چھبیسویں قسط۔ ۔ ۔فلمی ا دبی شخصیات کے سکینڈلز 

چھبیسویں قسط۔ ۔ ۔فلمی ا دبی شخصیات کے سکینڈلز 
چھبیسویں قسط۔ ۔ ۔فلمی ا دبی شخصیات کے سکینڈلز 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ہمالیہ والا کے حوالے سے ہم نے مشرقی سفر کا تذکرہ کیا ہے۔ یہ پہلا موقع تھا کہ مغربی پاکستان کے فلمی ستارے مشرقی پاکستان گئے تھے اور وہاں ان کا والہانہ استقبال کیا گیا تھا۔ اس قت ڈھاکہ میں بھی فلم سازی کا آغاز ہو چکا تھا مگر زیادہ تر فلمیں بنگلہ زبان میں بنائی جاتی تھیں۔ دراصل اردو فلمیں بنانے کی راہ میں بہت سی دشواریاں تھیں۔ نہ لکھنے والے میسر تھے نہ شاعر۔ اداکاروں کا اردو کا تلفظ اور لب و لہجہ بھی درست نہیں تھا۔ وہاں اردو فلموں کا آغاز ہوا تو ابتدا میں وہاں کے فلم ساز موسیقی تیار کرانے کے لئے لاہور ہی آیا کرتے تھے۔ کئی فلموں کی فلم بندی بھی لاہور میں ہوئی۔

فلمی، ا دبی شخصیات کے سکینڈلز ۔ ۔ ۔ پچیسویں قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

خوش قسمتی سے مشہور شاعر سرور بارہ بنکوی ڈھا کا ہی میں تھے۔ فلم سازوں نے انہیں تلاش کر لیا اور بے فکر ہو گئے۔ سرور صاحب نے گانے اور مکالمے لکھنے شروع کر دیے۔ شاعر تو وہ بے بدل تھے ہی مگر مکالمے بھی بہت اچھے لکھتے تھے۔ اداکاروں کو اردو مکالموں کی ادائیگی بتانے کے لئے بھی سیٹ پر موجود رہتے تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سرور صاحب نے ڈھاکہ میں اردو فلمیں بنانے کے سلسلے میں بہت مدد کی اور فلم سازوں کی بہت سی مشکلات دور کر دیں۔ وہ ہدایت کاروں کے بھی استاد بن گئے اور اداکاروں کے بھی۔ ڈھاکہ کی فلمی صنعت میں سبھی ان کی عزت کرتے تھے۔ شبنم کو اردو سکھانے میں بھی سرور صاحب کا بہت بڑا حصہ ہے۔ وہ بے حد شگفتہ مزاج‘ وضع دار اور خوش اخلاق انسان تھے۔ دوسروں کے کام آکر انہیں خوشی ہوتی تھی۔ ڈھاکہ والوں نے بھی انہیں سرآنکھوں پر بٹھایا اور ہر طرح ان کی پذیرائی کی۔ ہر ایک سے ان کے گھریلو تعلقات تھے۔ لاہور آتے تو شبنم کے گھر میں قیام کرتے تھے۔ شبنم اور روبن گھوش بھی انہیں گھر کا ایک فرد ہی سمجھتے تھے۔ سرور صاحب نے بہت عمدہ اور معیاری نغمے لکھے ہیں۔ بعد میں فلم ساز اور ہدایت کار بھی بن گئے۔ ان کی ایک فلم ’’تنہا‘‘ میں کام کرنے کے لئے شمیم آراء بھی ڈھا کہ گئی تھیں۔ یہ فلم بہت آرٹسٹک تھی مگر کامیاب نہ ہو سکی۔ ہارون اس کے ہیرو تھے۔ سرور صاحب نے بعد میں اردو فلمیں بھی بنائیں۔ ادب میں بھی ان کا مقام بہت بلند تھا۔ بہت خوش الحان تھے۔ ترنم سے اشعارپڑھتے تو سماں سا بندھ جاتا تھا۔ مگر جب بھی دوستوں کی محفل میں بیٹھتے تو ان کی کوشش ہوتی تھی کہ شعروشاعری کی نوبت نہ آئے۔ لطیفہ بازی‘ ادب اور فلم کے بارے میں ہی گفتگو ہوتی رہے۔ مگر سب گھیر گھار کر ان کو غزل سرائی کی طرف لے آتے تھے۔ ایسی محفلیں بھی ہوئی ہیں جن میں حمایت علی شاعر اور سرور بارہ بنکوی دونوں موجود تھے اور شاعری کا دور چلا تو رات گئے تک جاری رہا۔ سرور صاحب کو ڈھاکہ سے اور ڈھاکہ والوں کو سرور صاحب سے عشق تھا۔ بنگلہ دیش بنا تو وہ پاکستان آ گئے اور کراچی میں قیام کیا لیکن جوں ہی موقع ملا ڈھاکہ چلے گئے اور ڈھاکہ کے فلم والوں نے انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا حالانکہ دونوں ملکوں کے لوگوں میں خاصی کشیدگی اور شکوہ شکایت کی فضا پائی جاتی تھی۔ لیکن سرور صاحب کی بات علیحدہ تھی۔ لوگوں کا خیال تھا کہ بنگلہ دیش والے ابھی کچھ عرصے ناراض رہیں گے مگر سرور صاحب وہاں سے مشترکہ فلم سازی کا معاہدہ کر کے آگئے جس کی وہاں کی حکومت نے بھی منظوری دے دی تھی۔ اس اعتبار سے بنگلہ دیش اور پاکستان کے مابین مشترکہ فلم سازی کی راہ سرور صاحب نے ہی ہموار کی تھی۔ لیکن اس معاہدے کی تکمیل کے سلسلے میں انہیں بہت پریشانیاں اٹھانی پڑیں۔ مالی حالات بھی خراب ہو گئے مگر سرور صاحب نے کبھی ان چیزوں کا اظہار نہیں کیا۔ لیکن ایک دو بار میرے سامنے یہ خیال ظاہر کیا کہ وہ ڈھاکہ جا کر رہنا چاہتے ہیں۔
ہم سے ان کی خاصی بے تکلفی تھی اور وہ میری باتوں پر ہنستے رہتے تھے۔ انتقال سے چند دن پہلے ایک روز مال روڈ کی ایک دکان پر ملے۔ حسب معمول بجھا ہوا پائپ ان کے منہ سے لگا ہوا تھا۔ یہ ان کی عادت تھی کہ بہترین تمباکو ’’ایرن مور‘‘ استعمال کرتے تھے مگر صبح ایک بار پائپ بھرتے تو وہی شام تک چلتا رہتا۔ سلگا کر ایک دو کش لگاتے اور باتوں میں مصروف ہو جاتے۔ پائپ بجھ جاتا تو کچھ دیر بعد پھر جلا لیتے۔ جلا نے بجھانے کا یہ سلسلہ رات تک چلتا رہتا۔ کسی زمانے میں ہم بھی پائپ پیا کرتے تھے اور تمباکو ’’ایرن مور‘‘ ہماری کمزوری تھا بلکہ درحقیقت اس کی مہکتی ہوئی خوشبو کے لالچ میں آکر ہی ہم نے یہ تمباکو استعمال کرنا شروع کیا تھا۔ رفتہ رفتہ اس کی قیمت بڑھتی گئی مگر ایرن مور کے شیدائی بلیک میں بھی اس کی تلاش کر کے لاتے تھے۔ جب سرور صاحب کے ساتھ ملاقات ہوتی تو ہم ان کے ڈبے کا استعمال شروع کر دیتے۔ وہ سارے دن میں ایک یا دو بار پائپ بھرتے ہوں گے مگر ہم دو تین گھنٹے میں ہی تین چار پائپ بھر کر پھونک ڈالتے۔ لوگ ان سے کہتے تھے کہ یہ آپ کے مال پر عیاشی کرتا ہے‘ تمباکو کا ڈبا اس سے بچا کر رکھیں مگر سرور صاحب مسکراتے رہتے۔ ان کا ذوق بہت اچھا تھا۔ لباس ہو‘ کھانا ہو‘ تمباکو ہو‘ چائے ہو یا شاعری ہو۔ ہر چیز میں اعلیٰ ترین سے کم پر سمجھوتا نہیں کرتے تھے۔ لباس سادہ استعمال کرتے تھے مگر تراش خراش اور کپڑے کا استعمال غضب کا ہوتا تھا۔
ایک روز ہم اپنی بیگم کے ساتھ ایک دکان پر کھڑے تھے کہ اچانک فضا میں ’’ایرن مور‘‘ کی خوشبو پھیل گئی پھر دو گرم اور ملائم ہاتھوں نے ہماری آنکھوں بند کر دیں۔ دیکھا تو سرور صاحب پائپ منہ میں دبائے کھڑے تھے۔ کچھ دیر باتیں کرتے رہے۔ بتایا کہ ڈھاکہ جانے والا ہوں۔ اب وہیں اپنے پرانے مکان میں رہا کروں گا۔ ہم نے کہیں بیٹھ کر چائے نوشی کی دعوت دی مگر وہ جلدی میں تھے۔
چند دن بعد ڈھاکہ سے ان کے انتقال کی خبر آئی تو یقین نہیں آیا۔ وہ ڈھاکہ کے عشق میں وہاں گئے تھے اور اسی زمین میں دفن ہو گئے۔

جاری ہے۔ ستائیسویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
(علی سفیان آفاقی ایک لیجنڈ صحافی اور کہانی نویس کی حیثیت میں منفرد شہرہ اور مقام رکھتے تھے ۔انہوں نے فلم پروڈیوسر کی حیثیت سے بھی ساٹھ سے زائد مقبول ترین فلمیں بنائیں اور کئی نئے چہروں کو ہیرو اور ہیروئن بنا کر انہیں صف اوّل میں لاکھڑا کیا۔ پاکستان کی فلمی صنعت میں ان کا احترام محض انکی قابلیت کا مرہون منت نہ تھا بلکہ وہ شرافت اور کردار کا نمونہ تھے۔انہیں اپنے عہد کے نامور ادباء اور صحافیوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا اور بہت سے قلمکار انکی تربیت سے اعلا مقام تک پہنچے ۔علی سفیان آفاقی غیر معمولی طور انتھک اور خوش مزاج انسان تھے ۔انکا حافظہ بلا کا تھا۔انہوں نے متعدد ممالک کے سفرنامے لکھ کر رپوتاژ کی انوکھی طرح ڈالی ۔آفاقی صاحب نے اپنی زندگی میں سرگزشت ڈائجسٹ میں کم و بیش پندرہ سال تک فلمی الف لیلہ کے عنوان سے عہد ساز شخصیات کی زندگی کے بھیدوں کو آشکار کیا تھا ۔اس اعتبار سے یہ دنیا کی طویل ترین ہڈ بیتی اور جگ بیتی ہے ۔اس داستان کی خوبی یہ ہے کہ اس میں کہانی سے کہانیاں جنم لیتیں اور ہمارے سامنے اُس دور کی تصویرکشی کرتی ہیں۔ روزنامہ پاکستان آن لائن انکے قلمی اثاثے کو یہاں محفوظ کرنے کی سعادت حاصل کررہا ہے)