تھرپارکر میں قحط متاثرین امداد کے منتظر
پاکستان کے صوبہ سندھ میں تھرپارکر کے بعض علاقے شدید قحط سالی کی لپیٹ میں ہیں۔پچھلے چند ماہ میں غذائی قلت اور پانی کی کمی کے باعث بیماریاں پھیلنا شروع ہوئیں تو تھر کے 140سے زائد بچے غذائی کمی ، بھوک اور پیاس کی وجہ سے موت کے منہ میں جا پہنچے، جس کے بعد الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا نے متاثرین کی بے بسی کی داستانیں نشر اور شائع کرنا شروع کیں تو انتظامیہ کو بھی ہوش آگیا اور متاثرین کے لیے دس کروڑ روپے کے امدادی پیکیج کا اعلان کردیا گیا۔ نااہلی پر افسر معطل ہونے لگے۔ وزیر اعظم پاکستان، چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی اور سندھ حکومت نے بھی نوٹس لے لیا۔افسوس اس بات کا ہے کہ یہ بچے اس عرصے میں جاں بحق ہوتے رہے، جب سندھ حکومت سندھی ثقافت اجاگر کرنے کے نام پر اربوں روپے خرچ کر رہی تھی۔اخبارات اور ٹی وی چینلوں پر اشتہارات کی مد میں کروڑوں روپے خرچ کئے جارہے تھے۔ جاں بحق ہونے والے بچے اور ان کے خاندان بھی اسی سندھی ثقافت کے امین تھے ،جس کا ڈھنڈورا پیٹاجارہا تھا، لیکن وہ معصوم بچے اپنے ماں باپ کی آنکھوں کے سامنے بھوک اور پیاس سے بلک بلک کر دم توڑتے رہے۔ انہیں علاج کے لئے ہسپتال اور ادویات میسر نہیں تھیں، مگر سندھی ثقافت پروان چڑھانے والوں کو ان کی کوئی فکرنہ تھی۔سندھی ثقافت کا سب سے زیادہ نعرہ بلند کرنے والے ٹیوٹر ماسٹروںنے بھی اس مسئلے پر خاموشی اختیارکئے رکھی، جیسے ان کے نزدیک یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا۔ اس وقت جب پانی سر سے گزر چکا ہے اور تھرپارکر میں صورت حال ایک زبردست انسانی المیے کی شکل اختیار کر چکی ہے توبھرپور امدادکے دعوے کئے جارہے ہیں۔
تھر متاثرین کی طرف دیکھیں تو ان کی بے بسی دیکھ کر رونا آتا ہے۔ فوت ہونے والے زیادہ تر بچے نومولود اور دوسے تین سال کی عمر کے ہیں۔قحط ، غذائی قلت اورطبی سہولتیں نہ ہونے کے باعث مقامی لوگوں کی نقل مکانی کا سلسلہ جاری ہے۔خشک سالی کی وجہ سے ان کے مال مویشی مر چکے ہیں۔کھانے پینے کے لئے کچھ بچا اور نہ بچوں کی دوائی کے لئے پیسے، ایسے میں گاﺅں کے گاﺅں خالی ہو رہے ہیں اور وہ شہروں کا رخ کر رہے ہیں۔سینکڑوں کی تعداد میں گاﺅںایسے ہیں، جہاں سے لوگ مکمل طور پر نقل مکانی کر چکے ہیں۔تھر میں جاری موت کے اس رقص کے بارے میں خبریں نشر ہونے کے بعد اعلیٰ حکام خواب غفلت سے بیدار تو ہوئے ہیں، لیکن ابھی تک ان لوگوں کی امداد کے لئے مناسب کارروائیاں نہیں کی گئیں۔ صوبائی وزرا¿ اور انتظامیہ ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر مٹھی پہنچ رہے ہیں، جہاں مقامی انتظامیہ نے اپنی کارکردگی دکھانے کے لئے شہر کی گلیوں کی صفائی ستھرائی کا کام زور و شور سے شروع کررکھاہے، خوراک اور ادویات سے بھرے بیسیوں ٹرک مٹھی میں ہی موجود ہیں، دور دراز کے قصبوں اور دیہات میں موجود افراد کے لئے اب تک کسی بھی قسم کا کوئی امدادی کام شروع نہیں کیا گیا۔تھرپارکر ضلع کے بڑے شہروں اسلام کوٹ، ڈیپلو، چھاچھرو، نگر پارکر اور دیگر قصبوں سمیت کسی دیہات میں اب تک نہ کوئی میڈیکل کیمپ قائم کیا گیا ہے اور نہ ہی کوئی ٹیم یہاں پہنچ پائی ہے۔بچوں کی اموات رکنے کا نام نہیں لے رہیں۔ہسپتالوں میں غذائی قلت کے شکار مریض بچوں کی تعداد میں بھی تشویشناک حد تک اضافہ ہو گیا ہے۔ صرف24 گھنٹوں کے دوران 375 بچے سول ہسپتال مٹھی لائے گئے ہیں۔ بھوک اور پیاس کی تکلیف سے بلکتے یہ بچے، تھرپارکر کے مختلف علاقوں سے غذائی قلت کا شکار ہو کر سول ہسپتال مٹھی پہنچے ہیں۔
تھرپارکر میں اعلیٰ حکام کی طرف سے بھوک اور بیماریوں سے سسکتے عوام کے لئے امدادکے دعوے تو بہت کئے جارہے ہیں، مگر صورت حال ابھی تک یہ ہے کہ سرکاری گوداموں کو تاحال تالے لگے ہوئے ہیں۔یہ بات بھی میڈیا کے ذریعے منظر عام پر آچکی ہے کہ تھرپارکر انتظامیہ نے گندم کی ترسیل کے لئے فنڈز نہ ہونے کا بہانہ بنا کر تقریباً بیس کروڑ ستر لاکھ روپے مالیت کی ساٹھ ہزار بوری گندم کی تقسیم ڈیڑھ ماہ تک روکے رکھی۔اسی طرح محکمہ خوراک کی جانب سے گذشتہ سیزن میں تھرپارکر کے قحط زدہ افراد کے لئے تقریباً باسٹھ کروڑ روپے مالیت کی دی گئی دو لاکھ اکیس ہزار بوری گندم کی رقم تاحال ریلیف کمشنر سندھ نے محکمہ خوراک کو ادا نہیں کی ، جبکہ محکمہ خوراک کو تھر کے لئے مزید ساٹھ ہزار بوری گندم کا بندوبست کرنے کے لئے کہا گیا ہے۔یہ بھی کہاجارہا ہے کہ تھرپارکر میں بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے وزیر اعلیٰ سندھ نے محکمہ خوراک کو ریلیف کمشنر کے توسط سے تقربیاً بیس کروڑ ستر لاکھ روپے مالیت کی ساٹھ ہزار بوری گندم ڈپٹی کمشنر تھرپارکر کے سپرد کرنے کی ہدایت کی تھی تاکہ قحط زدہ افراد میں بروقت تقسیم کی جاسکے، لیکن ریونیو افسران نے ڈیڑھ ماہ قبل پہنچنے والی گندم کی تقسیم روکے رکھی اور جب میڈیا میں شور مچا تو کہہ دیا گیا،کہ ضلعی انتظامیہ کے پاس تو گندم دور دراز علاقوںمیں پہنچانے کے لئے ٹرانسپورٹیشن کے فنڈز ہی نہیں تھے۔یہ سراسر اپنی غفلت اور نااہلی چھپانے کی کوشش ہے، جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ نے بھی تھرپارکر میںگندم کی تقسیم میں غفلت کا اعتراف کر لیا ہے اور مرنے والے بچوں کے لواحقین کے لئے فی کس دولاکھ روپے اور قحط متاثرین کے لئے ایک لاکھ بیس ہزار گندم کی بوریاں مفت تقسیم کرنے اور ادویات کے لئے ایک کروڑ روپے دینے کا اعلان کیا ہے۔ادھر تھرپارکر میں قحط زدگان کی امداد کے لئے فوج طلب کی گئی ،جس نے بھرپور انداز میں امدادی کارروائیاں شروع کر رکھی ہیں۔حیدر آباد فوجی چھاﺅنی سے فوجی جوان بڑی تعداد میں غذائی اشیاءاور ادویات لے کر گئے ہیں۔ طبی عملہ بھی ان کے ہمراہ ہے۔ وزیر اعظم پاکستان نواز شریف نے بھی این ڈی ایم اے کو فوری طور پر امدادی سرگرمیاں بھرپور انداز میں جاری رکھنے کی ہدایات جاری کی ہیں، لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ سندھ حکومت نے تھر میں بچوں کی اموات پر پنجاب حکومت کی امداد کی پیش کش مسترد کر دی ہے۔ حکومت پنجاب کی جانب سے تھرپارکر کے قحط زدگان کے لئے حکومت سندھ کو ادویات، غذائی اجناس اور دیگر ضروریات زندگی امداد کے طور پر بھیجنے کی پیش کش کی گئی تھی، جسے سندھ حکومت نے یہ کہہ کر لینے سے انکار کر دیا کہ انہیں ابھی امداد کی ضرورت نہیں ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔
متاثرین کی جو کوئی بھی مدد کرنا چاہئے، اسے اس کی اجازت دینی چاہئے۔حکومت پاکستان کی طرح مختلف تنظیموں اور اداروںنے بھی تھرپارکر کے قحط زدگان کی مدد کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ بحریہ ٹاﺅن کے ملک ریاض نے بھی متاثرین کے لئے بیس کروڑ روپے کی امداد کا اعلان کیا ہے۔ بہرحال ابھی تک یہ بات دیکھنے میں آئی ہے کہ وہ ادارے اور تنظیمیں جو تھرپارکر میں پچھلے کئی برسوں سے کنویں کھدوانے اور ہینڈ پمپ لگوانے جیسے واٹر پروجیکٹس پر کام کر رہی ہیں، وہ اپنے مضبوط نیٹ ورک کی وجہ سے متاثرین کی صحیح طریقے سے امداد کا فریضہ سرانجام دے رہی ہیں۔ ان تنظیموںمیں جماعت الدعوة اور اس کا ادارہ فلاح انسانیت فاﺅنڈیشن خاص طور پرقبل ذکر ہے ،جس کے رضاکار صرف مٹھی شہر ہی نہیں، بلکہ ڈیپلو، اسلام کوٹ، پانیلو، پانیلی، چھائی ، چھاچھری، دھرم ، پارانو وغیر ہ میں بھی ریلیف سرگرمیوںمیں مصروف ہیں۔ جماعت الدعوة پچھلے چند برسوںمیں یہاں واٹر پراجیکٹس پر کثیر مقدار میں رقوم خرچ کر چکی ہے، جس کا تذکرہ تھر کے باسیوںکی زبانی بخوبی سناجاسکتا ہے۔
اب بھی قحط اور خشک سالی کے موقع پر جماعت الدعوة کے ادارے فلاح انسانیت کے رضاکار سب سے زیادہ متحرک اور دور دراز کے دیہاتوںمیں امداد پہنچاتے نظر آتے ہیں۔ تھر کے علاقوںمیں موجود الیکٹرانک و پرنٹ میڈیاکے نمائندے بھی ان کی امدادی سرگرمیوں کی گواہی دے رہے ہیں۔جماعت الدعوة کا یہی وہ کردار ہے جس کی وجہ سے جب امریکہ کی طرف سے اس کے ادارہ خدمت خلق پر پابندی لگائی گئی تو سندھ اور تھرپارکر کے ہندوﺅں نے جماعت الدعوة کے حق میں زبردست احتجاجی مظاہرے کئے اور ان پابندیوںکو ختم کرنے کامطالبہ کیا تھا۔ فلاح انسانیت فاﺅنڈیشن پاکستان کے چیئرمین حافظ عبدالرﺅف ، خالد سیف اور دیگر اہم ذمہ داران اس وقت متاثرہ علاقوںمیں موجود ہیں اور اپنی نگرانی میں متاثرین کے لئے پکی پکائی خوراک، دودھ،بسکٹ و دیگر اشیائے خوردونوش کی تقسیم اور مریضوں کے علاج معالجے کے لئے میڈیکل کیمپنگ کا اہتمام کر رہے ہیں۔مَیں سمجھتا ہوں کہ بلوچستان اور سندھ کے بہت سے علاقوں کے لوگ محرومیوںکا شکار ہیں اور جماعت الدعوة کے سربراہ حافظ محمد سعید کی یہ بات با لکل درست ہے کہ اپنے ان بھائیوںکی مدد کر کے ہمیں ان کی محرومیوں کا ازالہ کرنا چاہیے۔ اسی سے ان کے دل جیتے جاسکتے ہیں ۔یہ ہم سب کے لئے لازم اورہمارا اہم دینی فریضہ بھی ہے۔