اقتصادی سروے کی روشنی میں معیشت کی تصویر

اقتصادی سروے کی روشنی میں معیشت کی تصویر

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین  نے کہا ہے کہ معیشت بحال ہونا شروع ہو گئی ہے، اقتصادی اشاریئے بہتر ہو رہے ہیں، حکومتی پالیسیوں کے باعث معیشت مستحکم ہوئی، بیشتر اہداف حاصل کر لئے، روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ میں ایک ارب ڈالر سے زیادہ آ چکے، گیس، بجلی، تعمیراتی اور زرعی شعبے میں مراعات دیں،مہنگائی کو روکنے کی کوشش کر رہے ہیں،وزیراعظم نے خصوصی کوشش کر کے آئی ایم ایف سے ریلیف لیا، کورونا کی تیسری لہر بھی قابو میں آ چکی ہے۔کورونا کے باعث دو کروڑ لوگ بے روزگار ہوئے،لیکن اِس وقت برسر روزگار افراد کی تعداد 5کروڑ تیس لاکھ تک ہو گئی ہے، صرف پچیس سے تیس لاکھ لوگ رہ گئے ہیں،جو اب تک بے روزگار ہیں۔ سال 2020-21ء کا اقتصادی سروے پیش کرتے ہوئے انہوں نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ آئی ایم ایف بجلی اور گیس کے نرخ مزید بڑھانے اور تنخواہ دار طبقے پر150 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگانے کے لئے کہہ  رہا ہے، لیکن وزیراعظم نے دونوں شرائط ماننے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ٹیکس اور ٹیرف نہیں بڑھا سکتے۔ آئی ایم ایف سے مذاکرات جاری ہیں،لیکن حکومت نے ایک پوزیشن لی ہے،جس سے  پیچھے نہیں ہٹیں گے،آئی ایم ایف سے اگر مذاکرات کامیاب نہ ہوئے تو چھٹا اقتصادی جائزہ تاخیر کا شکار ہو سکتا ہے،بجٹ سے پہلے آئی ایم ایف سے معاملات طے نہیں پاتے تو اس کے بعد بھی مذاکرات جاری رکھیں گے، پاکستان آئی ایم ایف پروگرام سے نکلنے نہیں جا رہا کوئی حل نکل آئے گا،لیکن حکومت پرعزم ہے کہ غریب عوام پر مزید بوجھ نہیں ڈالا جائے گا۔ آئی ایم ایف کو ریونیو بڑھانے کے لئے متبادل پلان پیش کر دیا ہے، ایف بی آر کی ہراسانی ختم کر دی جائے گی، اس کے بعد بھی اگر کوئی جان بوجھ کر ٹیکس نہیں دے گا  تو جیل جائے گا۔تین سے چار فیصد ٹیکس دہندگان کا رسک بیسڈ آڈٹ ہوا کرے گا، جو پکڑا جائے گا اُسے لٹکا دیا جائے گا۔اُن کا کہنا تھا کہ ترسیلات زر میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے، جو امید ہے29 ارب ڈالر تک پہنچ جائیں گی، ترسیلات کی وجہ سے کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس چل رہا ہے، ایف بی آر کی ٹیکس کلیکشن بہتر جا رہی ہے،زرعی شعبے میں 2.7فیصد ترقی ہوئی۔اُن کا کہنا تھا کہ میں یہ پیش گوئی نہیں کر سکتا کہ گرے لسٹ سے وائٹ میں آ جائیں گے،ہم چاہتے ہیں مہنگائی روکنے کے لئے پیداوار بڑھائیں،زراعت پر زور دینا ہو گا اور کوشش کریں گے کہ برآمدات میں اضافہ ہو۔ شرح سود کم کر کے7فیصد تک لائی گئی، ہم شرح نمو  کو 5،6 اور7فیصد تک لے کر جائیں گے، شرح نمو سات سے آٹھ فیصد تک لے جا کر سالانہ بیس لاکھ نوجوانوں کو روزگار دلایا جا سکتا ہے۔آئی ٹی50فیصد گروتھ کر رہی ہے اس کو100فیصد تک لے کر جائیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ شرح سود میں اضافے کی وجہ سے قرضوں میں اضافہ ہوا، 38ہزار ارب روپے کل قرض ہے، فارن کرنسی قرضہ گزشتہ سال سے کم ہے۔
جناب شوکت ترین نے معیشت کی ایک تصویر اُس وقت پیش کی تھی جب وہ ابھی خزانے کے مالک و مختار نہیں بنے تھے،انہوں نے اس وقت حکومت کی بعض پالیسیوں سے اختلاف کیا اور کھل  کر کہا کہ بجلی کے ریٹ بڑھا کر ملکی معیشت کا بیڑا غرق کر دیا گیا اور شرح سود میں اضافہ کر کے ترقی روک دی،بعض دوسرے ایسے خیالات کا اظہار بھی کیا جن سے معیشت کی تصویر کا تاریک پہلو سامنے آتا تھا۔اس کے دو ہفتے بعد ہی وہ وزیر خزانہ بنا دیئے گئے تو اب اُنہیں معیشت میں ہر جانب روشن پہلو ہی نظر آتے ہیں۔انہوں نے جو اقتصادی سروے پریس کانفرنس میں پیش کیا اور  جو اعداد و شمار یہ ثابت کرنے کے لئے سامنے لائے کہ حکومت کی پالیسیاں ٹھیک جا رہی ہیں ان  پالیسیوں کی تشکیل میں اُن کا کوئی ہاتھ نہیں تھا۔ یہ سب کچھ اگر اچھا تھا تو اُن کے پیشروؤں کا کارنامہ تھا اور جو کامیابیاں انہوں نے گنوائیں وہ سب اُن پالیسیوں کا نتیجہ تھیں،جو اُن سے پہلے حکومت اختیار کر چکی تھی، بالفاظِ دیگر اس کا مفہوم یہ بھی لیا جا سکتا ہے کہ حکومت کی پالیسیاں اُن سے پہلے بھی ٹھیک چل رہی تھیں اور برگ و بار  لا رہی تھیں،اب انہوں نے خزانے کا چارج سنبھالا ہے تو دیکھنا ہو گا  کہ وہ کون سے ایسے اقدامات کر رہے ہیں،جو پہلے نہیں ہو رہے تھے اور اب ان کی کوششوں سے معیشت مزید کتنی بہتر ہوتی ہے یہ بھی آنے والے برسوں میں دیکھنا ہو گا، وہ جی ڈی پی کی شرح نمو آٹھ فیصد تک لے جانے کی سوچ رکھتے ہیں تو ان کے منہ میں گھی شکر،اگر واقعی یہ شرح حاصل ہو جائے اور بقول اُن کے، اس کے نتیجے میں 20لاکھ لوگ برسر روزگار ہو جائیں تو وہ سب لوگ انہیں دُعائیں دیں گے، جو اِس وقت بے روزگاری کی آگ میں جھلس رہے ہیں۔
ویسے تو جب سے تحریک انصاف کی حکومت آئی بے روزی گاری بڑھی ہے،جب کورونا نہیں تھا(کورونا کا پہلا کیس 2فروری 2020ء کو سامنے آیا)اُس وقت بھی حکومت ڈیڑھ سال سے زیادہ مدت گذار چکی تھی، اور بے روز گاری کا عفریت جبڑے کھول کر سامنے آ چکا تھا اور بڑی تعداد میں وہ لوگ جو خوشحال زندگی گذار رہے تھے، یکایک ان کی مراجعت غربت کی جانب ہو گئی۔ شوکت ترین کے  خیال میں کورونا سے پیدا ہونے والی بے روزگاری کم ہو گئی ہے، لیکن اب بھی بڑی تعداد میں لوگ بے روزگار ہیں، نیم خواندہ اور اَن پڑھ بے روزگاروں کا تو ذکر ہی کیا اچھے خاصے معقول اور انتہائی تعلیم یافتہ افراد بے روزگار پھر رہے ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کسی سرکاری محکمے میں چند سو آسامیاں نکلتی ہیں تو ہزاروں لوگ درخواستیں لے کر پہنچ جاتے ہیں، پولیس کو چند سو کانسٹیبل درکار ہوں تو بے روزگاروں کی ایک فوج کی فوج پولیس میں بھرتی کے لئے اپنی خدمات پیش کر دیتی ہے،جو خوش قسمت ہوتے ہیں وہ ایسی ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، جو ”میرٹ“ کا شکار ہوتے ہیں وہ کسی اگلی آسامی کے لئے انتظار کرنے لگتے ہیں، جہاں تعلیمی قابلیت میٹرک درکار ہوتی ہے وہاں گریجوایٹ اور پوسٹ گریجوایٹ بے روزگاروں کی قطاریں لگی ہوتی ہیں۔وزیراعظم کئی دفعہ کہہ چکے ہیں کہ حکومت بے روزگاروں کو نوکریاں نہیں دے سکتی،اس کا حل اس کے سوا کوئی نہیں کہ نجی شعبہ آگے آئے اور روزگار کے وسائل پیدا کرے،لیکن پہلے سے جو لوگ اس شعبے میں ہیں وہ سرکاری محکموں سے شاکی ہیں۔
جناب شوکت ترین نے کہا کہ ایف بی آر ٹیکس دہندگان کو ہراساں نہیں کرے گا،ممکن ہے وہ بعض اقدامات کریں اور حالات بہتر ہو جائیں،لیکن آج ہی کے اخبارات میں ایک خبر شائع ہوئی کہ ایف بی آر نے2014ء میں انتقال کر جانے والے ایک شخص کو8 لاکھ ٹیکس کا نوٹس بھیج دیا ہے جسے مرحوم کے بیٹے نے عدالت میں چیلنج کر دیا، جہاں مُردوں سے یہ سلوک ہو رہا ہے وہاں زندہ کیسے بچ سکتے ہیں،اِس کا جواب جناب شوکت ترین کے ذمے رہے گا۔ ایف بی آر کی ہراسانی کے بارے میں ایک شہادت اس ادارے کے ایک سابق چیئرمین شبر زیدی نے دی ہے جن کا کہنا ہے کہ ٹیکس کے نوٹس بھی کاروباری لوگ خود جاری کراتے ہیں پھر ایف بی آر کا عملہ ان کے ساتھ سودے بازی کرتا ہے یہ دونوں کا ”جائنٹ وینچر“ ہے۔ ہراساں کرنے والا مافیا ہے جو بہتری نہیں چاہتا۔ایف بی آر کی اصلاح کا بیڑا اگر جناب شوکت ترین نے اٹھایا ہے تو ہماری دُعائیں اُن کے ساتھ ہیں۔انہوں نے جن جن نیک عزائم کا اظہار کیا ہے توقع ہے کہ وہ انہیں پورا کرنے کی کوشش بھی کریں گے،اب تک تو انہوں نے حکومت کے جو کارنامے بھی گنوائے وہ سارے کے سارے ان کے پیشروؤں کے حساب میں لکھے جائیں گے،اُن کی آزمائش تو آج کے بجٹ کے بعد شروع ہو گی۔

مزید :

رائے -اداریہ -