موجودہ مجید نظامیوں کو کس اسٹیبلشمنٹ کا سامنا ہے؟
آئی ایم ایف کو اور کیا چاہئے؟ اس سے آئیڈیل سچوایشن کیا ہو سکتی ہے کہ پاکستان کی اکانومی نے جولائی 2018ء سے جون 2019ء کے مالی سال کے دوران بدترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے، ہر شعبے میں تنزلی ہے مگر قوم اس بات پر خوش ہے کہ کرپشن کے نام پر ان کے سیاسی مخالفین کے خلاف نیب گرفتاریاں کر رہی ہے۔ یہی نہیں بلکہ اگلے مالی سال یعنی جولائی 2019ء سے شروع ہونے والی مالی سال کے دوران سبسڈیوں کی واپسی اور ٹیکسوں کی بھرمار سے ملکی معیشت جس بگاڑ کی طرف بڑھ رہی ہے اس سے بھی ہم بحیثیت قوم قطعی نابلد ہیں کہ کرپٹ سیاستدان پکڑے جا رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر کرپٹ سیاستدانوں کی گرفتاری کے باوجود بھی ملکی حالات درست نہ ہوئے تو کیا بنے گا؟
ہم اس سے قبل انہی کالموں میں بتا چکے ہیں کہ کسی بھی ملک میں سسٹم کی مثال اس بھینس کی مانند ہوتی ہے جو جتنا زیادہ کیچڑ میں لت پت رہے، اتنی ہی خوش رہتی ہے۔ آپ اسے نہلا دھلا کر کھڑا کرتے ہیں اور وہ اپنے ہی گوبر پیشاب پر بیٹھ جاتی ہے یا کسی جوہڑ میں جا گھستی ہے۔ عقل مندی کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ آپ اس کے دودھ کو دھو کر دودھ نکالتے ہیں اور چارے میں کمی نہیں آنے دیتے، لیکن موجودہ حکومت کا فلسفہ یہ ہے کہ تب تک سسٹم سے دودھ نہیں لینا جب تک کہ اسے لشکا پشکا کر چمکا نہ لے۔ نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ لوگوں کو سسٹم کے فوائد حاصل نہیں ہو رہے ہیں۔
آئی ایم ایف اور اس کے نمائندے تو آتے ہی سسٹم کو درست کرنے کے لئے ہیں، ان کے لئے سسٹم کے فوائد کی اہمیت نہیں ہوتی جس کی عدم دستیابی پر عوام کا کچومر نکل رہا ہوتا ہے، اس لئے آئی ایم ایف کے ہر پروگرام سے جو بھی نکلا روتا دھوتا ہی نکلا!
دلچسپ بات یہ ہے کہ ملک کی اکانومی کا بھٹہ بیٹھا ہوا ہے اور ٹی وی اینکر نون لیگ کو فواد چودھری کی طعنے دیتے نہیں تھک رہے ہیں کہ شہباز شریف تو خود آصف زرداری کی گرفتاری کی باتیں کرتے تھے، اب ان کے پروڈکشن آرڈر کی بات کیوں کر رہے ہیں؟ ایسا لگتا ہے کہ ملک کی موجودہ سیاسی صورت حال کا سکرپٹ بہت پہلے سے لکھا جا چکا ہے اور ہر کوئی اپنے اپنے ڈائیلاگ بول رہا ہے، سب کچھ ایک طے شدہ پروگرام کے تحت ہو رہا ہے اور دیکھا جا رہا ہے کہ ایک عام آدمی کب تک برداشت کرتا ہے۔ اس دوران جو کوئی چیں چوں کرتا ہے اسے طلعت حسین اور امتیاز عالم کی طرح نکال باہر کیا جاتا ہے، جو کوئی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے حق میں کالم لکھتا ہے، روک لیا جاتا ہے۔
راقم ان دنوں روزنامہ پاکستان کے لئے بھارتی سیاستدان ایل کے ایڈوانی کی کتاب My Country My Lifeکا ترجمہ کر رہا ہے جس میں جناب ایل کے ایڈوانی نے تفصیل کے ساتھ لکھا ہے کہ جب ستر کی دہائی میں اندرا گاندھی نے ملک میں ایمرجنسی کا نفاذ کرتے ہوئے آمرانہ طرز حکومت کا وطیرہ اپنایا تو اپوزیشن، میڈیا اور عدلیہ کو دبانے کے لئے کون کون سے ہتھکنڈے اختیار کئے گئے۔
آپ اس تفصیل کو پڑھتے جائیے اور پاکستان کے موجودہ حالات پر منطبق کرتے جائیے، بال برابر فرق نظر نہیں آتا۔ ایسے میں جہاں آمرانہ طرز حکومت کو چیلنج کرنے والوں کا تذکرہ ہے وہیں پر ان جغادریوں کا بھی ہے جو شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بننا طرہ امتیاز سمجھتے تھے، ان کے بارے میں ایڈوانی جی نے ایک جملہ لکھا ہے کہ حکومت نے انہیں خالی جھکنے کے لئے کہا لیکن وہ تو منہ کے بل لیٹ گئے!.....تو بس صاحب
کچھ ایسی ہی صورت حال یہاں بھی ہمارے بعض دوستوں کی ہے جن کی ہر سطر اور ہر جملہ مستعار لیا ہوا لگتا ہے۔
ادھر نظریہ پاکستان ٹرسٹ میں مرحوم مجید نظامی کے حوالے سے ایک نشست ہوئی جس میں انہی کے اخبار دی نیشن کے ایڈیٹر سلیم بخاری بھی موجود تھے۔ ہر کسی نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا، راقم نے بھی اپنی باری پر عرض کیا کہ مجید نظامی کو اگر آبروئے صحافت کہا جاتا تھا تو غلط نہیں کہا جاتا تھا، کیونکہ ان کے کہے کا اثر ہوتا تھا اور ان سے سیاسی حکمرانوں سے لے کر اسٹیبلشمنٹ تک، ہر کوئی ڈرتا تھا لیکن جب سے ان کی وفات ہوئی ہے تب سے ہماری اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ کھل گئے ہیں اور وہ کھلے بندوں سیاست کے تالاب میں زہر ملارہی ہے اور کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں ہے۔
کچھ دنوں بعد یہی بات وقت کے ایک بڑے صحافی کے روبرو گوش گزار کی کہ مجید نظامی مرحوم کی وفات کے بعد اسٹیبلشمنٹ بے لگام ہوگئی ہے، ان کے ہوتے ہوئے اسٹیلبشمنٹ جس طرح دب کر رہتی تھی اب اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ جواب میں ان کا کہنا تھا کہ مجید نظامی کے زمانے میں اس طرح کی اسٹیبلشمنٹ بھی نہیں تھی جس طرح کی اب ہے۔ کیا ایسا ہی ہے؟