وزیراعظم صاحب! کورونا وباء پر قوم تقاریر نہیں نتائج دیکھنے کی خواہشمند
تجزیہ:محسن گورایہ
جن خدشات کا مدت سے اظہار کیا جارہا تھا آخر کار وزیر اعظم کو ان کا ادراک ہو گیا ہے مگر اب بھی کورونا کی شدت کے حوالے سے اقدامات دیکھنے کو نہیں مل رہے،جس کے نتیجے میں مریضوں کی روزانہ اوسط تعداد چار ہزار سے زائد ہو چکی ہے، وزیر اعظم کے خطاب کے بعد جب یہ سطور لکھی جا رہی ہیں اس روز متاثرین کی تعداد 5ہزار سے زائد تھی،وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں صرف حکومتی کارکر دگی پر زور دیااور یہ ایسی کارکردگی ہے جو زمین پر دکھائی نہیں دے رہی،ضروری ہے وزیر اعظم صاحب نتائج،ایسے نتائج جو دکھائی دیں،ابھی تک تو کوئی مثبت معاملہ نظر نہیں آرہا۔وزیر اعظم صاحب آپ کا خطاب اپنی جگہ مجھے تو اب اس کے بعد بھی کوئی امید نظر نہیں آ رہی،غضب کیا تیرے وعدے پہ اعتبار کیا۔وزیر اعظم صاحب،نیوزی لینڈ اور کینیڈا کے وزرائے اعظم کو دیکھیں لیڈر وہ ہیں انہوں نے اس مشکل وقت میں اپنی قوم کو سہارا دیا ہے۔آپ کے خطاب کا دوسرا اہم نکتہ گزشتہ حکومتوں پر تنقید تھی۔
وزیر اعظم صاحب اب خدارا بس کریں قوم کے کان پک گئے ہیں چند جملے سن سن کر،مسائل،مشکلات ورثے میں ملے،سابق حکومتوں کا ڈالا گیا گند سمیٹ رہے ہیں،کرپٹ افراد کے حلق سے قوم کا لوٹا گیا سرمایہ نکالیں گے،احتساب سب کا ہو گا اور بے رحمانہ ہو گا،بھائی کس کو انکار ہے کہ ماضی کی حکومتوں نے کچھ نہیں کیا،گند ڈالا،کرپشن کی،قرض لئے مگر آپ کی حکومت نے اب تک کیا کیا ہے،اب قوم جاننا چاہتی ہے،ابتداء میں ہم نے دامے درمے سخنے قدمے آپ کی آپ کے منشور اور آپ کے دعوؤں کی کھل کر حمائت کی،مگر سب دیوانے کی بڑ اور جاگتی آنکھوں دیکھا جانے والا سپنا ثابت ہو رہا ہے۔
سابق حکمرانوں نے جو کیا وہ قوم بخوبی جانتی ہے آپ کیا کر رہے ہیں قوم اب جاننا چاہتی ہے،آپ نے اپنے خطاب میں جو نقشہ کھینچا ہے سرکاری ہسپتالوں میں اس کے بر عکس دکھائی دے رہا ہے،آپ کی حکومت کے پاس تو اب تک کورونا متاثرین اور مریضوں کا درست ڈیٹا تک موجود نہیں،جب چڑیاں کھیت چگ گئیں تب آپ کو خبر ہوئی کہ سرکاری ہسپتالوں میں کووڈ 19کے مریضوں کا علاج کرنے والے ڈاکٹروں عملہ کے پاس حفاظتی لباس،ماسک تک کا فقدان ہے،سوال یہ کہ اب تک ان کی فراہمی کو یقینی کیوں نہ بنایا جاسکا،اس پر طرفہ تماشا، اس مقصد کیلئے فوکل پرسن ڈاکٹر ظفرمرزا خود نیب کے شکنجے میں آچکے ہیں،آپ فرماتے ہیں اب کورونا کے پھیلاؤ علاج،سہولیات پر خود نظر رکھیں گے،اچھی بات مگر اب تک آپ کہاں تھے،پہلے آپ نے اس حوالے سے سنجیدگی کیوں نہ دکھائی،اب بھی آپ سمارٹ لاک ڈاؤن کی بات کر رہے ہیں مگر جب تک کسی علاقے میں لاک ڈاؤن ہوگا تب تک ہزاروں لوگ اس موذی وائرس کا شکار ہو چکے ہونگے،مستند متاثرین کو کورنٹائن کر دیا جائے گا اور نئے مریض وائرس کو پھیلانے میں مصروف ہو جائینگے۔
نیشنل کمانڈ اینڈ اپریشن سینٹر کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ پانچ دنوں میں حکومتی ہیلتھ گائیڈ لائنز کے 84ہزار 294واقعات رجسٹر کئے گئے،22ہزار 405ماکیٹوں، 97صنعتوں اور ٹرانسپورٹرکے 91ہزار 197خلاف ورزیوں پر ایکشن لے کر جرمانے کئے گئے اور متعلقہ پوائنٹس کو سر بمہر کر دیا گیا،ملک بھر میں ایک ہزار251علاقوں کو سمارٹ لاک ڈاؤن کے ذریعے سیل کیا گیا،پنجاب بھر میں 84مقامات کو سیل کیا گیا جہاں ایک لاکھ 60 ہزار سے زائد افراد وائرس سے متاثر ہیں،دیگر صوبوں میں بھی صورتحال سنگین ہے،ایسے میں حکومت کے پاس صحت کی دستیاب صورتحال کے حوالے سے ہسپتال کی حد تک بھی ڈیٹا موجود نہیں،سرکاری ہسپتالوں میں صرف گائنی اور ڈائیلسز وارڈ میں کام ہو رہا ہے،ان وارڈوں میں ہی وینٹی لیٹر والے بیڈ موجود ہیں مگر اکثر خالی پڑے ہیں، حکومت ان کو استعمال میں لائے بغیر1800مزید وینٹی لیٹر منگوانے کیلئے کام کر رہی ہے،ایسے میں جبکہ دنیا بھر میں وینٹی لیٹرز کی کمی ہے اور ریٹ زیادہ ہو چکے ہیں،دستیاب وسائل کو بروئے کار لانے کی بجائے ٹینڈر جاری اور ٹھیکے تفویض کئے جا رہے ہیں جبکہ معاون خصوصی برائے صحت نیب کے ریڈار پر ہیں۔
ایک اور اطلاع کے مطابق سرکاری ہسپتالوں کو آکسیجن فراہم کرنے والی کمپنیوں نے بھی مصنوعی قلت پیدا کر دی ہے اور نرخ بڑھانے کیلئے مارکیٹ سے آکسیجن سلنڈر بھی غائب کر دئیے ہیں،کورونا میں معاون انجکشن ”ایکٹمرا“جو وباء پھوٹنے سے پہلے ایک ہزار 800روپے میں دستیاب تھا اب وہ ایک سے تین لاکھ میں بک رہا ہے اور حکومت،وزارت صحت،ڈریپ،معاون خصوصی صحت سب خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں ایسے میں عوام حکومتی اقدامات پر کیا اطمینان اور اعتماد کریں گے اور کیسے کورونا کی وباء کا مقابلہ کیا جا سکے گا،ہم کہتے رہے کہ مکمل لاک ڈاؤن کا تجربہ کر لیا جائے یا سخت قسم کی حفاطتی تدابیر لاگو کی جائیں جیسے نیوزی لینڈ،یونان اور جنوبی کوریا نے کئے اور آج یہ تینوں ملک کورونا فری ہیں اور زندگی وہاں معمول پر آچکی ہے،کاروبار، مارکیٹیں،تعلیمی ادارے یہاں تک کہ سیاحت کیلئے بھی یہ ممالک اوپن ہیں مگر ہم ہر کام وقت گزرجانے کے بعد کرنے کے عادی ہیں،جب وقت تھا لاک ڈاؤن نہ کیا،حفاظتی تدابیر پر عمل نہ کرایا،مارکیٹیں کھول دیں اور اب جبکہ پانی سر سے بلند ہو گیا حفاظتی تدابیر پر عملدرآمد کرانے چلے ہیں اور اس مقصد کیلئے بھی انتخاب کیا گیا محکمہ پولیس کا جس کے افسر اور اہلکار خود حفاظتی لباس نہ ہونے کی وجہ سے غیر محفوظ ہیں۔
وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں کہا جب کورونا کی وباء پھوٹی تو ملک بھر میں صرف دو ٹیسٹنگ لیبارٹریاں تھیں اب 160ہیں پہلے صرف ڈھائی ہزار افراد کے ٹیسٹ کئے جا سکتے تھے اب ایک گھنٹہ میں 4ہزار افراد کے ٹیسٹ کرنا ممکن ہے،وینٹی لیٹرز صرف2 ہزار تھے اب 4 ہزار ہیں اور 18سو مزید منگوا رہے ہیں،بہت اچھی بات مگر کیا22کروڑ عوام کیلئے یہ سب بہت کافی ہے اور کیا ہر شہری کو ٹیسٹ اور علاج کی تسلی بخش سہولت دستیاب ہے،نہیں جناب،عوام کی بڑی اکثریت آج بھی ٹیسٹ اور علاج کی سہولت سے محروم ہے اور اس بنیادی سہولت کی فراہمی حکومت کا فرض اولین اور عوام کا حق ہے اور یہ سہولت اب تقاریر اور قوم سے خطاب،اپوزیشن پر تنقید،سابق حکومتوں کو مورد الزام ٹھہرانے سے دستیاب نہیں ہو گی،عملی اقدامات کرنا پڑیں گے ایسے اقدامات جو زمین پر دکھائی دیں اور جن کے نتائج بھی نظر آئیں،قوم اب نتائج چاہتی ہے اور اگر یہ نہیں تو پھر کچھ نہیں ہے۔
تجزیہ محسن گورایہ