انضمام شدہ قبائلی اضلاع میں الیکشن کی نئی تاریخ؟

انضمام شدہ قبائلی اضلاع میں الیکشن کی نئی تاریخ؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


15 - 22 اور 29 مئی کو شائع ہونے والی سیاسی ڈائریوں میں اس خدشے کا اظہار کیا گیا تھا کہ اس قسم کے حالات پیدا ہو رہے ہیں جن کے پیش نظر انضمام شدہ قبائلی علاقہ جات میں اعلان کردہ پروگرام کے مطابق 2 جولائی کو انتخابات ملتوی کرنا پڑیں گے، یہی ہوا جس کا خدشہ تھا اور خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت نے خود یہ انتخابات ملتوی کرنے کے لئے اقدامات شروع کر دیئے ہیں اور انتخابات ملتوی کرانیکا مطالبہ کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کو خط ارسال کردیا ہے، دوسری جانب قبائلی امیدواروں نے الیکشن کے اس مجوزہ التوا کو مسترد کردیا ہے، الیکشن کمیشن کو خط میں صوبائی حکومت نے موقف اپنایا ہے کہ شمالی وزیرستان میں امن و امان کی صورت حال خراب ہے،سرحد پر سازشیں ہورہی ہیں، فوجی آپریشن ہورہے ہیں،لیویز اور خاصہ دار فور س کے اہلکار تربیت یافتہ نہیں، سیاسی قائدین کو خطرات لاحق ہیں جبکہ امیدواروں کو بھی انتخابی مہم چلانے میں مشکلات درپیش ہوں گی، اس لئے قبائلی اضلاع میں انتخابات 22جولائی تک ملتوی کئے جائیں۔ انضمام شدہ علاقوں میں جنرل الیکشن کے اعلان کے فوری بعد حالات جس تیزی سے خرابی کی طرف گئے اس سے صاف دکھائی دے رہا تھا کہ قومی دھارے میں شامل کرنے کے لئے قبائلیوں کو طویل عرصے بعد اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے کا جو موقع میسر آ رہا ہے وہ شاید مقررہ تاریخ پر ممکن نہ ہو سکے، بالخصوص پی ٹی ایم کے دھرنے، احتجاج اور اس کے جواب میں فوجی آپریشن کے بعد تو حالات نہایت دگرگوں ہو گئے اور چہ میگوئیاں ہونے لگیں کہ اب عام انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں۔ پہلے پی ٹی ایم کے رہنماؤں، اراکین قومی اسمبلی محسن داوڑ اور علی وزیرکی قیادت میں شمالی وزیر ستان کی خارکمر فوجی چیک پوسٹ پر حملے کا الزام عائد کیا گیا اور افواج پاکستان کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر کی جانب سے کہا گیا کہ رکن پارلیمنٹ محسن داوڑ اور علی وزیر کی قیادت میں مشتعل ہجوم کی جانب سے فوجی چوکی پر حملہ کیا گیا، پشتون تحفظ موومنٹ کے کا رکن گرفتار دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو چھڑانا چاہتے تھے، اس مقصد کے لئے بویا میں واقع خارکمر چیک پوسٹ پر فائرنگ کی گئی، فوجی دستوں نے تحمل کا مظاہرہ کیا، اور علی وزیر سمیت 8ٓ افراد کو گرفتار کرلیاگیا ہے جبکہ محسن داوڑ مجمع کو مشتعل کر کے موقع سے فرار ہوگئے۔اس دوران گروہ کی فائرنگ سے 5 فوجی اہلکار زخمی ہوئے جبکہ فائرنگ کے تبادلے میں 3ٓ حملہ آور بھی مارے گئے اور 10 زخمی ہوئے۔ یہ وہ موقف ہے جو سرکاری طور پر جاری کیا گیا لیکن بعض اطراف سے مختلف آرا سامنے آئیں اور کہا گیا معاملہ کچھ اور ہی ہے۔ اس کے دو تین روز بعد
تحصیل دتہ خیل کے علاقے خار قمر میں بارودی سرنگ کا دھماکا ہو گیا جس میں لیفٹیننٹ کرنل، میجر، کیپٹن اور لانس حوالدار شہید ہوئے اور بتایا گیا کہ،دہشتگردوں نے یہ بارودی سرنگ سڑک پر نصب کررکھی تھی، اس سانحے میں 4اہلکار زخمی بھی ہوئے،علاقے میں کرفیو نافذ کر کے سرچ آپریشن شروع کر دیا گیا، یہ بھی بتایا گیا کہ گزشتہ ایک ماہ کے دوران 10سکیورٹی اہلکار شہید اور35زخمی ہوچکے ہیں، اسی روز ہرنائی کے مقام پر دہشتگردوں کی طرف سے ایک اور حملہ کیا گیا، جس میں عید ڈیوٹی پر مامور دو ایف سی اہلکار شہید کردیے گئے۔ تازہ ترین صورت حال یہ ہے کہ محسن داوڑ اور علی وزیر جیل میں ہیں کیونکہ مقامی عدالتوں نے سی ٹی ڈی کی جسمانی ریمانڈ کی اپیل مسترد کرتے ہوئے انہیں جوڈیشل ریمانڈ پر بھجوانے کے احکامات دیئے تھے۔قومی اسمبلی میں پروڈکشن آرڈر کے ذریعے ان کی حاضری کا معاملہ بھی زیر بحث ہے لیکن سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جب تک پی ٹی ایم کے مذکورہ رہنماؤں کی رہائی ممکن نہیں ہوتی یا اس حوالے سے کوئی واضح فیصلہ سامنے نہیں آتا قبائلی اضلاع میں انتخابات کا انعقاد شائد ممکن نہ ہو سکے، کیونکہ پی ٹی ایم اس وقت جس مقبولیت کی حامل ہے اس کی شرکت کے بغیر الیکشن بے وقعت ہوں گے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے سوا کوئی بھی سیاسی جماعت انضمام شدہ قبائلی علاقوں میں انتخابات کی تیاریاں نہیں کر پائی اس لئے فوری طور پر الیکشن کا انعقاد مناسب معلوم نہیں ہوتا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ نئی تاریخ کون سی آتی ہے اور الیکشن میں حصہ لینے کی خواہش مند جماعتیں اس پر کیا رد عمل ظاہر کرتی ہیں۔
گزشتہ ہفتے کی ایک اہم خبر خیبرپختونخوا میں عید الفطر کا ایک روز قبل منایا جانا تھا، مسجد قاسم خان کے خطیب مفتی شہاب الدین پوپلزئی کے اعلان کے تحت اہل خیبر نے منگل 4 جون کو عید منائی جبکہ ملک کے باقی حصوں میں مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے فیصلے کے مطابق بدھ 5 جون کوعید کی گئی۔ خیبر سے تعلق رکھنے والے بعض وفاقی وزراء، مشیروں، صوبائی گورنر اور حکومت نے بھی مفتی پوپلزئی کے اعلان کو پذیرائی بخشی، اس صورت حال نے ملک میں مرکزی رویت ہلال کمیٹی اور وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چودھری کے قمری کیلنڈر کو روند کر رکھ دیا، بعد ازاں صوبائی وزیر اطلاعات برادرم شوکت یوسف زئی نے یہ تسلیم بھی کر لیا کہ ہم سے ایک روز قبل روزہ رکھنے کا سہو ہوا تھا اور ہم اس کا کفارہ بھی ادا کرنے کو تیار ہیں۔ چاند دیکھنے کے معاملے میں اس قسم کا ابہام اور دوعملی طویل عرصے سے چلی آ رہی ہے جس سے ہماری خاصی جگ ہنسائی ہوتی ہے، پانچ، دس سال کا قمری کیلنڈر بنائے جانے کی تجویز یا فیصلہ اچھا ہے، لیکن اس میں تمام فریقین کو آن بورڈ لیا جانا ضروری ہے اور اتفاق رائے سے اسے حتمی شکل دی جائے تو نتائج بھی بہتر ہوں گے۔ جہاں تک مفتی پوپلزئی کا تعلق ہے تو ان کی مذہبی عقیدت کا احترام کرنا چاہئے لیکن رویت ہلال کے معاملے میں انہیں مرکزی سطح پر شریک کیا جائے تو بہتر فیصلہ سامنے آ سکتا ہے۔
صوبائی بجٹ کی آمد آمد ہے اور کہا جا رہا ہے کہ 13جون کو پیش کیاجانے والا خیبرپختونخوا کا بجٹ اب تاخیر سے18جون کو پیش کیاجائے گا۔ خیبر پختونخوا حکومت نے مالی سال 2019-20 کیلئے 750 ارب روپے سے زائد کا فاضل بجٹ تیار کرلیا ہے، نئے مالی سال کیلئے خیبرپختونخوا کے کل آمدن کا تخمینہ 657ارب25کروڑ روپے ہے، جبکہ جاری اخراجات کا تخمینہ 475ارب25کروڑ روپے لگایاگیاہے۔نئے مالی سال کے لئے فاٹا میں سالانہ ترقیاتی پروگرام کے لئے 36 ارب روپے کا تخمینہ لگایا گیا ہے جبکہ نئے اضلاع کے جاری اخراجات کیلئے 65 ارب رکھنے کی تجویز ہے۔نئے مالی سال میں صوبائی محاصل کا ہدف بھی بڑھا کر 55 ارب روپے کا تخمینہ رکھا گیا جو پچھلے سال سے 10 ارب روپے زیادہ ہے۔ بجٹ میں ٹیکسز کی شرح کم کرنے کی تجاویز ہیں، نئے مالی سال میں نئے اضلاع میں میگا پراجیکٹ رکھنے کی بھی تجویزہے جس میں نئی یونیورسٹی، میڈیکل کالج اور کالجز کی تعمیرشامل ہے۔تعلیم اور صحت کا بجٹ میں بھی اضافہ کیا گیا ہے، صحت کے شعبے میں پورے صوبے کے شہریوں کو ہیلتھ کارڈ جاری کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اسی طرح تعلیم کیلئے 67 ارب روپے کابجٹ مختص کرنے کے تجویز ہے۔ امید کی جانی چاہئے کہ صوبائی حکومت اس بجٹ میں عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دے گی اور ٹیکسز کا بوجھ بھی کم کیا جائے گا تاہم ٹیکس نیٹ بڑھانے کے لئے اقدامات پر زیادہ زور دیا جائے گا۔

مزید :

ایڈیشن 1 -