیں الیکشن مہم کے لئے وقت کم ہونے پر اعتراض نہیں ہے تو دوسروں، جن کا نہ انتخابات سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی عوام سے ، کے پیٹ میں کیوں مروڑ اٹھ رہے ہیں۔

وہ کیوں الیکشن موخر کرانا چاہتے ہیں؟ یہ قوتیں پتہ نہیں کس مقصد کے تحت الیکشن کو آگے لے جانا چاہتی ہیں۔ مجھے محسوس یہ ہوتا ہے کہ یہ قوتیں ایک تو تمام تر ہتھکنڈوں کے باوجود مسلم لیگ (ن) کی انتخابی طاقت کو کم کرنے میں ناکام رہی ہیں، لہٰذا ۔۔۔خوف ہے کہ کہیں مسلم لیگ(ن) پھر جیت کر برسر اقتدار نہ آ جائے۔ ایسا ہو گیا تو ظاہر ہے قانون و آئین شکنوں کی شامت آ جائے گی۔ شاید اسی وجہ سے وہ الیکشن کو آگے لے جانا چاہتے ہیں۔
دوسری وجہ جمہوریت کے عمل کو متاثر کرنا بھی ہو سکتا ہے تاکہ اس کے اثرات کو کم کیا جا سکے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ منتخب حکومتوں کے جاتے ہی لوڈشیڈنگ میں یکدم اضافہ ہو گیا۔

سوچنے کی ضرورت ہے کہ اس کا سبب منتخب حکومتوں کو ناکام ثابت کرنا تو نہیں؟تسلیم کیا جاتا ہے کہ جمہوریت کی سب سے زیادہ جامع اور مختصر تعریف سولہویں امریکی صدر ابراہم لنکن نے کی تھی۔

ان کے الفاظ ہیں: ’’لوگوں کی حکومت، لوگوں کے ذریعے، لوگوں کے لئے‘‘۔۔۔ سادہ ترین لفظوں میں جمہوریت کی تعریف صرف اتنی ہی ہے کہ لوگوں کی رائے سے نظام ترتیب دینے کو جمہوریت کہا جاتا ہے، یا آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ لوگوں کی رائے سے کئے گئے فیصلے کو جمہوری فیصلہ کہا جاتا ہے۔۔۔ تو پھر جب سبھی جمہوریت کا دم بھرتے ہیں اور اس کی حمایت میں بولنے کا کوئی موقع ضائع نہیں جانے دیتے تو الیکشن کے حق میں اٹھنے والی آوازوں کو کیوں دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

الیکشن کو ملتوی یا موخر کرانے والوں کا مسئلہ کیا ہے؟تھوڑی سی توجہ حکمرانوں کو اپنے طرز عمل پر دینے کی بھی ضرورت ہے۔ یہ تو کوئی بات نہ ہوئی کہ عوام کے ووٹروں سے منتخب ہو کر آنے والے خود کو بادشاہ سمجھنے لگیں۔

ٹھیک ہے سیکیورٹی کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں اور یہ تقاضے پورے بھی ہونے چاہئیں، لیکن سیکیورٹی کے نام پر عوام کو دوسرے درجے کے شہری ہونے کا احساس دلانا بھی کوئی اچھی بات نہیں۔ پھر ہر سرکاری ادارے میں جو کچھ ہو رہا ہے، اسے بھی ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔
ہونا تو یہ چاہئے کہ جمہوریت عوام کو سوالات کرنے کی اجازت دے، وہ پوچھ سکیں کہ ان کے ووٹوں کے زور پر منتخب ہونے والے ان کے لئے کیا کر رہے ہیں۔ انہیں حکومت کی کارکردگی اور طویل مدتی قومی منصوبوں، خارجہ پالیسی سمیت سب اہم معاملات کا جواب بھی ملنا چاہئے۔

سیاسی جماعتوں میں داخلی سطح پر بھی جمہوریت ہونی چاہئے۔ داخلی جمہوری عمل کی کمی سیاسی پارٹیوں کے اندر پارٹی کے آفیشلز، اسمبلی کی سیٹوں اور وزیراعظم کے عہدے کے لئے نامزدگی کے طریقہ کار سے بھی بالکل واضح ہے۔

یہ بھی سب کے مشاہدے میں ہے کہ اکثر و بیشتر ، پارٹی کے سربراہ اور ان کے قریبی رشتہ دار انتخابات سے پہلے اور بعد میں پارٹی پر اپنی آہنی گرفت برقرار رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

انتخابی پارٹیوں کے لئے جمہوری طرز عمل کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت کے علاوہ،یہ بھی اتنا ہی اہم ہے کہ انتخابات شفاف ہوں اور کسی کو ان میں شک بھی نہ ہو اور پارٹی کی ساخت کے لئے بھی اس سلسلے میں اقدامات کرنا ضروری ہے۔

یہ کہنے کی ضرورت اِس لئے محسوس ہوتی ہے کہ اسی طرح کے معاملات کو بنیاد بنا کر بعض قوتیں جمہوریت اور سیاسی جماعتوں کے خلاف باتیں کرنا شروع کر دیتی ہیں۔

جب حکومتی معاملات ٹھیک ہوں گے تو کوئی بھی سیاسی عمل کے خلاف آواز بلند کرنے کے قابل نہیں رہے گا۔ اس سلسلے میں کچھ ذمہ داری ووٹر حضرات پر بھی عائد ہوتی ہے۔

اگر وہ وقتی اور نجی مفادات کے تحت اپنے ووٹ کا سودا نہ کریں تو ان کے مسائل حل ہو جائیں اور انہیں پچھتانا بھی نہ پڑے کہ کن لوگوں کو حکمران منتخب کر لیا ہے۔ تو طے یہ پایا کہ انتخابات وقت پر ہونے چاہئیں اور ان میں عوام کو اچھے نمائندے منتخب کرنے چاہئیں۔

مزید :

رائے -کالم -