اے میرے صاحب
یہ تو خیر آپ غلط سوچ رہے ہیں کہ لاک ڈاؤن کے دنوں میں میں نے واک چھوڑ رکھی تھی بلکل بھی نہیں واک جاری تھی بس یہ تھا کہ گھر کی چھت کو پارک بنا رکھا تھا ہاں یہ ٹھیک ہے کہ چھت کوئی اتنی بڑی نہیں ہے مربع کی شکل میں کوئی تیس قدموں کا ایک چکر بن جاتا ہے مگر میں نے چھت پہ چڑھنے والی سیڑھیوں کو بھی شامل کر دیا یعنی سیڑھیوں سے چھت پر پھر سیڑھیوں سے نیچے آنگن تک پھر چھت پر پندرہ سیڑھیاں ملا کے یہ کوئی پینتالیس کا چکر بن جاتا ہے شروع شروع میں تھوڑی اکتاہٹ ہوئی گوڈے شوڈے بھی آواز دینے لگے مگر میں ڈٹا رہا بس ایک دوبار سرسوں کے تیل میں ہلدی ملا کے ہلکی ہلکی مالش کا ٹوٹکہ آزمایا تو گوڈے اپنی جگہ یعنی جوان ہوگئے۔ہاں یہ بات ٹھیک ہے کہ مغرب کے بعد چونکہ گھروں میں کھانا بننا شروع ہوجاتا ہے تو کسی گھر سے دال کوتڑکا لگا دھواں ناک میں میں کھلبلی مچا دیتا تو کہیں سے اوجڑی کے ابلنے کی سڑانڈ دل کچا کر دیتی مگر میں دل پکا کر کے واک میں لگا رہا البتہ فیقے کے چرس کے سوٹے اور اٹھنے والے دھوئیں نے بہت تنگ کیا کیا آدھا چرسی بنا دیا
اچھا تے ڈر گئے او ……پارک والے دوست روزانہ فون کرکے یہ جملہ کہتے ہوئے پارک میں آنے کیلئے اکساتے رھے مگر میں بہانے بہانے ٹالتا رہا،مگر اب مجھے ایسا لگنے لگا کہ جیسے اچھا تے ڈر گئے اور میری چھیڑ بنتا جا رہا ہے سو کل مغرب کے بعد احتیاطی تدابیر کے ساتھ پارک میں جا پہنچا۔
پارک کے درخت مجھے سہمے سہمے مرجھائے مرجھائے لگے مختلف پھولوں کے پودے جنگلی جھاڑیوں کی طرح کرخت کرخت سے لگے ٹریک تو خیر پہلے ہی کھردرا سا تھا مگر اب تو بیڑہ ہی غرق ہوا پڑا تھا مٹی اٹھ اٹھ کے منہ میں گھستی چلی جا رہی تھی ماسک کی وجہ سے بچت ہوگئی ورنہ گلے اور ناک کا برا حال ہوجانا تھا۔
ہمارے دوست مناسب فاصلے کے ساتھ محفل سجاے بیٹھے تھے ہمیں دیکھا تو بآواز بلند نعرہ لگایا……آگئے او
ہم نے قہقہہ لگایا اور ٹریک پر چل پڑے ابھی تین چکر باقی تھے کہ ایک سات سال کی خوبصورت بچی ہمارے ہم قدم ہوگئی ماسک اس نے چڑھا رکھا تھا ساتھ چلتے چلتے وہ آہستہ سے منہ اوپر اٹھاتی اور ایک خاص انداز میں ……ہوں... کی آواز نکالتی ہم سمجھے شاید ماسک کی وجہ اس کے منہ سے ہوں کی آواز نکل رہی ہے ایک چکر مکمل کرنے کے بعد سمجھ آئی یہ معاملہ کچھ اور ہے……..
اب میں سوچ رہا ہوں کہ تجسس کے طور پر تحریر کو یہاں روک دیا جائے مگر نہیں معاملہ چونکہ بچی اور حرکت کا ہے سو مکمل بیان ضروری ہے۔اب مجھے سمجھ آئی کہ درحقیقت بچی ہوں کی آواز کے ساتھ مجھے مقابلے کی دعوت دے رہی ہے یعنی کہہ رہی ہے اگر ہمت ہے تو میرے ساتھ چل کے دکھاؤ میں دل ہی دل میں ہنسا اور دعوت قبول کر لی مقابلہ شروع ہوگیا میں نے محسوس کیا کہ میرے ایک قدم کے مقابلے میں اسے دوقدم اٹھانے پڑتے ہیں سو میں نے خود کو اس سے ایک قدم پیچھے رکھا وہ فاتحانہ انداز میں آگے آگے چلتے ہوئے
. ہوں.. کی آواز نکالتی رہی اس ہوں کا مطلب یہ تھا کہ بچوتم مجھ سے آگے نہیں نکل سکتے تیسرے چکر پر وہ مجھے تھکی تھکی سی لگی اس کی رفتار کم ہوچکی تھی ادھر میرا دسواں چکر پورا ہو چکا تھا
میں نے چلتے چلتے ہو ہو ہو... کی آواز نکالتے ہوے پیٹ پر ہاتھ رکھتے ہوئے گرنے کی اداکاری کی تو اس نے میرا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا……ہمت نہ ہو تو چیلنج قبول نہیں کرنا چاہیے اور پھر میرا ہاتھ پکڑ کے فوارے پر لے آئی وہ مجھ سے باتیں کرنا چاہتی تھی نجانے وہ کیا کیا بول رہی تھی۔
ہم دونوں میں گپ شپ ہو رہی تھی اور خاصا وقت گزر چکا تھا کہ ایک آواز سنائی دی……تتلی……مڑ کے دیکھا تو یہ ایک میاں بیوی تھے کھانے پینے کا سامان برگر بوتل اور چپس وغیرہ ان کے ہاتھوں میں تھے میاں موبائل پہ کسی سے لایؤ ہوئے بیٹھے تھے ادھر سے پوچھنے والے نے شاید پوچھا ہوگا کہ تمہارے ساتھ ایک تتلی بھی تھی وہ کہاں ہے اس یاد دھانی پر انہیں تتلی یاد آئی جو کے پچھلے آدھے گھنٹے سے میرے ساتھ گھوم رہی تھی اور وہ میاں بیوی آپس میں گھی شکر ہوے بیٹھے تھے میرا دل چاہا کہ اٹھ کر دونوں کو ایک تھپڑ لگاؤں اور کہوں کہ کم بختو، اپنی اپنی تتلیوں کو وقت کیوں نہیں دیتے انہیں اپنی بانہوں اور چھاؤں میں کیوں نہیں رکھتے کم بختو اسی غفلت کی وجہ سے ہماری تتلیوں کے ریپ ہوجاتے ہیں اور بھیڑیے انہیں ڈرا سی محبت کے عوض چیر پھاڑ دیتے ہیں۔
کم بختو، تتلیوں کی حفاظت کیوں نہیں کرتے مگر…………. میں نے دور سے تتلی کو ہاتھ کے اشارے سے الوداع کہا تو اس نے بھی چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے مجھے خدا حافظ کہا