میری زندگی میں بہت سی مشکلات ہیں۔ اور ان مشکلات کیوجہ سے میری زندگی اجیرن ہو چکی ہے۔ میرے سوا سب خوش ہیں لیکن میری مشکل کا کسی کو احساس نہیں۔ میری ایک دوست اپنی بات کا آغاز ہمیشہ انھی جملوں سے کرتی ہے، اور پھر اپنی نا ختم ہو سکنے والی بد ترین مشکلات کا ذکر کرتی ہے۔ اس نے بتایا کہ اگلے سال پہننے کے لیئے خریدے گئے کپڑے اس کے درزی نے پچھلے ایک ماہ سے سلائی کر کے نہیں دیئے۔ اس کا نیٹ ٹھیک اس وقت کام کرنا بند کردیتا ہے جب وہ اپنی دوستوں سے شاپنگ جیسے اہم موضوع پر ڈسکس کررہی ہوتی ہے۔ اس کی کام والی نے اس کی اچھی خاصی روٹین خراب کر دی ہے۔ کام والی ٹھیک بارہ بجے آجاتی ہے جبکہ اس وقت تو ابھی وہ سو رہی ہوتی ہے۔ اس کی مشکلات کا سن کر میرا دل بارہ بارہ آنسو روتا ہے۔ کہ اس مشکل میں میری دوست اکیلی نہیں۔ میں اسے تسلی دوں تو کس منہ سے کہ قریباً ایسی یا اسی سے ملتی جلتی مشکلات کا شکار تو ہر دوسرا شخص نظر آتا ہے۔
جیسا کہ کسی کو محبت ہوجائے اور ”منزل مل رہی ہو نا مقصود“، کوئی طالبعلم بنا تیاری کرکے امتحان دے اور فیل ہوجائے۔ ہمسائے کے گھر کام کرنے کے لیئے نوکروں کی فوج ہے اور میرے گھر کام کے لیئے صرف ایک ماسی آتی ہے، گھر میں کام کرنے والی ملازمہ کام چھوڑ کر چلی گئی ہے اور نئی ملازمہ ملنے کا دور دور تک کوئی پتہ نہیں۔ بیوی کی خواہش مہنگے سوٹ کی ہے، جبکہ جیب میں اتنی سکت نہیں۔ بچوں کے لیئے اچھا ٹیوٹر نہیں مل رہا۔ ٹی وی کا چینل بدلنے پر میاں بیوی آپس میں جھگڑنے کیوں لگے ہیں۔ خالو کے انتقال پہ پھپھو نیا نکور سوٹ کیوں پہن کر آئیں۔ بھائی نے نئی گاڑی لی اور بھابھی نے بتایا تک نہیں۔ جب ایسی مشکلات سر پہ پڑی ہوں تو پھر زندگی کیسے آسان لگے۔
ویسے تو دنیا میں ایسی باتیں مشکلات میں شمار نہیں ہوتیں۔ لیکن ہم نے چونکہ انھیں مشکلات کا نام دے رکھا ہے۔ اس لیئے یہ مشکلات ہی ہیں۔
مشکلات ہماری اپنی اختراع ہیں۔ مشکلات کو ختم کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے، نا کہ انھیں بڑھاکر ہمالیہ کے پہاڑ جتنا کرلیں۔ مشکل جو کسی بھی بات کو سر پہ سوار کر لینے سے بنتی ہے۔ اس کو ختم کرنے کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ اپنے لیئے مشکلات کا اتنا بڑا پہاڑ کھڑا کرلیا جائے کہ ایک کے سامنے دوسری آسان لگنے لگے۔ جیسے ایک شاعر صاحب فرما گئے ہیں ”مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہوگئیں“۔ لیکن دوسرا اور مفید حل یہ ہے کہ کسی بھی چیز کو اتنی اہمیت ہی نہ دی جائے کہ وہ مشکل لگے۔
ضروری نہیں کہ ہر وقت چہرے پر تناؤ کی کیفیت رکھی جائے۔ کوشش کریں چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ رہے۔ ایسا کرنے سے آپ نہ صرف خوبصورت لگیں گے بلکہ اپنی عمر سے کسی حد تک چھوٹے بھی نظر آئیں گے۔ ٹھیک ہے ہر وقت ہنسا نہیں جا سکتا، لیکن ہر وقت ٹسوے بہانے سے بھی گریز کریں۔ اگر حسد، لالچ، بغض، عداوت، منافقت، جھوٹ جیسی بیماریوں کو اپنے اندر سے باہر پھینک دیں گے تو یقین کریں، پریشان ہونے کے لیئے کچھ بچے گا ہی نہیں۔ زندگی بہت آسان ہے لیکن لوگوں نے اسے مشکل بنادیا ہے۔ ملے گا آپ کو اتنا ہی، جتنا نصیب میں لکھا جا چکا ہے۔ پھر بھی اگر آپ کو لگے کہ آپ دنیا کے واحد دکھی انسان ہیں تو فوراً کسی ہسپتال کا رخ کریں۔ وہاں زندگی کے لیئے سسکتے لوگوں کو دیکھیں۔ ایدھی سنٹر جاکر غمزدہ بے گھر افراد کی داستانیں سنیں۔ اور پھر اپنی مشکلات کا دوسروں کی مشکلات سے موازنہ کر کے دیکھیں۔ کبھی جسمانی و ذہنی طور پہ مفلوج لوگوں کی تکلیف اور ان کے عزیزوں کا درد محسوس کریں تو آپ کو پتہ چلے کہ اصل مشکل ہوتی کیا ہے۔
لیکن اگر آپ کے گھر مرغی کی ران بنی ہے اور ہمسائے کے گھر بکرے کی تو اس وقت پھر آپ سے زیادہ مشکل میں واقعی کوئی نہیں ہو سکتا۔ اور اس مشکل سے بچنے کا میرے پاس بھی کوئی حل نہیں۔