”سابق جج شوکت عزیز کی طرح کاایک واقعہ پہلے بھی پیش آچکا ہے اور ۔۔“سپریم کورٹ کے جسٹس عمر عطا بندیال کا انکشاف
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن )سپریم کورٹ کے جسٹس عمر عطا بندیال نے دوران سماعت انکشاف کیا کہ سابق جج شوکت عزیز صدیقی کی طرح کا ایک واقعہ پہلے بھی پیش آچکا ہے تاہم اس واقعے سے متعلق چیف جسٹس کو رپورٹ کردیا گیا تھا۔
مقامی اخبار ’ ڈان ‘ کی رپورٹ کے مطابق جسٹس عمر عطا بندیال نے جج کی شناخت ظاہر نہیں کی جنہوں نے عدلیہ کے امور میں مداخلت کی تھی، قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ اس واقعے میں ایک اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج ملوث ہیں اور ان کے خلاف ضروری کارروائی کی گئی تھی۔ان کا کہنا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ عدلیہ کی آزادی پر قدغن لگانے کی کوششیں ختم نہیں ہوئیں۔
عدالت میں سابق جج کے بیان جس میں انہوں نے آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید سے ملاقاتوں کا تذکرہ کیا تھا، پر وفاقی حکومت کی تردید کے بارے میں تذکرہ کیا تاہم جسٹس اعجاز الاحسن نے آبزرویشن دی کہ حکومت کا جواب نہ تو یہاں موجود ہے اور نہ ہی اس کا کوئی موجودہ کیس سے تعلق ہے۔جسٹس عمر عطا بندیال نے مشاہدہ کیا کہ عدالت کا حکومت کے جواب سے کوئی لینا دینا نہیں ہے اور سینئر وکیل حامد خان جو سابق جج کی نمائندگی کررہے ہیں، کو ججز کی طرف سے اٹھائے جانے والے سوالات پر توجہ دینی چاہئے۔
یہ مشاہدہ اس وقت کیا گیا جب حامد خان خان نے عدالت کو یاد دلایا تھا کہ سابق جج کا حلف نامہ عدالت عظمیٰ کے رجسٹرار آفس نے واپس کردیا تھا مگر حکومت کے مبہم جواب کو ریکارڈ کا حصہ بنادیا گیا تھا۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ اس طرح موجودہ معاملے میں حقیقت پسندانہ تنازع موجود نہیں کیونکہ کسی نے بھی اس سے انکار نہیں کیا کہ جسٹس شوکر صدیقی نے بار میں تقریر کی تھی۔انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ سابق جج نے نہ تو چیف جسٹس آف پاکستان اور نہ ہی اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو انٹیلی جنس حکام کی مداخلت سے آگاہ کیا تھا۔جسٹس عمر عطا چندیال نے مشاہدہ کیا کہ اگر ہم اپنی پریشانیوں، احساسات اور شکایات کو عام کرنے کے لیے عوامی سطح پر جائیں تو ہم عدلیہ کے ادارے کو مضبوط بنانے کا اپنا کام نہیں کر رہے ہیں۔