اپوزیشن کا شور شرابا، اعداد و شمار جعلی و من گھڑت،بجٹ پا س کرانے میں حکومت کو ٹف ٹائم دینے کا اعلان
اسلام آباد (سٹاف رپورٹر،مانیٹرنگ ڈیسک،نیوز ایجنسیاں) قومی اسمبلی میں آئندہ مالی سال کیلئے وفاقی بجٹ پیش کئے جانے کے اجلاس میں وزیرخزانہ کی بجٹ تقریر کے دوران اپوزیشن نے شدید شور شرابا کیا،جس دوران اپوزیشن اراکین نے ایوان میں ’’مک گیا تیرا شو نیازی، گو نیازی گو نیازی‘ کے نعرے بازی کی،دوسری جانب شہباز شریف کی قومی اسمبلی میں آمد کے موقع پر’’شیر شیر“ کے نعرے بازی نے اپوزیشن اراکین کے جذبات مہمیز کیا۔جبکہ بجٹ اجلاس کے بعد پارلیمنٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو میں اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری نے بجٹ میں پیش کئے گئے حکومتی اعدادوشمار کو جعلی اور من گھڑت قرار دیتے ہوئے بجٹ پاس کرانے میں حکومت کو ٹف ٹائم دینے کا اعلان کر دیا، اپوزیشن رہنماؤں نے کہا جو بھی اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کے اختلاف ہونگے وہ اپنی جگہ لیکن ہم نے مل کر بجٹ، اس نالائق، نااہل، سلیکٹڈ حکو مت کا مقابلہ کرنا ہے،ہم اس حکومت کو بے نقاب کریں گے،جس ملک میں غربت اور بیروزگاری کا بے پناہ سمندر ہو وہ یہ کہہ رہے ہیں معیشت بہتر ہو رہی ہیں یہ کس طرح ہو سکتا ہے؟، آج بدترین لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے اور لوگ بے ہوش ہو رہے ہیں، یہ ساری چیزیں ہم مل کر ایوان میں پیش کریں گے، ڈپٹی سپیکر کیخلاف تحریک عدم اعتماد کے معاملے پر ہم جلد متفقہ حکمت عملی بنائیں گے۔ تفصیلات کے مطابق جمعہ کے روز وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین کی جانب سے بجٹ پیش کرنے کیلئے تقریر شروع کی تو اسی دوران اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے شدید شور شرابا شر و ع کردیا گیا، اس موقع پر اپوزیشن اراکین اسمبلی نے ’مک گیا تیرا شو نیازی، گو نیازی گو نیازی‘ کے نعرے لگائے جبکہ قائد حزب اختلاف شہباز شریف کی قومی اسمبلی آمد کے موقع پر ’شیر شیر‘ کے نعرے لگائے گئے تاہم اپوزیشن کے شور شرابے کے باوجود وزیر خزانہ نے تقریر جاری رکھی اور وفاقی بجٹ مالی سال2021-22قومی اسمبلی میں پیش کردیا بعدازاں قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس کے بعد قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف اور پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے مشترکہ طورمیڈیا سے گفتگو کی،جس میں بلاول بھٹو زرداری نے کہا جس طریقے سے بجٹ پیش کیا گیا، جو جو باتیں نئے وزیر خزانہ نے ملک وقوم کے سامنے رکھی تھیں، میرے خیال میں یہ کسی اور ملک کے بجٹ اور کسی اور ملک کی معیشت کے بارے میں بات کر رہے تھے، وہ ملک جہاں عوام تاریخی غربت، تاریخی بیروزگاری،تاریخی مہنگائی کا سامنا کر رہے ہیں،اسی ملک کا وزیر اعظم و وزیر خزانہ اٹھ کر معاشی ترقی کی جو بات کرتے ہیں اس میں زیادہ وزن نہیں ہو تا، عوام مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔بجٹ کیخلاف پاکستان پیپلز پارٹی کے سارے ارکان قومی اسمبلی کے ووٹ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو غیر مشروط طور پر دے رہے ہیں کہ وہ انہیں حکومت کیخلاف استعمال کریں۔ اس موقع پر قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے کہا ہم نے یہ طے کیا ہے جتنی بھی اپوزیشن جماعتیں پارلیمنٹ میں ہیں ہم مل کر ٹف ٹائم دینگے، حکومت کو بے نقاب کریں گے، انہوں نے جو جعلی اور من گھڑٹ اعداوشما ر دیئے ہیں اس کو ہم بے نقاب کریں گے کہ ملک میں غریب مر رہا ہواس کو ایک وقت کی روٹی نہ ملے اور یہ کہیں کہ معیشت بہتر ہو رہی ہے، جس ملک میں غربت اور بیروزگاری کا بے پناہ سمندر ہو وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ معیشت بہتر ہو رہی ہے یہ کس طرح ہو سکتا ہے، یہ ساری چیزیں ہم مل کر ایوان میں پیش کریں گے اور حکومت کو بجٹ پاس کروانے میں پورا ٹف ٹائم دینگے، اس موقع پر ڈپٹی سپیکر کیخلاف تحریک عدم اعتماد لانے سے متعلق سوال کے جواب میں شہباز شریف نے کہا ہم نے مشاورت کی ہے اس کیلئے ہم متفقہ حکمت عملی بنا ئیں گے۔ قبل ازیں شہبازشریف اور بلاول بھٹو کے درمیان جمعہ کو بجٹ اجلاس سے پہلے ملاقات بھی ہوئی، جس میں ذرائع کے مطابق دونوں رہنماؤں نے پارلیمنٹ کے اندر ایک دوسرے سے تعاون جاری رکھنے پر اتفاق جبکہ وفاقی بجٹ مالی سال 2021-22ء کی منظوری میں حکومت کو ٹف ٹائم دینے پارلیمنٹ کے اندر دیگر معاملات پر تبادلہ خیال کیا۔ دریں اثناء میڈیا سے گفتگو میں جمعیت علماء اسلام (ف)کے سیکرٹری جنرل سینیٹر مولانا عبد الغفور حیدری نے وفاقی بجٹ 2021-22ء کو آئی ایم ایف کا تیار کردہ بجٹ قراردیتے ہو ئے کہا وزیر خزانہ نے بس تیار بجٹ کو پکڑ کر سنایا،ماضی میں بھی اس طرح ہوتا رہا ہے مگر اس بار یہ تاثر عام ہوگیا کہ بجٹ آئی ایم ایف نے تیار کیا۔ بجٹ سے سیکرٹری خزانہ، وزیر خزانہ یا حکومت کا کوئی تعلق نہیں۔ بجٹ میں قوم کیلئے کوئی خاص نوید نہیں، اس حکومت سے خیر کی کوئی توقع نہیں کی جا سکتی۔ادھرعوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر اسفندیار ولی خان نے و فا قی حکومت کی جانب سے پیش کردہ بجٹ کو مسترد کرتے ہوئے اسے الفاظ کا ہیراپھیری قرار دیتے ہوئے کہا باتوں کے ماہر حکمران عوام کو دھوکہ دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ پا کستا ن کی تاریخ میں سب سے زیادہ قرضہ پی ٹی آئی حکومت نے لیا، قرضوں میں ڈوبے ملک کا بجٹ کس طرح عوام کو ریلیف دے گا؟آئی ایم ایف کے نمائندوں کے ایماء پر تیار کردہ بجٹ میں عوام کو ریلیف دینے کیلئے کچھ نہیں۔ باچاخان مرکز پشاور سے جاری بیان میں اے این پی سربراہ کا کہنا تھا مہنگائی روز بروز بڑھتی چلی جارہی ہے، درآمد کی وجہ سے مہنگائی کا رونا رونے والے بتائیں کیا غذائی اشیاء بھی درآمد کی جارہی ہیں؟ جب بجٹ پیش کیا جارہا تھا تو پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے سرکاری ملازمین احتجاج کررہے تھے، یہی حقیقت ہے۔ ہوشربا مہنگائی کے دوران سرکاری ملازمین کے تنخواہوں میں 10فیصد اضافہ اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہے۔ضم اضلاع کیساتھ کیا گیا وعدہ اس بار بھی پورا نہیں کیا گیا،ان کیلئے 54ارب روپے مختص کرنا مذاق ہے۔پچھلے سال جو رقم مختص کی گئی تھی وہ بھی خرچ نہیں کی گئی، 100ارب سالانہ ان اضلاع کے عوام کیساتھ وعدہ کیا گیا تھا۔نٹ ہائیڈل پرا فٹ کے مد میں وفاق کے ذمے واجب الادا 650ارب روپے کی بجائے 559ارب روپے (این ایف سی کے تحت) دینے کی تجویز مضحکہ خیز ہے۔ این ایف سی میں تاخیر کر کے یہ حکومت آئینی خلاف ورزی کررہی ہے۔ این ایف سی ایوارڈ میں تین فیصد ضم اضلاع کا حصہ بھی نہیں دیا گیا۔این ایف سی ایوارڈ جاری کرنا آئینی تقاضا ہے لیکن یہ حکومت مسلسل آ ئین کی خلاف ورزی کررہی ہے۔ہم یہ یقین سے کہتے ہیں اس اعلان پر کبھی بھی عملدرآمد نہیں ہوگا کیونکہ وفاق نے ابھی تک ایک روپیہ بھی صوبے کو نہیں دیا۔ ٹیکس وصولی کا ہدف 5829ارب روپے مقرر کرنا خام خیالی ہے، حکومتی اراکین غریب عوام پر ٹیکس لگا کر اپنی جیبیں بھرنا چاہتے ہیں۔ پی ٹی آئی والے بھول گئے کہ بجٹ پیش کرنیوالا غیرمنتخب شخص نیب کو مطلوب ہے۔کسی کو ریلیف ملے نہ ملے غیرمنتخب وزیرخزانہ شوکت ترین کو ریلیف مل گیا ہے۔عوامی نیشنل پارٹی بجٹ تجاویز پر اپنی تفصیلی رائے بہت جلد عوام کے سامنے لائے گی اور نام نہاد بجٹ کی حقیقت واضح کرے گی۔
اپوزیشن