حکومت کوبحرانوں کاسامنا
ترجیحی بنیادوں پر حکومت کو جن مسائل پر توجہ دینی چاہئے ان میں صحت اورتعلیم شامل ہیں۔ہمارا تعلیمی نظام دو حصوں میں منقسم ہے۔ ایک تو ہیں سرکاری ادارے اور دوسرے پرائیویٹ تعلیمی ادارے، جن کے درمیان ایک گہرا تفاوت موجود ہے۔ دونوں کے طرز تعلیم اور درس و تدریس میں واضح فرق موجود ہے، جس میں یکسانیت کے لئے حکومت کو فوری توجہ دینا ہوگی۔
ایک وقت تھا کہ ہمارے تعلیمی ادارے عالمی شہرت کے حامل تھے، مشرق وسطیٰ اور دیگر ممالک کے طالب علم یہاں آکر تعلیم حاصل کرنے کو ترجیح دیتے تھے، مگر اب صورتِ حال مختلف ہے۔اسی طرح ملک کا اقتصادی اور معاشی مسئلہ بھی فوری توجہ کا طلبگار ہے،جو اس بات کا متقاضی ہے کہ جانے والوں کی کوتاہیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ہمیں اصلاح و احوال کی زیادہ ضرورت ہے۔
ہمارے قومی ادارے جو نہایت منافع بخش تھے،اب اکھڑی اکھڑی سانسیں لے رہے ہیں،جن میں قومی ایئر لائن پی آئی اے، ریلوے اور کراچی سٹیل مل سر فہرست ہیں، بجائے منافع دینے کے یہ ادارے ملکی معیشت کے لئے وبال جان بنے ہوئے ہیں۔
جہاں تک قومی ایئر لائن کا تعلق ہے، اس کی ماضی بعید میں کارکردگی کی ایک دُنیا معترف تھی متعدد ممالک کا عملہ حصول تربیت کے لئے پاکستان بھیجا جاتا تھا۔ علاوہ ازیں کئی ممالک کی فضائی کمپنیوں نے ہماری قومی ایئر لائن کا عملہ اور طیارے مستعار لئے اور آج یہ کمپنیاں کہاں سے کہاں پہنچ چکی ہیں اور وہ دُنیا کی بہترین فضائی کمپنیوں میں شمار ہوتی ہیں اور ہماری قومی ایئر لائن روبہ زوال رہی۔
یہی حال ہماری ریلویز کا ہے۔ ماضی میں تاجر اپنے سامان کی ترسیل کے لئے ریلوے کو ترجیح دیتے تھے،اب صورتِ حال اس کے برعکس ہے۔ مسافروں کو دی جانے والی سہولتوں کے فقدان کے باعث تاجروں اور مسافروں نے متبادل ذرائع اپنا لئے ہیں اور ریلویز خسارے میں چلتی رہی ہے۔ انجن سازی اور بوگیوں کی تیاریوں کی باتیں تو ہوتی رہیں، مگر ہوا کچھ بھی نہیں۔
وطن ِ عزیز میں ہر شعبے کے ماہرین کی کمی نہیں۔ ملک میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان ایسے عظیم سائنس دان موجود ہیں، جنہوں نے اپنی خداداد اور اعلیٰ صلاحیتوں کی بدولت پانچ چھ سال کے مختصر عرصے میں ملک کو ایٹمی اور میزائل قوت بنا دیا اور آج بھی وہ اس عزم کا اظہار کرتے ہیں کہ حکومت ساتھ دے تو وہ ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں ملک کو سستی ترین بجلی فراہم کر سکتے ہیں، جس کا انہوں نے کئی بار اعلان بھی کیا ہے۔ موجودہ حکومت ملک میں ایسے ماہرین کو آگے لائے جو ملک کے لئے سود مند ہوں۔
یہ بات ہر شک و شبہ سے بالا تر ہے کہ پاکستان معدنیات سے مالا مال ملک ہے، لیکن غلط پالیسیوں اور اہم امور غلط ہاتھوں میں ہونے کی بدولت بجائے ترقی کے انحطاط پذیر رہا۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ملک میں دہشت گردی کے باعث ترقی کا پہیہ جامد و ساکت رہا۔ عمران خان جو فتح اورشکست کے اسباب سے بخوبی واقف ہیں۔انہیں چاہئے کہ اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے حکومت اور اپنی پارٹی میں ناتجربہ کار لوگوں کو سیاسی تربیت سے آراستہ کریں اور انہیں آداب سیاست اور سیاسی و قومی امور پر لب کشائی کے اسلوب و انداز سے بہرہ ور کریں۔
انہیں سیاسی کے ساتھ ساتھ قومی امور میں زیادہ سے زیادہ توجہ دینے کی تلقین کریں،بصورت دیگر ایسے نادان دوستوں کے بجائے باہر بیٹھے ہوئے داناؤں سے مشاورت کر لیا کریں۔یہاں ہم عوام سے بھی التماس کرنے میں حق بجانب ہیں کو وہ بھی ذرا صبر سے کام لیں کہ حکومت کو متعدد بحرانوں کاسامنا ہے جو اس کے پیدا کردہ نہیں،بلکہ اسے ورثے میں ملے ہیں وہ ان بحرانوں سے نکلنے کی کوششوں میں مصروف ہیں اور عوام ان کی کوششوں میں حکومت کا ساتھ دیں تاکہ ملک،حکومت اور عوام کے باہمی اشتراک سے ترقی کی اعلیٰ منازل طے کر سکے۔
بعض وزارتی اور حکومتی حلقوں سے اداروں کو فعال اور منافع بخش بنانے کے لئے اعلانات ہوئے ہیں، لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ یہ بات صرف اعلانات تک محدود نہ رہے،بلکہ اس کا عملی نمونہ بھی پیش کیاجائے جو وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ہماری معیشت اس وقت جس بحرانی دور سے گزر رہی ہے، اس کے پیش نظر حکومت کو ہر کام خواہ وہ سیاسی، اقتصادی یا معاشی ہو بڑی سوجھ بوجھ اور سمجھداری سے کرنا ہو گا۔