’’کیا واقعی علماء انبیائے کرام کے وارث ہوتے ہیں ؟ ‘‘وہ وقت جب سلطان محمود غزنوی کے دل میں خطرناک شبہات نے جنم لیا تو سرکاردوعالم ﷺ اسکے خواب میں تشریف لائے اور فرمایا کہ ۔۔۔
معروف فارسی مورخ قاضی منہاج سراج جوزجانی نے لکھا ہے کہ سلطان محمود غزنویؒ کو تین شبہات تھے۔ پہلا شبہ اس حدیث کی صحت کے متعلق تھا کہ ’’علماء انبیائے کرام کے وارث ہیں ‘‘ واقعی حدیث ہے یا نہیں ؟دوسرا شبہ قیامت کے بارے میں تھا کہ قیامت واقعی آئے گی یا نہیں؟تیسرا شبہ اس ضمن میں تھاکہ حقیقت میں سبکتگین میرا باپ ہے یا نہیں اور میں اس کا بیٹا ہوں یانہیں؟
ایک رات محمود غزنوی قیام گاہ سے نکل کر اپنے ساتھیوں کے ہمراہ شاہی شمع روشن کیے ہوئے کہیں جا رہے تھے کہ راستے میں انہیں ایک ایسا طالب علم ملا ، جو دیا جلانے کے لیے روغن نہ ہونے کے باعث اندھیرے میں بیٹھا اپنا سبق یاد کر رہا تھا۔ جب کتاب میں دیکھنے کی حاجت ہوئی تو قریب میں ہندو کے چراغ کے پاس جا کر دیکھتا اور واپس آجاتا۔ محمود کو اس نادار طالب علم کی حالت پہ بڑا رحم آیا ۔ ترس کھا کر انہوں نے وہ شمع دان جو فراش سے اٹھا رکھ تھا ، طالب علم کو دے دیا۔
جس رات یہ واقعہ پیش آیا ، اسی رات خواب میں محمود غزنویؒ کو جناب حضور اکرمﷺ کی زیارت نصیب ہوئی ۔ سرور کونینؐ نے محمود سے فرمایا۔
’’اے ناصر الدین سبکتگین کے فرزند ! خداوندتعالیٰ قیامت میں تجھے ویسے ہی عزت سے نوازے جیسے تو نے میرے ایک وارث کی قدر کی ہے۔‘‘اس جواب کے بعد سلطان غزنوی کے سارے شبہات دور ہوگئے کیونکہ جو اللہ کے نبیﷺ نے فرمادیا تھا اس سے بڑی تصدیق اور کون کرسکتا تھا۔