”چاچا کرکٹ“ سے ”چاچا ہاکی“ تک

سبز چولا،سفید داڑھی، ہاتھ میں سبز ہلالی پرچم، چہرے پر پاکستان اور پاکستان کرکٹ ٹیم کے لئے محبت سے بھرپور جذبات اور اُس کے اظہار کے لئے پُرجوش نعرے…… یہ ہیں چاچا کرکٹ، جنہیں پاکستان اور دُنیا بھر کے کرکٹ کے شائقین اسی نام سے جانتے ہیں،ہر میچ میں ملکی کرکٹ ٹیم کی حوصلہ افزائی کرتے نظر آتے ہیں، جنہیں سٹیڈیم میں موجود ٹی وی کیمرے سب سے زیادہ فوکس کرتے ہیں۔ صوفی عبدالجلیل المعروف ”چاچا کرکٹ“ 70 سال کی عمر میں گزشتہ50 سال سے پاکستان کرکٹ ٹیم کی حوصلہ افزائی کے لئے سٹیڈیم میں موجود ہوتے ہیں۔ انہوں نے اپنے پہلے میچ منعقدہ 1969ء سے لے کر اب تک300 سے زیادہ میچوں میں شرکت کی ہے۔
اُن کے سامنے بڑے بڑے نامور کھلاڑی آئے اور ریٹائر ہوئے، مگر چاچا کرکٹ پاکستان کی نیک نامی کے لئے ابھی تک اپنی زندگی وقف کئے ہوئے ہیں۔1949ء میں سیالکوٹ میں پیدا ہونے والے چاچا کرکٹ متحدہ عرب امارات میں ملازمت کرتے تھے۔انہوں نے پاکستان کی محبت سے سرشار ہو کر اپنی ملازمت کو خیر باد کہہ دیا اور کرکٹ کی ٹیم کی حوصلہ افزائی کے لئے باقی عمر وقف کر دی۔پاکستان سے محبت کی یہ انوکھی مثال ہے۔ شاہینوں کے شہر سیالکوٹ نے دُنیا کو نہ صرف کھیلوں کا بہترین سامان دیا ہے،بلکہ چاچا کرکٹ بھی عطا کیا ہے، جو آج لاکھوں کروڑوں شائقین کی توجہ کا مرکز ہیں۔
سٹیڈیم میں موجود ٹی وی چینلوں کے کیمرے انہیں سب سے زیادہ کوریج دیتے ہیں۔ وہ بھی پاکستانی پرچم لہراتے، پاکستان کی شناخت کے طور پر جوش و خروش سے دُنیا بھر کے ناظرین کو متوجہ کرتے ہیں۔ اُن کے بے لوث اور پُرجوش نعرے خاص اہمیت رکھتے ہیں،جو ایک طرف تماشائیوں کا خون گرماتے ہیں تو دوسری طرف کھلاڑیوں کو جیت کا نیا جذبہ اور ولولہ مہیا کرتے ہیں۔یوں چاچا کرکٹ ملک کے سبز ہلالی پرچم کے برینڈ ایمبیسڈر کے طور پر بھی سامنے آتے ہیں۔ اُن کا کردار کسی بھی اشتہاری کمپنی کے اشتہارات سے کہیں زیادہ موثر اور مقبول نظر آتا ہے۔
گزشتہ دِنوں وہ پاکستانی کرکٹ ٹیم کے ساتھ ورلڈکپ کے لئے نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کے لئے برطانیہ گئے ہیں۔
وہ ہر ہر میچ میں سٹیڈیم میں موجود پاکستان کی نمائندگی کرتے نظر آئیں گے۔ یہ امر بھی قابل ِ ذکر ہے کہ جہاں عوام نے پاکستان کی کرکٹ ٹیم کو دُعاؤں اور نیک تمناؤں کے ساتھ رخصت کیا وہاں سیالکوٹ ائر پورٹ پر چاچا کرکٹ کو پُرجوش نعروں کے ساتھ الوداع کیا۔ چاچا کرکٹ نے اس موقع پر عوام کا شکریہ ادا کیا اور دُعا کی کہ پاکستان ورلڈکپ لے کر لوٹے۔خواتین و حضرات چاچا کرکٹ جس طرح بالواسطہ کرکٹ کی خدمت کر رہے ہیں وہ اپنی نوعیت کی ایک انوکھی مثال ہے جسے اب دُنیا بھر کے کرکٹ کے شائقین سراہتے ہیں۔
آج چاچا کرکٹ کسی بھی سیاست دان یا سوشل ورکر سے زیادہ مصروف ہیں اور محبت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ان کی خدمات کو عالمی سطح پر اعتراف کے طور پر آئی سی سی ورلڈکپ کے انعقاد پر ”گلوبل سپورٹس فین ایوارڈ“ سے نوازا جا رہا ہے۔ یہ ایوارڈ اُنہیں 14جون کو مانچسٹر میں پاکستان اور بھارت کے درمیان کھیلے جانے والے میچ کے دوران دیا جائے گا۔
ایوارڈ کے اس اعلان پر تبصرہ کرتے ہوئے چاچا کرکٹ نے کہا کہ گزشتہ پانچ دہائیوں پر مشتمل میرے کرکٹ کے جنون کو عالمی سطح پر تسلیم کرتے ہوئے پہلی مرتبہ یہ عالمی ایوارڈ دیا جا رہا ہے،جس پر مجھے بہت خوشی ہو رہی ہے۔ میرے لئے یہ بڑے جذباتی لمحے ہیں، مَیں اپنے چاہنے والوں کا بے حد ممنون ہوں۔خواتین و حضرات اس کالم کے لکھے جانے کے دو اہم مقاصد تھے یعنی:
تمنا مختصر سی ہے، مگر تمہید طولانی
پہلا تو یہ کہ عالمی سطح پر چاچا کرکٹ کی خدمات کو تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کو بھی ان کی خدمات کا اعتراف کرنا چاہئے کہ وہ پہلے پاکستانی ہیں، جنہیں عالمی سطح پر پاکستان کو متعارف کرانے کا اعزاز حاصل ہے، وہ کرکٹ کی ترقی اور کامیابیوں کا ایک بالواسطہ ذریعہ ثابت ہوئے ہیں، لہٰذا انہیں ”تمغہئ حسن ِ کارکردگی“ سے نوازا جانا چاہئے۔اس کے علاوہ ایک اہم نقطہ یہ بھی ہے کہ پاکستان میں ہاکی کے کھیل کو آخری سانسیں لیتے ہوئے آکسیجن کے کام کے طور پر چاچا کرکٹ کی خدمات استعمال کرنی چاہئیں۔
آج ہم ہاکی میں عالمی سطح پر کہیں کھڑے نظر آتے ہیں۔ ایک وقت تھا جب ہمارے پاس ہاکی کے تمام عالمی اور علاقائی ایوارڈ اور ٹائٹل تھے۔ یہ آج بھی ممکن ہو سکتا ہے۔ہاکی فیڈریشن کو بھی وہ پالیسیاں اپنانی چاہئیں جو کرکٹ بورڈ اختیار کرتا ہے۔ ہاکی کے کھلاڑیوں کو کرکٹ کی طرح قومی ہیرو بنا کر پیش کرنا چاہئے۔ اس کھیل میں بھی کرکٹ کی طرح گلیمر پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ ہاکی کے کھلاڑیوں کے معاوضے اور کمرشل سپانسر شپ حاصل کرنی چاہئے، بالخصوص چاچا کرکٹ کو ”چاچا ہاکی“ کی شکل میں پیش کیا جائے۔
واضح ہو کہ ہاکی میں کرکٹ کے مقابلے میں زیادہ کشش، تھرل، تیزی اور جوش و جذبہ ہے۔ ہاکی پاکستان کا قومی کھیل بھی ہے۔ ہاکی کے میچوں میں چاچا کرکٹ کی شمولیت بحیثیت ”چاچا ہاکی“ ایک نیا جوش و ولولہ پیدا کرے گی۔چاچا کرکٹ کے دورہئ انگلستان کے تمام اخراجات سیالکوٹ ایوانِ صنعت و تجارت نے ادا کئے ہیں۔
اسی طرح ہاکی کی مقبولیت کو دوبارہ زندہ کرنے کے لئے چاچا کی خدمات حاصل کیں جائیں۔ اس وقت خود ہاکی کے کھلاڑی ایک طرح کے احساسِ کمتری کا شکار ہیں اور کرکٹ کے مقابلے میں ہاکی کو ایک سوتیلا کھیل تصور کرتے ہیں۔ چاچا کرکٹ کی ہاکی کے کھیل میں کھلاڑیوں کی ”ہلا شیری“ اس کھیل کی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔