پولیس کا نظام:بڑی تبدیلی کا متقاضی!

پولیس کا نظام:بڑی تبدیلی کا متقاضی!
پولیس کا نظام:بڑی تبدیلی کا متقاضی!
کیپشن: kashif darwesh

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

جناب من! یہ حقیقت نفس ا لا مری ہے کہ کسی بھی ریاست کے نظم و نسق کو قائم رکھنے اور امن و امان کے قیام کے لئے پولیس کا محکمہ ایک شہتیر کی حیثیت رکھتاہے، اگر یہ محکمہ مفلوج ہو جائے،تو ریاست مفلوج ہو کر رہ جاتی ہے اور خطرناک سے خطرناک مجرم کے ذہن میں یہ بات مستحفر ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی دن وہ قانون کی گرفت میں ضرور آئے گا۔ قانون کی بالادستی کا یہ خوف اسے بہت حد تک جرائم سے روکے رکھتا ہے۔ دوسری طرف مظلوم کو یہ تسلی ہوتی ہے کہ اس کی مدد کو قانون موجود ہے جو بروقت اس کی مدد کو آ جائے گا۔ اس تناظر میں جب ہم ملک خداداد پاکستان کا طائرانہ نگاہ سے جائزہ لیتے ہیں، تو پولیس کا نظام جو 1861ءمیں انگریز نے وضع کیا اور یہی نظام پولیس تھوڑی بہت تبدیلیوں کے ساتھ آج تک یہاں رائج ہے، جس کی وجہ سے پولیس کما حقہ اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے میں اب تک ناکام چلی آتی ہے۔ اس کی کئی وجوہات، اسباب اور عوامل ہیں، جن کی موجودگی میں اس محکمے سے 100فیصد کارکردگی کی توقع رکھنا خام خیالی کے سوا کچھ نہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ انگریزکے زمانے کا بناےا ہوا یہ نظام اکیسویں صدی کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کی صلاحیت سے محروم ہے اور اس میں بڑی تبدیلی اور ترمیم کی ضرورت ہے۔
یہ بات درست ہے کہ اب بھی اس محکمے میں فرض شناس اور ایماندار افسران عوام کی بے لوث خدمت کے جذبے کے ساتھ موجود ہیں اور وہ اس بات کے لئے کوشاں ہیں کہ عوام کے دل سے پولیس کا خوف ختم ہو اور وہ بے دھڑک تھانہ یا چوکی آکر شکایات بیان کر سکیں۔ پچھلے دنوں ڈی پی او چنیوٹ راﺅ منیر ضیاءسے ملاقات ہوئی، ان سے جب یہ پوچھا گیا کہ غریب لوگ تھانے یا چوکی آنے سے گھبراتے ہیں، اس سلسلے میں آپ کیا اقدامات کر رہے ہیں؟تو ان کا کہنا تھا کہ ہماری پوری کوشش ہے کہ عوام کا اعتماد بحال کیا جائے، مڈل مین کا کردار ختم کیا جائے اور لوگ بلاجھجک تھانے خود آ کر اپنے مسائل بیان کریں۔ بہرحال راﺅ منیر ضیاءکی یہ بات بڑی اہمیت کی حامل ہے کہ اگر پولیس عوام کے اندر اعتماد بحال کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے،تو تب مڈل مین کا کردار ختم ہو سکتا ہے،جبکہ ہمارے ہاں ایسا ہوتا ہے کہ غریب اپنی داد رسی کے لئے بجائے پولیس کے پاس جانے کے، پہلے جاگیر دار یا وڈیرے کے پاس جاتا ہے اور پھر وہی ہوتا ہے، جو وڈیرہ چاہتا ہے، اس طرح انصاف کا خون کیا جاتا ہے، اس لئے امن کے حقیقی قیام کے سلسلے میں یہ لابدی امر ہے کہ عوام کے دل میں پولیس کا اعتماد قائم ہو۔
مگر جب من حیث المجموع ہم دیکھتے ہیں، تو یہ چیز ہمیں عنقا نظر آتی ہے اور ٹھوس اقدامات اس ضمن میں نظر نہیں آ رہے، اس کی بنیادی وجہ اہل دانش اس محکمے میں سیاسی مداخلت ہی کو قرار دیتے ہیں۔ اس ضمن میں سب سے پہلے یہ فیصلہ کیا جائے کہ پولیس کے محکمے میں کسی قسم کی سیاسی بھرتی نہ کی جائے اور نہ ہی سیاسی افراد کے کہنے پر ان کے تبادلے کئے جائیں۔ ارکان اسمبلی وزیراعلیٰ سے سفارش کر کے اپنے حلقے میں اپنے چہیتے پولیس افسران کے تبادلے کراتے ہیں اورتھانے میں پھر وہی ہوتا ہے،جو سیاست دان چاہتے ہیں، حالانکہ قیام امن کے لئے یہ ناگزیر اور ضروری امر ہے کہ ہر پولیس سٹیشن کو سیاست سے پا ک کر دیا جائے اور اس محکمے کو ایک غیر جانبدار صورت میں متحرک کر دیا جائے کہ ہر پولیس سٹیشن سے متصل عدالت قائم کی جائے تا کہ تفتیش کے نام پر ملزمان کو ”مک مکا“ کے لئے زیادہ عرصہ حبس بیجا میں نہ رکھا جا سکے۔
 اسی طرح پولیس کو جو عدالت کی طرف سے جسمانی ریمانڈ ملزمان کے لئے حاصل ہوتا ہے ،اس کی بھی عدالت کی طرف سے مکمل نگرانی ضروری ہے کہ ملزم سے اس حد تک ہی جسمانی ریمانڈ کے دوران پولیس کی طرف سے سلوک روا رکھا جائے، جس حد تک قانون اس کی اجازت دیتا ہے تاکہ تفتیش کے نام پر وحشیانہ تشدد کا خاتمہ ہو سکے کہ بہت سارے لوگ پولیس کے وحشیانہ تشدد کے نتیجے میں راہی ملک عدم ہو چکے ہیں،مگر یہ حیرت کی بات ہے کہ ارباب اختیار اس ضمن میں چپ کا روزہ رکھے ہوئے ہیں۔ جب قانون کے نام پر قانون کے رکھوالے ہی قانون شکنی کے مرتکب ہوں گے، تو قیام امن کا خواب حقیقت کا روپ کیسے دھا ر سکتا ہے؟ اس لئے اس طرف بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے چشم پوشی معاشرے کے امن کے لئے زہر ہلاہل سے کم نہیں، پولیس میں موجود ایسے عناصر کی نشاندہی کی جائے،جو اس طرح کی وحشیانہ کارروائیوں میں ملوث ہیں اور پولیس کے دامن پر ایک بدنما داغ ہیں کہ یہی لوگ ہیں، جو پاکستان کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہے ہیں، بقول شاعر:
بے وجہ تو نہیں ہیں چمن کی تباہیاں
کچھ باغباں ہیں برق و شرر سے ملے ہوئے
اس ضمن میں یہ بھی بہت ضروری ہے کہ پولیس کی نفری میں خاطر خواہ اضافہ کیا جائے کہ ایک طرف تو پولیس سڑکوں اور گزرگاہوں پر گشت کرتی نظر آتی ہے، تو دوسری طرف ملزمان سے تفتیش اور مقدمات کی پیروی میں سرگرداں نظر آتی ہے، جرائم پیشہ افراد کی تلاش اور چھاپوں کا الگ سلسلہ نظر آتا ہے ، تمام امور کو نمٹانے کے لئے اہلکاروں کی تعداد بہت کم ہے اور وہ 24گھنٹے ڈیوٹی دینے پر مجبور ہیں، پھر تھانوں میں بنیادی سہولتوں کا فقدان ہے، ہتھکڑیاں تک پوری نہیں ہوتیں۔ کئی بار عدالت پیشی کے موقعہ پر ملزمان کے ہاتھ کپڑے وغیرہ سے بندھے نظر آتے ہیں۔ بہرحال محکمہ پولیس سے بدعنوان اور راشی پولیس افسران کا مکمل خاتمہ ضروری ہے، تو دوسری طرف وزرائ، مشیروں، قومی اور صوبائی اسمبلی کے ممبران کے اثر و رسوخ سے ہر پولیس سٹیشن کو پاک کرنا ضروری ہے، تبھی جا کر بھتہ خوری ،اغوا کاری، جوا، جسم فروشی، منشیات فروشی، چوری اور ڈکیتی جیسے گھناﺅنے جرائم سے معاشرہ کو مکمل طور پر پاک اور صاف کیا جا سکتا ہے بصورت دیگر امن وامان کے قیام کا خواب ”ایں خیال است و محال است و جنوں“ کے مصداق محض خواب ہی رہے گا۔

مزید :

کالم -