سچی لگن
رہی تھیں۔علینہ کا دھیان کھانے کی طرف تھا۔باقی سب سرگوشیوں میں دنیا جہان کی باتوں میں لگے ہوئے تھے۔
اسی بدتمیزی کے دوران پیریڈ کی گھنٹی بجی۔پھر دوسرے پیریڈ میں بھی اسی قسم کی صورتِ حال رہی۔چھٹی کے بعد ساریہ گھر پہنچ کر نڈھال سی صوفے پر گر گئی۔امی بولیں:”ساریہ بیٹا!کیا ہوا،کھانا تو کھا لو۔“
ساریہ غصے سے بولی:”امی!میں کل سے اسکول نہیں جاؤں گی۔سوائے کھیل تماشے کے وہاں اور کچھ نہیں ہوتا۔اتنا شور ہوتا ہے کہ مس کی کوئی بات سمجھ میں نہیں آتی۔اب میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ میں اسکول نہیں جاؤں گی۔“ساریہ روتے ہوئے اپنے کمرے میں چلی گئی اور دھڑام سے دروازہ بند کر لیا۔
شام کو امی ساریہ کے پاس گئیں جو ٹیوشن جانے کے بجائے صوفے پر سر پکڑے بیٹھی تھی۔امی نے سمجھاتے ہوئے کہا:”دوسروں کی حرکتوں اور لاپروائیوں کی وجہ سے تم خود اپنا نقصان کر لو گی۔اگر اور لوگ جہالت کے اندھیرے میں ڈوب رہے ہیں تو کیا تم علم کی روشنی کی طرف نہیں بلاؤ گی ساریہ!“
بات ساریہ کی سمجھ میں آگئی۔
ساریہ نے عہد کیا کہ وہ نہ خود علم سے پیچھے ہٹے گی بلکہ دوسروں کو بھی جذبہ دلائے گی۔اس نے اگلے دن سے ہی ”علم پھیلاؤ مہم“کا آغاز کر دیا اور کچھ دن بعد ہی اس کا بہت اچھا نتیجہ سب کے سامنے آیا۔ساریہ کی جماعت کی طالب علموں کا سالانہ امتحان میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ ایک روشن ستارے کی طرح چمک رہا تھا۔