لاتیرانا کا عرس

لاتیرانا کا عرس
لاتیرانا کا عرس

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


دنیا کے نقشے میں تو لوگ عام طورپر چلی، پیرو اور بولیویاکوہی مشکل سے ڈھونڈ پاتے ہیں، پھروہ دورافتادہ شہر جہاں ان ممالک کی سرحدیں ملتی ہیں، بہت ہی کم ہمارے دیسی لوگوں کی نظروں میں آ پاتے ہیں۔یہ منظرایک دوردراز قصبے کا ہے۔ جنگل میں منگل کا سماں ہے۔ فضا انتہائی جذباتی ہے۔کلیسا کا مرکزی ہال کھچاکھچ بھراہوا ہے،مغرب کا وقت ہے اور قندیلیں کثیر تعداد میں جگمگا رہی ہیں، زائرین میں اکثریت نوجوانوں کی ہے۔ لڑکیاں زاروقطاررو رہی ہیں اورمناجات میں مشغول ہیں۔لڑکوں کی اکثریت بھی آبدیدہ نظرآرہی ہے۔زیادہ تر حاضرین جوڑیوں کی شکل میں یہاں آتے ہیں۔ سرخ روتی ہوئی آنکھوں اوران میں نمی کے بغیرہم جیسے سیاح یہاں کم ہیں،غالب اکثریت مذہبی جوش وجذبے سے نہ صرف پورے چلی کے طول و عرض سے یہاں آتی ہے،بلکہ جنوبی امریکہ کے ہمسایہ ممالک سے آنے والوں کی تعداد بھی سینکڑوں میں ہے۔ایک ہزار کی مقامی آبادی والے اس چھوٹے سے قصبے میں، جسے گاؤں کہنا زیادہ مناسب ہے،سال کے ان دنوں میں دوسے تین لاکھ لوگ اکٹھے ہو جاتے ہیں۔اس قصبے کا نام لاتیرانا ہے، اور جس تہوارکے لئے یہاں لاکھوں لوگ اکٹھے ہوئے ہیں وہ اسی ہستی لاتیراناسے منسوب عرس یا میلہ ہے۔عرس کا مطلب چونکہ شادی ہے اور صوفیاء کرام موت کو وصال قراردیتے ہیں،وحدت الوجود اور وحدت الشہود کے نظریات کی تفصیل میں جائے بغیرمیں یہ لفظ مستعار لے رہاہوں۔چونکہ آئندہ آنے والی تفصیل سے بھی آپ کو اس میلے کے لئے عرس کا لفظ ہی مناسب لگے گا۔ مسیحی دنیا اس ہستی کو ”لیڈی آف کارمل“کے نام سے جانتی ہے۔مذکورہ معبد اس جگہ قائم ہے جہاں لاتیرانا نے جان دی تھی۔مرجع خلائق اس گرجا گھر کے گرد ہر سال جولائی کے وسط میں لاکھوں کی تعداد میں جمع ہونے والے زائرین کا تذکرہ بعد میں کریں گے،پہلے صاحب مزارکی بات کرتے ہیں۔


یہ کہانی پانچ صدیاں پرانی ہے۔ جنوبی امریکہ کے ساحلوں پر جب یورپی بحری جہاز لنگراندازہوناشروع ہوئے اور براعظم شمالی و جنوبی امریکہ کو اپنی نوآبادی بنانے کا سلسلہ شروع کیا۔یہ 1540 عیسوی کا واقعہ ہے جب دنیا کی سب سے قدیم تہذیب ”ان کا“ سے تعلق رکھنے والی ایک جنگجو شہزادی نے یورپی حملہ آوروں اور قابضین کے خلاف علم بغاوت بلند کیا تھا۔آٹھ ہزار سال قدیم تہذیب کی وارث اس جارحانہ مزاج شہزادی کا اصل نام تو ذرا مشکل ہے، مگر تاریخ میں یہ ”لاتیرانا“ کے نام سے معروف ہوئی۔ لاتیرانا کا مطلب آمرانہ مزاج کی حامل، جابر حکمران، بے رحم غصیلی،تندخو کیا جا سکتا ہے،مگر جابر شہزادی یاظالم حسینہ حکمران سب سے مناسب ہو گا۔
اساطیری کردار کی حامل یہ ریڈ انڈین شہزادی یورپ کے لوگوں سے شدیدنفرت کرتی تھی۔اپنے لوگوں اور زمین کے تحفظ کے لئے یہ یورپی جارحین کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار ثابت ہوئی تھی۔اس کی گھڑ سواری اور تیراندازی کی تاریخ میں مثال دی جاتی ہے۔ ایسی خطرناک جنگجوکہ جو بھی یورپی یا عیسائی اس کے راستے میں آتا،وہ اسے قتل کردیتی تھی یاپھراپنا قیدی بنا کر مشقت لیتی تھی۔وہ کوئی عام نازک اندام شہزادی نہ تھی بلکہ ایک فوجی کمانڈرتھی جس کی اپنی ذاتی ملیشیا تھی، ایسی منتقم مزاج کہ کسی کی چھوٹی سی غلطی بھی معاف کرنے کی روادار نہ تھی۔پھریوں ہوا کہ محبت نے اس کے دل کے دروازے پر دستک دے دی۔وہ پرتگالی لڑکا اس جنگجو شہزادی کا قیدی تھا۔جیسے مثل مشہور ہے کہ ”عشق نہ پچھے ذات“


یہ عشق لاتیراناکے اپنے ہی نظریات کی مکمل نفی تھا۔ان دنوں یورپی حملہ آور ریڈانڈین لوگوں کے خون کے پیاسے تھے اورمقامی لوگ یورپی گھس بیٹھیوں کی جان کے درپے تھے۔ شہزادی نے پرتگالی نوجوان کی محبت میں اقتداربھی ٹھکرادیا اور اپنی فوج سے بھی دستبردارہوگئی۔بات صرف یہیں ختم نہیں ہوتی،اس نے اسی محبت میں عیسائیت قبول کر لی۔ بعض مبصرین کا خیال ہے کہ لاتیراناکے عیسائیت قبول کرنے کی وجہ اپنے عیسائی عقیدہ محبوب سے شادی کے علاوہ موت کے بعد ابدی زندگی میں اس سے ملن کا تصورتھا۔قبیلے کے لوگوں اور اس کی رعایا کو اس شادی اور تبدیلی مذہب نے  مشتعل کردیا۔اسی اشتعال کے نتیجے میں لاتیرانااوراسکے پرتگالی محبوب کو اپنے ہی لوگوں نے بڑی بے دردی سے قتل کردیا۔ ان کی قبر پراٹھارویں صدی میں ایک فنِ تعمیر کا شاہکارکلیساتعمیرکیا گیاجواب مرجع خلائق ہے۔ یہ تا ریخی معبد جہاں لاتیرانا نے اپنی جان جانِ آفرین کے سپرد کی تھی،مقامی ثقافت اورکیتھولک روایات کی باہمی آمیزش کا بہترین نمونہ ہے۔ اس معبد کی بھیڑ میں مجھے بولیویاسے تعلق رکھنے والی اپنی گھریلوخادمہ نظرآئی،سرخ روئی ہوئی آنکھوں میں نمی اور ساتھ ایک نوعمر لڑکاتھا،دونوں بڑے خشوع و خضوع سے مناجات میں مشغول تھے۔یہ مگرشام کا منظر ہے،دن کے وقت رنگ برنگے لباس پہن کرہزاروں لوگ ٹولیوں کی شکل میں موسیقی کی دھنوں پر رقص کرتے ہوئے شہر بھر کا چکرلگاتے ہیں اور یہ مذہبی رقص مرکزی کلیسا پر اختتام پذیر ہوتا ہے۔ تمام دن یہ جلوس قدم بہ قدم چلتے ہیں۔


لاتیرانا کے میلے پر رقص کرنے کے لئے منتیں مانی جاتی ہیں۔کسی کی آرزو پوری ہو جائے یا مراد پوری ہونے کی آرزولے کرہرعمر کے افرادتمام دن گلیوں میں طبل وعلم لے کر رقصاں نظرآتے ہیں۔اس عمل کو بڑی مذہبی تکریم حاصل ہے،ہماری سیکرٹری مارسیلا اپنی بیٹی کے بارے میں بتا رہی تھی کہ میری بچی بڑی مذہبی اور عبادت گزارہے،ہرسال لاتیرانا کے عرس پررقص کرتی ہے۔ساحل سمندر پرواقع شہر اقیقیٰ سے یہ معبد سترکلومیٹر ہے،اس شہرمیں کوئی دوسوپاکستانی رہتے ہیں اور تقریباًسبھی کاروباری لوگ ہیں چونکہ یہ شہرٹیکس فری زون ہے۔


اس شہر میں ایک عظیم الشان مسجد موجود ہے جس کی تعمیر کا سہراپاکستانی مسلمانوں کے سر سجا ہے۔حالانکہ بڑی دیر سے یہاں عرب اور ترک مسلمان بھی آباد تھے۔یہ سعادت مگرہمارے ہم وطنوں کے حصے میں آئی۔ہمارے ایک دوست نے لاکھوں ڈالر مالیت کا اپناکارنرپلاٹ مسجد کی تعمیرکے لئے مفت فراہم کر دیا۔ دیگردوستوں نے بھی دل کھول کراس کی تعمیرمیں حصہ ڈالااور دیکھتے ہی دیکھتے کروڑوں روپے کی مالیت کا یہ منصوبہ اپنی تکمیل کو پہنچا۔اب یہ شہر کاایک اہم آئیکون ہے،جسے مؤذنِ رسول کے نام پرمسجدبلال کانام دیا گیا ہے۔ آپ حیران ہوں گے کہ لاتیراناکے اسی قصبے میں جہاں  جنگجوشہزادی نے محبت کی خاطر جان دی،عیسائیت قبول کی اوراب ویٹی کن سٹی میں اسے ”خداکی ولی،“تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس کے کلیساکے کچھ ہی فاصلے پر بھی ایک مسجد اورمسلمانوں کا قبرستان  بھی موجود ہے۔اس کی تعمیرکی سعادت ہمارے دوست اور ہمسائے مبین بھائی کو ملی ہے۔میں جب بھی اس طرف جاؤں، قبرستان ضرور جاتا ہوں۔چونکہ وہاں ہمارے ایک عزیزدوست اور ساتھی دفن ہیں، بچپن میں قبرستان جانے سے ڈر لگتا تھا،مگر پھر کسی نے سمجھایاکہ جب کوئی اپنا قبرستان میں دفن ہوجاتا ہے تو پھر یہ سارا خوف مٹ جاتا ہے۔ایک اپنائیت اور انسیت اس خوف کی جگہ لے لیتی ہے۔ لاتیرانا کا یہ مسلم قبرستان بھی بہت اپنا لگتا ہے،چونکہ یہاں ہمارے دوست مدفون ہیں۔ ایک ایسی خاتون کی بھی قبرہے جو مطالعہ کے بعدمسلمان ہوئی اور اس خاتون نے وصیت کی تھی کہ مجھے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا جائے۔اس کا بیٹاعیسائی ہے مگراس نے اپنی ماں کی آخری خواہش پوری کر دی، چونکہ اس نے اسلام قبول کرلیا تھا۔ اس خاتون کی قبرپر میں فاتحہ ضرور پڑھتا ہوں۔

مزید :

رائے -کالم -