بجٹ۔ کیا ہوگا؟
ہم لوگ(پاکستانی قوم) تو بنے بنائے ہیں، ہمیں مزید بنانے کی ضرورت کیا ہے۔ یہ تو اتنی دیر سے ہوتا چلا آ رہا ہے کہ اب معمولات کا حصہ بن چکا،بجٹ ہر سال آتا ہے، اور قوم کو اس کے سامنے پیش کرنے سے پہلے دلاسے ہی دیئے جاتے ہیں اور ایسا بجٹ سے پہلے اور بجٹ کے بعد بھی ہوتا ہے،محترم وزیر خزانہ شوکت ترین نے فنانس بل پیش کرنے سے ایک روز قبل ہی کہہ دیا، ٹیکس لگیں گے نہ بجلی مہنگی ہو گی،اس پاکستانی قوم کو بتانے کے لئے اتنا ہی کافی ہے، کہ آئی ایم ایف کی بات نہیں مانی۔ ہم یکایک ”مردِ مجاہد“ بن گئے ہیں، ہم بھی مان لیتے ہیں،اب ذرا اس حوالے سے بات کر لیتے ہیں کہ نہ تو بجلی کے نرخ بڑھیں گے اور نہ ہی نئے ٹیکس لگیں گے،مالیاتی زبان میں یہ میزانیہ ٹیکس فری ہو گا، جس کے معیشی اشارات مثبت ہیں اور دعویٰ کے مطابق اہداف حاصل کر لئے جائیں گے۔ سر تسلیم خم ہے، جو مزاج یار میں آئے،لیکن یہ تو بتا دیجئے کہ پچھلے کچھ عرصے سے بجلی کے نرخ 8روپے پچاس پیسے فی یونٹ سے ساڑھے17 روپے فی یونٹ تک کس نے کئے اور کیا ان کو قیمت بڑھانا نہیں کہتے،اور پھر گیس کی طرح بجلی چارجز کو بھی ”سلیبوں“ میں تبدیل کر کے ایک حد تک معقول آمدنی والوں کو حالیہ شدید گرمی میں اے سی چلانے سے جو محروم کر دیا گیا ہے۔ وہ کیسے ہوا،مَیں بجلی کے نرخوں کی بات کر رہا ہوں، لوڈشیڈنگ کا ذکر نہیں،جس نے رؤسا کی ٹھنڈی مشینیں بھی بند کر دی ہیں۔گزارش کی کہ سلیب کے نظام کو دیکھ لیں تو معلوم ہو جائے گا کہ 200یونٹ کے بعد300 یونٹ اور تین سے چار، پھر اسی تناسب سے700 یونٹ خرچ کرنے والوں پر کیا گذرتی ہے، تو محترم وزیر خزانہ آپ اور بجلی کے کون سے نرخ ہیں جو آئی ایم ایف کے کہنے کے باوجود نہیں بڑھا رہے۔
یہ درست کہ ادارہ شماریات کے مطابق ہمارے ملک میں ”گدھوں“ کی تعداد میں ایک لاکھ کا اضافہ ہو گیا ہے،اس کے باوجود ”گدھے“ اور بھی ہیں، لیکن ابھی بہت لوگ بچ گئے اور وہ اب بننے کو تیار نہیں، اسی لئے سوشل میڈیا کے ذریعے اور فون کر کے ہمیں بتا رہے ہیں کہ دُنیا بھر کے اصول کے بالکل الٹ بجلی زیادہ خرچ کرو گے تو بل کم نہیں، زیادہ ہوتا چلا جائے گا کہ ہم تجارت کرتے ہیں، نظام مدینہ لانا چاہتے اور منافع بڑھاتے چلے جاتے ہیں۔یہی حال ٹیکس فری کا ہے،اس سے نجات اور تالیاں بجوانے کا طریقہ بھی ماہرین معاشیات(بابو لوگ) نے پہلے ہی اختیار کر دیا ہے کہ ان تمام محکموں کو جو یوٹیلیٹیز کے ضمن میں آتے ہیں،اپنے اپنے نرخ بڑھانے کی کھلی اجازت ہے، بجلی رہی الگ، پانی کے نرخ بڑھ چکے، گیس سال میں دو بار مہنگی ہوتی ہے۔ایکسائز اور کسٹمز ڈیوٹیوں کی شرح بھی تبدیل کر لی جاتی ہے اور یہ سب بڑی آسانی سے یوں کیا جاتا ہے کہ صارفین کو خبر نہیں ہوتی وہ حیران رہ کر بل دیکھتے اور سوچتے ہیں کہ الٰہی یہ گزشتہ ماہ سے زیادہ کیوں ہے اور پھر کیلکولیٹر سے حساب لگائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ نرخ بڑھا دیئے گئے ہیں اس اضافے کے لئے کسی اسمبلی یا پارلیمینٹ سے منظوری کی بھی ضرورت نہیں۔ ترقیاتی اداروں کو بھی ٹیکس لگانے کا حق ہے۔
تو قارئین! معذرت کہ رو بہک گئی،ورنہ ہم تو اس ٹی وی شو کی بات کرنا چاہتے تھے، جس کے دوران ایک معاونِ خصوصی اور ایک منتخب نمائندے کے درمیان ”ٹک ٹاک“ بنانے کا فیصلہ ہوا،اور محترم اینکر بُت کی مانند کھڑے ہو کر ریکارڈنگ کرواتے چلے گئے کہ بعد میں نشر ہو سکے اور یہ ہو گیا،اب اسی طرح تو ریٹنگ بڑھے گی،بہرحال بات ازالہ حیثیت عرفی کے نوٹس اور سپیکر قومی اسمبلی سے شکایت تک چلی گئی،اِس لئے انتظار ہی کرنا ہو گا کہ کیا ہوتا ہے۔اگرچہ نیب کے لئے سنہرا موقع ہے کہ ایک اور انکوائری زیر تحقیق آ جائے۔ازالہ حیثیت عرفی کا دعویٰ ایک ارب روپے ہرجانے کے عوض کیا گیا اور اس قانون کا منشاء و مرضی یہ طے کی جا چکی ہے کہ حیثیت عرفی کے ازالے کے لئے جو رقم مانگی جائے وہ مانگنے والے کی اپنی ذاتی حیثیت کے مطابق اور مالیت سے کافی کم ہو،یعنی ایک ارب روپے ہرجانہ مانگنے کے لئے دس ارب روپے کی حیثیت تو ہونا ہی چاہئے اور ہر جانے کے مطابق شہر اور ملک میں عزت بھی ہو،کہ ایسا ہو گا تو بے عزتی مانی جائے گی۔ خیر چھوڑیں ہم آپ سب مل کر انتظارکرتے ہیں، جو بھی نتیجہ ہوا،سامنے آ جائے گا، یوں بھی یہ میچ تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی کے درمیان ہو رہا ہے۔
بجٹ کی بات تھی اور یہ اِس لئے متعلقہ ہے کہ سیاسی حضرات کے درمیان جھڑپ ہوئی ہے،جیسے آج کل قومی اسمبلی میں جاری ہے،جہاں بجٹ سے ایک روز قبل ہی ہنگامہ اور واک آؤٹ ہو گیا اور ایک عدد قرارداد عدم اعتماد بھی آ گئی۔اس ٹیسٹ کے لئے ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کا انتخاب ہو،جو حکم امتناع پر قومی اسمبلی کے رکن اور اس حیثیت سے ڈپٹی سپیکر ہیں۔یہ قرارداد اپوزیشن کی طرف سے متحدہ طور پر پیش کر دی گئی اور بجٹ ہی کے دوران ایک اور مسئلہ کھڑا کر دیا گیا ہے۔ ہوا یوں کہ حکمران جماعت نے متعدد قوانین کے مسودات آواز سے احتجاج کے باوجود منظور کرا لئے اور پھر واک آؤٹ کا فائدہ اٹھا کر تیزی بھی دکھائی، ان بلوں میں ایک بل بھارتی جاسوس کلبھوشن کے حوالے سے ہے، جو بین الاقوامی عدالت کا بھی مہر یافتہ ہے،اسے عدالت عالیہ سے رجوع کا حق دیا گیا ہے۔ اگرچہ یہ پہلے ہی سے اسے حاصل ہے اور اسلام آباد ہائی کورٹ ایک سے زیادہ بار بھارتی سفارت خانے کے توسط سے بھارت کو یہ موقع دے چکی کہ عالمی عدالت کے فیصلے کے پس منظر میں کلبھوشن کی وکالت کر لی جائے اور بھارت کی طرف سے انکار کی بجائے غیر حاضری سے جواب دیا جاتا ہے۔ اب اس قانون کے ذریعے یہ راہ ہموار کی گئی کہ کلبھوشن مجرم کی حیثیت سے ائی کورٹ سے بریت کے لئے اپیل کر سکتا ہے۔یوں اس کی حکومت کے ساتھ خود اسے بھی یہ رعایت مل گئی ہے، اپوزیشن نے اسے ہی این آراو کہا، وہ کہتی ہے کہ کہا تو اپوزیشن کے بارے میں جاتا کہ این آر او نہیں دوں گا، یہاں تو ایک دشمن ملک کے جاسوس کو این آر او ہی کے ذریعے سہولت پہنچا دی گئی ہے اس سے احساس ہوتا ہے کہ اسے بھی ابھی نندن (پائلٹ) کی طرح چائے پلا کر بھارت کے حوالے کر دیا جائے گا،اگرچہ یہ تسلیم شدہ ثابت ہوا، مجرم ہے، جس نے خود بھی اقبالِ جرم کیا اور حکومت بین الاقوامی فورموں پر بڑے زور سے یہ مقدمہ اور موقف پیش کرتی رہی اور بین الاقوامی عدالت سے بھی کیس جیتا ہوا ہے۔
ہمارا یقین تھا اور اب بھی ہے کہ جیسے قائد حزبِ اختلاف محمد شہبازشریف اور پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کہتے چلے آ رہے ہیں کہ بجٹ ایسے ہی منظور نہیں ہونے دیا جائے گا تو وہ حقیقتاً سنجیدہ بھی ہیں،لیکن جمعرات کو ایوان میں ہونے والی کارروائی سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ سب ڈرامہ ہے، کوئی محنت کر کے بجٹ اور حکومتی معاشی دعوؤں کو جھٹلانے کی کوشش نہیں کرنا چاہتا اور بجٹ بھی بلوں (مسودات قانون) کی طرح منظور ہو جائے گا۔ عوام منہ تکتے رہیں گے؟