بھٹو صاحب کی اسیری کے دوران ڈسٹرکٹ جیل راولپنڈی کے تحفظ کی خاطر محکمہ جیل خانہ جات‘ پولیس اور فوج کی درج ذیل فورسز تعینات رہیں۔
محکمۂ جیل خانہ جات(الف) سپرنٹنڈنٹ جیل راولپنڈی کی سرکردگی میں سنٹرل جیل کا موجودہ اسٹاف...(ب) انسپکٹر جنرل جیل خانہ جات نے سپرنٹنڈنٹ جیل راولپنڈی کو مزید50 وارڈز کی اضافی فورس بھی بھیج دی۔
بھٹو کے آخری ایّام , پاکستان کے سابق وزیر اعظم کی جیل میں سکیورٹی پر مامور کرنل رفیع الدین کی تہلکہ خیز یادداشتیں . . . قسط نمبر 2 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
محکمہ پولیس
(الف) ایس ایس پی راولپنڈی کی سر کردگی میں ضلعی پولیس ...(ب) ایس ایس پی راولپنڈی کو پولیس ٹریننگ کالج سہالہ سے پانچ سو سپاہیوں پر مشتمل ایک اضافی پولیس فورس بھی مہیا کر دی گئی۔...(ج) آئی جی اور ڈی آئی جی کی ریزرو فورس میں سے (500) مزید جوان بھی ایس ایس پی راولپنڈی کے ما تحت کر دیئے گئے۔
محکمہ فوج
(الف)27 پنجاب رجمنٹ کو بطور سیکیورٹی بٹالین متعین کیا گیا۔....(ب) ایک کمپنی ایکس3 ایف ایف رجمنٹ کو بطورسپیشل ٹاسک فورس متعین کیا گیا۔
(ج) بیٹری94 لائٹ اینٹی ایئر کرافٹ رجمنٹ کو بطورسپیشل ٹاسک فورس متعین کیا گیا۔ ....فرائض۔ سیکیورٹی فورس کو مندرجہ ذیل غیر متوقع حادثات سے فوری طور پر عہدہ برآ ہونے کامشن سونپا گیا۔
(الف) بڑے مجرم ذوالفقار علی بھٹوکا اقدامِ خودکشی۔
(ب) بڑے مجرم کے پانی یا خوراک میں زہر خورانی سے یاجیل کے اندر یا جیل سے سپریم کورٹ آتے جاتے دھماکہ خیز مادہ سے یا پھر جیل سے سپریم کورٹ آتے جاتے پہلے سے طے شدہ منصوبہ کے مطابق سڑک پر حادثہ کے ذریعے قتل کی سازش۔ ان متوقع اقداماتِ قتل میں ذوالفقار علی بھٹو کو سیکیورٹی وارڈ یاپورے جیل میں آتش زنی کے ذریعے ہلاک کرنے کا اقدام بھی پیشِ نظر تھا۔
(ج) سیکیورٹی وارڈ میں سرنگ لگا کرفرار ہونے یا بھگا لے جانے کی کوشش۔
(د) زمینی حملے سے اغواء کی کوشش۔
(ر) ہوائی حملے کے ذریعے اغواء کی کوشش۔
(س) با ہر کی مدد یاباہر کی مدد کے بغیر جیل کے اندر فساد برپا کر کے یا غدر مچا کر مسٹر بھٹو کی رہائی کی کوشش۔
(ص) جیل یا سپریم کورٹ پر یا راستے میں عوامی ہجوم کا حملہ۔
جیل‘ پولیس اور فوج کی سیکیورٹی فورس کو ان تمام متوقع کارروائیوں کی صورت میں درجِ ذیل واضح اور قطعی ذمہ داریاں تفویض کی گئی تھیں۔
(الف) جیل کے اندر داخل ہونے کے بعدجیل کی چار دیواری میں بڑے قیدی مجرم کے تحفظ کی تمام تر ذمہ داری جیل حکام پر تھی۔ سپرنٹنڈنٹ جیل اوراس کے ماتحت عملہ کودرجِ بالا کسی بھی ہنگامی صورتحال میں ذوالفقار علی بھٹو کی پوری حفاظت کا ذمہ دار قرار دیا گیاتھا۔
(ب) جیل سے باہر مسٹر بھٹو کی حفاظت کا فریضہ راولپنڈی ڈ سٹرکٹ پولیس کے ذمہ تھا۔ جیل سے سپریم کورٹ تک اور سپریم کورٹ کے اندر حفاظت کی ذمہ داری ایس ایس پی راولپنڈی اور اس کے زیرِ کمان پولیس فورس پر عائد تھی‘ اوریوں ایس ایس پی کسی بھی ہنگامی صورتحال کیلئے تیار رہتا تھا۔
(ج) ان کارر وائیوں کی نگرانی‘ انتظام اور بروقت رہنمائی فوج کے ذمہ تھی۔ سیکیورٹی بٹا لین کمانڈر کو مارشل لاء کی جانب سے حفاظتی اقدامات کی اعلٰی تر نگرانی کا کام سونپا گیا تھا۔
خفیہ آلات۔ مئی1978ء کے دوسرے ہفتے میں یعنی بھٹو صاحب کی پنڈی جیل میں آمد سے صرف چند روزپیشتر مجھے اطلاع دی گئی کہ ایک انٹیلی جنس ایجنسی کی طرف سے فلاں صاحب ضروری سازوسامان کے کر آئیں گے اور سیکیورٹی وارڈ کی اس کوٹھڑی میں‘ جہاں بھٹو صاحب کو رکھنا مقصود ہے‘ کچھ خفیہ آلات نصب کریں گے‘ تا کہ سیکیورٹی کا جامع اور مکمل بندوبست ہو سکے۔ چنانچہ اگلی صبح ایک ڈائیریکٹر کے ہمراہ دو ٹیکنیشنز آئے اور انہوں نے اس کوٹھڑی کی دیوار میں خفیہ جاسوسی حالات نصب کیے جس میں بھٹو صاحب کو رکھا جانا تھا۔ یہ آلات وائرلیس( Wireless ) کے علاوہ زیرِزمین تار سے بھی جوڑ دیے گئے جو جیل سپرنٹنڈنٹ کے دفتر کے متصل کمرہ میں لے جایا گیا۔ ایک دو ہفتوں بعد یہ زیرِزمین تاربڑھا کر میری پلٹن کے ہیڈ کوارٹر کے ایک کمرے تک بھی پہنچا دیا گیا‘ تا کہ جیل میں کسی کو بھی معلوم نہ ہوسکے کہ ان خفیہ آلات سے کس وقت کام لیا جاتا ہے اورکس وقت ڈیوٹی پر انٹیلی جنس کے خاص آدمی موجود نہیں ہوتے۔ شروع شر وع میں یہ آلات پورا دن اور گئی رات تک کام کرتے رہے مگر چند ہفتوں بعد چونکہ بھٹو صاحب کے پاس رات کو کوئی آدمی نہیں جاتا تھا اس لئے آپریٹر ز ان آلات کوشام آٹھ نو بجے کے قریب بند کرکے واپس چلے جاتے اور پھر صبح آکر تمام دن نگرانی کی جاتی۔ خرابی یاترمیم کی حالت میں
آلات تک پہنچنے کیلئے سیکیورٹی وارڈ کے شمالی دو کمرے ایک نئی دیوار تعمیر کرکے الگ کر دیئے گئے اور انہیں جیل کے ہر شخص آؤٹ آف باؤنڈایریا ( Out of Bound Area ) قرار دیدیا گیا تا کہ یہ خفیہ آلات ان کی پہنچ سے باہر اور محفوظ رہیں۔
یہ تھے وہ حفاظتی اقدامات جو اسیری کے دوران بھٹو صاحب کی حفاظت کو یقینی بنانے کیلئے ان کو سنٹرل جیل راولپنڈی لانے سے پہلے عمل میں لائے گئے۔ ویسے ان کی اسیری کے دوران نت نئے واہمے اور مفروضے جنم لیتے رہے اور ان کے توڑ بھی صادر ہوتے رہے۔ یوں محسوس ہوتا تھا جیسے ذوالفقار علی بھٹو کی شخصی ہیبت عوامی مقبولیت کی شدید دہشت طاری ہے اور ان تہہ در تہہ حفاظتی اقدامات کے باوجود کسی غیر متوقع اور اچانک اقدام سے بھٹو صاحب کے بچ نکلنے کے کئی امکانات موجود ہوں۔
سنگ و آہن کی دیواروں اور فولادی چھتوں کے اندر محبوس ایک شخص کی نگرانی پر مامور دائرہ در دائرہ مسلّح دستوں کی موجودگی نے بھی ہماری نیندیں حرام کر رکھی تھیں۔ لیکن دوسری طرف جب میں بھٹو صاحب کی طرف دیکھتا تو وہ ہمیشہ مجھے بے پروائی اور بے نیازی ہی کے عالم میں نظر آتے۔(جاری ہے )
کمپوزر: طارق عباس